ستارے آسماں پہ تھے
مگر تھا چاند ظلمت میں
نہ جانے تم کہاں پر تھیں
اکیلا میں بھٹکتا پھر رہا تھا
اور تصویریں ذہن میں خود ہی رقصاں تھیں
مری آنکھوں میں وہ دن تھا
جسے ہم ہر برس کتنی خوشی سے یوں مناتے تھے
برستاتھا کبھی ساون تو بجلی
آسمانوں میں چمکتی تھی
میں دروازے میں کمرے کے
کھڑا یوں دم بخود تکتا تھا بارش کو
کھڑی تم صحن کے اس پار ڈرتی تھیں
دعائیں مانگتی تھیں
مجھ سے کہتی تھیں
ادھر آجائیں بھائی جان
تم کو لگتا تھا
گرے گی برق یہ مجھ پر
ہنسے جاتا تھا میں
پیچھے سے امی ڈانتی تھیں
جس کو سن کے میں صحن کے پار جاتا تھا
برستا ہے یونہی ساون
چمکتی ہے رعد بھی بادلوں میں یوں
کھڑا کمرے کے دروازے میں
تم کو ڈھونڈتا رہتا ہوں میں گھنٹوں
مگر بارش برستی ہے
فلک بس روتا رہتا ہے
فیس بک کمینٹ