حکومت پاکستان کے وزیر ریلوے شیخ رشید حال ہی میں اپنے کئی انٹرویوز او کالج شوز میں خبردار کرچکے ہیں کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی بہت بڑھ رہی ہے انہوں نے شہدائے کربلا کے چہلم کے موقعے پر انتہا پسندوں کی طرف سے ہی دہشت گردی کے منصوبوں کی تیاریوں کا بھی ذکر کیاہے ۔۔۔ شیخ رشید حکومتی حلقوں میں بےحد باخبر لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور ترین حلقوں سے اپنے قریبی تعلقات کی شیخیاں بگھارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
(شیخ جی کی ان شیخیوں کی کبھی کسی نے تردید بھی نہیں کی) اس لئے ان کی باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئیے اگرچہ شیخ صاحب کو گلہ ہے کہ ان کی باتوں کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جارہی۔۔۔ چند ہی روز پہلے کراچی میں ایک فرقہ وارانہ تنظیم کی طرف سے ایک کافی بڑا جلوس نکالا گیا اور اس میں مختلف مقررین کی طرف سے ایک مخصوص مسلک کے خلاف کھلم کھلا جس طرح کی نفرت انگیز تقریریں کی گئیں اور اس کے لئے تکفیر کے جو فتوے جاری کئے گئے اس پر پاکستان کے موجودہ قوانین کے تحت کسی کارر وائی کا آغاز تک نہیں کیا گیا ہو اس کے بارے میں ذرائع ابلاغ پر کوئی خبر نہیں دیکھنے میں آئی اور نہ ہی کسی چینل پر اس نفرت انگیز عمل کی کوئی مذمت کی گئی اور نہ کوئی تبصرہ ہوا البتہ سوشل میڈیا پر ان تقاریر کے کلپ خوب گردش کر رہے ہیں اور ظاہر ہے یہ محبت اور رواداری کے کسی پیغام کو نہیں پھیلا رہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ سوشل میڈیا کے بارے میں حکومت کے دعویٰ کردہ قوانین کا کیا ہوا؟ وطن عزیز میں قانون سازی کا شوق فزوں نت نئے جلوے دکھاتا ہے اور اس پر بغلیں بھی خوب بجائی جاتی ہیں اگرچہ اکثر تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس بارے میں کئی قوانین پہلے سے موجود تھے جن کو طاقت نسیاں میں رکھ دیا گیاتھا، ان نئے قوانین پر عملدرآمد کا بھی کوئی موثر میکنزم نہ یہاں موجود ہے اور نہ ہی اس کی کسی کو فکر ہے۔
پاکستان کے ارباب حل و عقد اپنے اس انداز فکر سے بھی باہر آنے کےلئے تیار نہیں کہ ” یہ عارضی سا معاملہ ہے بہت جلد ٹھنڈا پڑ جائے گا ” بعد میں کھلتا ہے کہ بات اتنی سادہ بھی نہیں تھی لیکن بربادی بہت ہو چکی ہوتی ہے ۔۔۔
اب فرقہ واریت کی اسی نئی لہر کے مسئلے کو لیجئے کیا یہ کسی مقامی مولوی یا کسی ایک خاص مقامی یا ملکی تنظیم کے جذباتی ابال کا کرشمہ ہے؟ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے ، تو پھر کیا ہے؟ بین الاقوامی تناظر میں دیکھیں تو یہ بات محض فرقہ وارانہ اور مذہبی ہونے کی بجائے عالمی نوآبادیاتی سیاست گردی کی حکمت عملی کا ایک ہولناک حربہ دکھائی دیتی ہے۔
عالمی استعماریت اپنے سیاسی شطرنج کی نئی بساط بچھا چکی ہے اور نت نئی چالیں چل رہی ہے ۔۔۔ مشرق وسطیٰ میں مصنوعی اور جبری انداز میں بدلی جانے والی سیاسی اور فوجی صورت احوال کی کرشمہ سازی ہے، یوں لگتا ہے کہ بس اچانک ہی مختلف عرب ممالک کو اسرائیل سے امن معاہدوں کا قائل کر کے مسحور کرلیا گیا ہے ، آج تو اور کل میں کے مصداق متحدہ عرب امارات اور بحرین کےبعد سعودی عرب، سوڈان ، مراکش وغیرہ کا ذکر کئی عالمی شہرت یافتہ ماہرین سیاست عالم کررہے ہیں۔
اس سلسلے میں پاکستان کی درپردہ رضامندیوں اور نیازمندیوں کا تذکرہ بھی اب کوئی نئی بات نہیں ہے اگرچہ کہا یہ جارہاہے کہ فلسطینیوں کی مرضی کےخلاف ہم کچھ نہیں کریں گے لیکن۔ تاریخ کے اس المیے میں ان مظلوموں کی مرضی کا کب کسی نے پوچھا ہے اور خیال رکھا ہے!
مشرق وسطی میں بچھی اس نئی بساط پر مقامی کھلاڑیوں میں امریکی استعماریت کا واحد مضبوط اور موثر مدمقابل ایران ہے جو عرب ممالک خصوصاً عراق ،شام، لبنان اور یمن وغیرہ میں استعمار مخالف قوتوں کی مدد کررہا ہے اس سلسلے میں ایران پر صرف شیعہ گروہوں کی سرپرستی کا الزام عائد کیا جاتاہے جو بہر حال آدھی سچائی ہے کیوں کہ اس پر اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کی القاعدہ اور ایک حد تک افغانستانی طالبان کے بعض گروہوں کی حمایت کرنے اور اس کے لیڈروں کو برسوں تک ایران میں پناہ دیئے رکھنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں حالانکہ یہ تنظیمیں بظاہر وہابی نظریات سے قریب تر کہی جاتی رہی ہیں، فلسطین میں بھی ایران پر یہ الزام لگانا غلط ہوگا لیکن عالمی استعماری طاقتیں ایران کو بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے کیلئے ہر ممکن اور انتہائی خوف ناک حربہ استعمال کرنے کا تہیہ کرچکی ہیں، مذہبی فرقہ وارانہ منافرت ان کی ظالمانہ سازشی حکمت عملی کا اہم ترین ہتھیار ہے اس لئے شیعہ سنی منافرت کو اسطرح ہوا دینے کےمنصوبےبن چکے ہیں کہ اس کا الزام کسی نہ کسی طور ایران پر لگایا جائے جس کیلئے استعماریت کا آلہ کار عالمی میڈیابھی تیاریوں میں لگا ہوا ہے۔۔۔
نفرت کے سفیر اپنے بین الاقوامی اور مقامی کارندوں سے رابطے قائم کر رہے ہیں ، بالواسطہ اور ضروری ہوا تو براہ راست فنڈنگ کے انتظامات بھی ہوچکے ہوں گے بس کسی بہانےتیلی لگانے کا انتظار ہے اس طرح کہ سبک فطری اور آٹومیٹک لگے۔۔۔ اس صورت احوال میں حکومت ایران اور دنیا بھر میں موجود شیعہ لوگوں اور ،diaspora کو بے حد محتاط اور خبردار رہنا ہی ہوگا دیگر ایک اسلام خصوصاََ سنی مسلک کی اکثریت کو بھی اس ظالمانہ استعماری سیاسی سازش کو سمجھنا چاہئیے۔۔کیوں کہ کئی بار مذہبی اور سیاسی معاملات کو گڈمڈ کر دینے کے نتائج پر بعد میں ہر کوئی پچھتاتا ہے جو بے سود ہوتا ہے۔ اس بحث کا مقصد یہ باور کروانا ہے کہ ایسی عالمی صورت حال میں شیخ رشید کا مذکورہ خدشہ لائق توجہ ہے۔ ایک اہم آر "باخبر”وزیر کی طرف سے بار بار ظاہر کئے جانے والے ان خدشات کے باوجود فرقہ وارانہ منافرت کے سفیروں کو ملنے والی کھلی چھوٹ کئی سلگتے سوال ابھارتی ہے جن کے جواب دینے والے نہ جانے کہاں ہیں اور ان کے اصل منصوبے خدا جانے کیا ہیں ؟
فیس بک کمینٹ