جب بظاہر سیاست دانوں کی ناکامی پر ایوب خان اور ان کے عسکری ساتھیوں نے (اکتوبر 1958 )اپنے مغربی اتحادیوں کی تائید سے نیم جاں صدر سکندر مرزا سے بندوق کی نوک پر استعفیٰ لیا اور قیام پاکستان کے نو برس بعد ـ’تیار ہونے والے‘1956 ء کے دستور کو منسوخ کیا،جس کے لئے مشرقی پاکستانیوں نے اپنی اکثریت کی قربانی،ریاست بہاولپور سمیت بعض ریاستوں اور سندھ کی بڑی شناخت کو معطل یا موخر کر کے ون یونٹ میں انضمام کو قبول کیا تھا کہ اس آئین کی منظوری کے بعد ملک میں پہلی مرتبہ عام انتخابات ہوں گے کیونکہ اس سے پہلے جو بھی انتخابات ہوئے وہ’جُھرلو‘ کہلائے۔تب ہمارے پہلے مرد آہن نے طے کیا کہ اہل پاکستان اپنی ناخواندگی اور ناپختگی کے سبب ابھی اس قابل نہیں کہ براہ راست صدر مملکت اور ارکان اسمبلی کا انتخاب کر سکیں،سو اہل پاکستان کو جمہوریت کی بجائے ’بنیادی جمہوریت‘ کا تحفہ دیا گیا۔اس کے بعدآمریت کے تحفے باشعور طبقات پر ہی نہیں عام آدمی پر بھی عیاں ہوئے،معاشی اور صنعتی ترقی کے ثمرات بائیس کنبوں کی جھولی میں گرے،صحافت کے پر کترے گئے تاکہ مشرقی پاکستان ، بلوچستان ،سندھ اور سرحد کے ساتھ بہاولپور کا اضطراب امیر محمد خان اور عبدالمنعم خان کے شکنجے میں جکڑا رہے،وگرنہ تشدد کے لئے لاہور کا شاہی قلعہ موجود تھا،تب سے سماجی یا سیاسی تبدیلی کے آرزو مندوں کے لئے لاہور کی ساری تہذیب شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں سمٹ گئی۔ ابھی وہ دور بہت دور تھا جب پاکستان کی یونیورسٹیوں کو فکری قبرستان میں تبدیل ہونااور وکلا کی تنظیموں کو پیسے اور کرسی کے گرد رقصاں ہونا تھا،سو ’ایوب کتا‘ کے نعروں کے ایوان صدر میں پہنچنے کے بعد ایوب خان نے اپنے بنائے آئین[1962 ] اور نظام کو لپیٹا،یوں دوسرا مرد آہن جنرل محمد یحییٰ آغا آیا،جس کا ایک ساتھی ایر مارشل نور خان تھا،جو پیش قدم نئے اقدامات کا موجب بنا،ون یونٹ منسوخ ہوا،پاکستان کے تمام افراد کو غصب شدہ ووٹ کا حق دیا گیا اور نئی دستور ساز اسمبلی کی تشکیل کے لئے Legal Frame work Order نافذ کیا گیا۔مگر کرسی نشیں کی ہوسِ اقتدار سب اصلاحات کو لے ڈوبی۔مقبول سیاسی قیادتوں میں موجودفاصلے کو بڑھا کر،انتخابات کے لئے اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں میں روپیہ پیسہ بانٹ کر،مشرقی پاکستان کے سیاسی مزاج کو سمجھنے کے لئے الطاف قریشی اور زیڈ اے سلیری جیسے ـ’تجزیہ نگاروں‘ کے تخمینوں پر بھروسہ کیا،اپنے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کے وضع کردہ نظریہ پاکستان کا اطلاق بنگالیوں پر بھی کرنا چاہا۔ مقامی لوگوں کے اشتعال کو کچلنے کے لئے البدر اور الشمس کو تشکیل دیا گیا،اور پھر جو کچھ ہوا وہ قومی تاریخ کا المناک باب ہے مگر ہماری تاریخ کے اس رنگیلے جرنیل کی سنجیدگی کا اندازہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ،صدیق سالک کی کتاب یا ایک دو جرنیلوں کی کتابوں سے نہ ہو تو آغا ناصر کی آخری کتاب پڑھ لینی چاہیئے جب 16 دسمبر 1971 ء سے دو رات پہلے انہیں صدر مملکت نے فون کر کے کہا کہ آج خبرنامے کے بعد یہ گانا سنوا دو’کل چودھویں کی رات تھی‘ اس وقت ان کے ساتھ سندھ کے موجودہ گورنر اور پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما کے اباجی جنرل محمد عمر بھی بیٹھے تھے۔اس ہزیمت کے بعد اس کمزور ہو جانے والے جنرل نے ’اسلامی آئین‘ کے نفاذ کی کوشش کی،مگر نوجوان افسر بپھر گئے تب فوج کو بادل نا خواستہ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار دینا پڑا،تاکہ بھارتی قید سے نوے ہزار فوجی واپس آ سکیں اور اقوام عالم میں ہماری ساکھ کچھ بہتر ہو سکے،بھٹو دور میں متواتر طاقت ور حلقوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ ہوا کہ یہ عسکری شکست تھی نہ اس میں جرنیلوں کی بے تدبیری اور عیاشی کو دخل تھا بلکہ یہ بھٹو کی ہوس اقتدار کا نتیجہ ہے۔اس کی والدہ ’ہندو‘ تھی، وہ سندھ دھرتی کا بیٹا ہے اور دھرتی کا بیٹا ہونا اس نظریہ پاکستان کی رو سے جرم ہے،جس کے مطابق پاکستان ایک سرزمین کا نام نہیں بلکہ مقدس نظریہ ہے ،سو پاکستان کی تاریخ،ثقافت اور زبان ان مہاجرین کے زاد راہ کی عطا کردہ ہے جو تقریباً ایک کروڑ کی تعداد میں بھارت سے 14 اگست 1947 ء یا اس کے بعد تشریف لاتے رہے ،اس سرزمین پر اس تاریخ سے پہلے بسنے والے جنگلی اور غیر مہذب تھے وہ گونگے اور ان کی مائیں بہری تھیں۔
10 اپریل 1973 ء کو پاکستان کے متفقہ دستور پر جن چار ارکان اسمبلی نے دستخط نہ کئے ان میں مخدوم نور محمد(خسرو بختیار کے دادا) اور میاں نظام الدین حیدر شامل تھے ،تب ریاست بہاولپور کی بحالی کے لئے احتجاجی تحریک بھی چلی،جس میں چند جانیں بھی گئیں۔ایر مارشل اصغر خان نے جو اس سے پہلے مجیب الرحمن کی حمایت کر چکے تھے،اس تحریک کی حمایت کی مگر حکومت کے زیر اثر بعض اخبارات نے اس تحریک کے ایک قائد کی قابل احترام صاحبزادی کے اصغر خان پر گہرے اثرات کے بارے میں باتصویر افسانے تراشے،مگر یہ حقیقت ہے کہ تیسرے مرد آہن نے اپنی ہوسِ اقتدار کی تسکین اور بھٹو کے’بھوت‘ سے نجات کے لئے ایک طرف تو بھٹو مخالف بلوچ،پٹھان لیڈروں سے’برادرانہ‘ تعلقات استوار کئے،دوسری طرف جی ایم سید ہی نہیں بھٹو مخالف ہر سندھی لیڈر کو گلے لگایا اور کراچی کے الطاف حسین اور ان کی مہاجر قومی تحریک کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا،حالانکہ وہ ان کی پسندیدہ جماعت اسلامی کے تشدد کے ستائے ہوئے تھے،ادھر پنجاب میں جالندھر اور ارائیں مہاجروں پر اپنی شفقت ارزاں کی اور پھر اپنے تمام تضادات پر جنرل شیر علی کے وضع کردہ نظریہ پاکستان کی چادر اوڑھا دی،جسے مقدس بنانے کے لئے جماعت اسلامی نے بہت تعاون کیا اور اس کے عوض تعلیم اور اطلاعات کی وزارتیں حاصل کیں،صالحیت کے پیکر میں ڈھلی پنجاب یونیورسٹی سے قیادت،نصاب اور یک رخا ذہن بھٹو کی بنائی ملتان اور بہاولپور یونیورسٹیوں پر مسلط کیا گیا،اسی کے رد عمل میں ملتان یونیورسٹی(جسے قریشی خاندان کے ایک نمک خوار غضنفر مہدی کی مصنوعی تحریک کے نتیجے میں ایک نیم خواندہ گورنر جنرل سوار خان نے بہا الدین زکریا یونیورسٹی کر دیا تھا) میں پہلی مرتبہ اسلامی جمیعت طلبہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ’سرائیکی شاگرد سانجھ‘ بنی،جس کی تشکیل میں ممتاز کلیانی،امجد خان،راشدہ قاضی اور بہت سے لیہ اور ڈی جی خان کے طالب علم اور استاد فدا حسین گاڈی اور مظہر عارف کی آشیرداد شامل تھی۔مگر بڑی پیش رفت اس خطے میں ریڈیو سٹیشن کا قیام ہے۔ریڈیو ملتان جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں قائم ہوا(21 نومبر 1970ء )،اس کا سنگ بنیاد وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان نے رکھا،انہوں نے اپنے وضع کردہ نظریہ پاکستان کی مطابقت میں سنگ بنیاد پر قمری یا اسلامی تاریخ لکھوائی(20 رمضان المبارک 1390ء)اس کے دوسرے سٹیشن ڈائرکٹر الیاس عشقی غیر معمولی انسان تھے،اردو،فارسی ادبیات کا ذوق رکھتے تھے تصوف اور ثقافت سے اتنی محبت تھی کہ پہلے سندھی کو اپنے اوپر اوڑھا اور پھر سرائیکی کی طرف بھی آئے، اسلم انصاری،حسن رضا گردیزی ،عمر کمال خان اور عتیق فکری کے گرویدہ تھے وہ 10 اگست 1971 سے 30 جولائی 1974 ء تک سٹیشن ڈائرکٹر رہے،اگرچہ پہلے دن سے ہی اس سٹیشن میں اردو کے ساتھ پنجابی اور سرائیکی نشریات کا آغاز ہو گیا تھا تاہم سرائیکی پروگراموں کی نوعیت اور دورانیے میں اضافہ دراصل الیاس عشقی مرحوم کے زمانے میں ہوا،خبروں کے ساتھ،جمہور دی آواز،ادبی پروگرام[سچے موتی] فیچر ،موسیقی اور ڈرامے سرائیکی میں نشر ہونے لگے۔مجھے وہ پہلا دن یاد ہے جب ریڈیو ملتان پر شمشیر حیدر ہاشمی،ملک عزیز الرحمن،فخر بلوچ ، قیصر نقوی،انور جٹ، اور دیگر دوستوں کی سرائیکی سن کر سڑکوں پر،گھروں میں،دکانوں اور کھیتوں میں لوگ نہال ہو گئے۔فخر بلوچ نے 1973ء میں مجھ سے ایک نیم فیچر نیم سرائیکی ڈرامہ ـ’ساوا گھر‘ آئین کی منظوری کے حوالے سے لکھوایا ۔اور پھر ارشد ملتانی،حبیب فائق،عامر فہیم،طاہر تونسوی،مہر عبدالحق،عتیق فکری،اصغر ندیم سید،اسلم انصاری اور کئی دوسرے دوستوں کے ساتھ مذاکرے اور پروگرام یاد آ رہے ہیں۔18 اگست 1975 کو بہاولپور میں ریڈیو سٹیشن کا آغاز ہوا تو سرائیکی قومیت اور طرز احساس کو تقویت ملی۔یہاں نصراللہ خان ناصر جیسا بہت پڑھا لکھا ثقافتی کردار ابھر کر سامنے آیا،اس نے اس خطے پر عالمی معیار کے صوتی دستاویزی پروگرام کئے،اپنی ڈاکٹریٹ کے لئے تمام کتاب خانوں کا سروے کیا اور خود بھی بہت عمدہ شاعری کی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سرائیکی کو بھی منظم کیا۔یہاں مجھے پاکستان رائٹرز گلڈ کے ریاض انور اور بزم ثقافت کے سردار عبدالجبار کو یاد کرنے دیجئے جنہوں نے ایوب خان کے دور میں بھی تین روزہ جشن فرید قلعہ کہنہ ملتان پر منعقد کیا،جس میں اردو کے ساتھ سرائیکی مشاعرہ اور محفل موسیقی اور مجلس مذاکرہ کا تاثر آج بھی غیر معمولی واقعہ لگتا ہے۔اس کے بعد ایک بڑی پیش رفت زکریا یونیورسٹی میں 2000 ء میں سرائیکی ریسرچ سنٹر کا قیام ہے،جہاں ایم اے سرائیکی کلاس کا اجرا ہوا بہت عمدہ لائبریری اور میوزیم قائم ہوا اور کمپیوٹر لیب بھی۔
ہمارے ہاں کریڈٹ لینے والوں کی کمی نہیں مگر ہمیں اپنے عظیم کلاسیکل شاعروں سچل سرمست،مولوی لطف علی اور خواجہ غلام فرید کے ساتھ نثر نگاروں کا بہت ممنون ہونا چاہیئے،وہ چاہے گمنام پادری کیوں نہ ہو جس کا بائبل کا سرائیکی ترجمہ انیسویں صدی کے اختتام پر امرتسر سے شائع ہوا، چاہےــ’مغربی پنجابی ‘ کے نام سے کیونکہ ایک حقیقت ہے کہ ملتانی اس کا اصل تاریخی اور تہذیبی نام تھا،جسے لسانی اتفاق رائے کے نام پر تب کے سیانوں کی طرف سے 1962 میں سرائیکی میں تبدیل کیا گیا ۔ریاست بہاولپور بھی علمی کاوشوں میں مددگار ہوئی،تاہم ہمیں مہر عبدالحق(پی ایچ ڈی کا مقالہ اور دیگر کتب)،نور احمد فریدی(بلوچی اور سرائیکی ادب کے لئے جرائد کا اجرا) عتیق فکری،خان رضوانی،عمر کمال خان، عاشق بزدار، اسلم رسول پوری،ارشد ملتانی، عامر فہیم، طاہر تونسوی،شوکت مغل، ابن حنیف، مظہر عارف،حفیظ خان،رفعت عباس، سجاد حیدر پرویز،باسط بھٹی،ذوالفقار بھٹی ،روف کلاسرہ، مسرت کلانچوی،اشو لال اور دیگر دانش وروں کا ممنون ہونا چاہیئے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی تحریروں[تخلیقی اور علمی] سے ہماری زبان کو ثروت مند بنایا بلکہ ہمیں ایک شناخت بھی دی۔اس میں منصور ہاشمی کا اب ذکر ہونا چاہیئے جو مانچسٹر سے سرائیکستان ڈاٹ کام سے ایک ویب سائٹ کا اجرا کر رہے ہیں،جس کا مقصد دنیا بھر میں اپنے اپنے شوق اور مشن سے کام کرنے والوں موسیقی کا ذوق رکھنے والوں،ثقافتی موتی چننے والوں،تخلیقی ہنر رکھنے والوں اور اپنی شناخت کی فیصلہ کن جدد جہد کر نے والوں کا مظہرایک پلیٹ فارم کو بنانا چاہتے ہیں اور جو یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب ہمارا ایک یا دو صوبے بنیں تو اس میں تعلیم،صحت،روزگار کے مواقع اور تحفظ تمام افراد کو ملے اور ہم فخر سے کہہ سکیں کہ آخر ملتان کو جس تہذیبی عمل نے میٹھا،پر امن اور روادار بنایا وہ پورے خطے میں قابل فخر اور مثالی نمونہ ہے۔
اب آ جائیے صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کی طرف جس کی تشکیل،اجزائے ترکیبی،مسلم لیگ کی شکست و ریخت کو یقینی بنانے والے پس پردہ عوامل کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے،مجھے اس کی تصدیق اور تردید کی کوئی ضرورت نہیں،مجھے تو صرف اس سے غرض ہے کہ ضیا الحق،حمید گل،جنرل جیلانی سے لے کر اشفاق پرویز کیانی تک نے تخت لاہور کی برہمنیت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کی تاکہ حسب منشا فیصلے کئے جائیں اور وفاق کا ملمع بھی برقرار رہے۔اس وقت جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس کی حرکیات سے اس خطے کی اجتماعی دانش کو فائدہ اٹھانا چاہیئے، کیونکہ:
1۔آج سے پہلے نئے صوبے کا سوال جنوبی پنجاب کے ووٹروں کے سامنے انتخابات کا محور نہیں بنا تھا۔
2۔بہاولپور اور ملتان کے ـ’اختلافاتـ‘ کو ہوا دینے والوں کے لئے یہ بات سوہانِ روح ہو گی کہ اس محاذ کی ترجمانی رحیم یار خان کے پاس ہے۔
3۔اس محاذ کے ارکان میں مقامی بھی ہیں اورـ’مہاجر‘ یا نیم مقامی بھی(70 برس کے بعد تو کوئی بھی خالص مہاجر نہیں رہتا،اور خاص طور پر محبت اور امن کی دھرتی پر سات عشروں سے بسنے کے بعد)
4۔اس محاذ نے سرائیکستان کے نام پر اصرار نہیں کیا۔
5۔اس محاذ میں ڈی جی خان سے سوائے لغاری خاندان کے مزاری،دریشک اور کھوسے موجود ہیں۔
6۔ڈاکٹر نخبہ لنگاہ،منصور کریم،ظہور دھریجہ،عباس برمانی اور دیگر دوستوں نے اس محاذ پر تحفظات ضرور ظاہر کئے ہیں،مگر اسے مسترد نہیں کیا۔
7۔پہلی مرتبہ پنجاب کی وہ جماعت اپنے پچھلے قدموں پر گئی ہے جس نے اب تک رعونت سے اس مطالبے کو مسترد کیا تھا یا سازش سے ناکام بنایا تھا،پھر شہباز شریف اور ان کی آل اولاد کا انداز حاکمیت اس خطے سے متواتر نا انصافیوں رفتہ رفتہ نسلی ،علاقائی اور لسانی امتیاز میں ظاہر ہو گیا،حتیٰ کہ ملتان سے محمد رفیق رجوانہ کو گورنر بنایا گیا اور انہوں نے جنوبی پنجاب کی یونیورسٹیوں میں ہی کچھ اقدامات لینے چاہے تو حکومت پنجاب کے ترجمان نے توہین آمیزانداز میں انہیں یاد دلایا کہ وہ وزیر اعلیٰ کے دفتر کی منظوری کے بغیر کوئی قدم اٹھانے کے مجاز نہیں۔غازی یونیورسٹی ڈی جی خان دو برس سے وائس چانسلر کے بغیر ہے،ویمن یونیورسٹی ملتان کا بھی یہی حال ہے ایک برس سے یہ منصب خالی ہے۔
ملتان میں اس صوبے کے حق میں شاکر حسین شاکر،رضی الدین رضی اور خالد مسعود بھی ہو سکتے ہیں،مگر وہ بعض جذباتی یا پرجوش لوگوں کے متعصبانہ نعروں سے کچھ تحفظات کے شکار ہیں۔ہم نے تو پانچ برس سے ایک ادبی و ثقافتی جریدے ـ’پیلوں‘ ملتان کے نام سے ایک تحریک چلا رہی ہے کہ اس خطے میں رہنے والی ساری مائیں قابل احترام ہیں اور سارے بچے مشترک انسانی اور پاکستانی اثاثہ ۔انہیں پروان چڑھانے والی لوریاں اور کہانیاں جس زبان میں بھی دی جائیں وہ ہمارے لئے قابل احترام ہے مگر آپ اس خطے میں صدیوں سے سرسراتی محبت بھری لوریاں اور کہانیاں سنیں تو سہی،جن کی تخلیق نو اور تزئین نو ہمارے باشعور شاعر کر رہے ہیں۔
فیس بک کمینٹ