نہ شکائیتیں نہ حکائیتیں
نہ گلہ کوئی نہ جفا کوئی
نہ وہ تیری میری عداوتیں
نہ وہ روٹھنا کہ منا سکوں
وہی ایک رت ہے خزاں کی بس
جہاں فصلِ گل ہے حصار میں
نہ تمازتوں کی وہ دھوپ ہے
نہ پھوار عشق بہار کی
سبھی رنگ جیسے مسل گئے
رہا رنگ تیرے ملال کا
ترے پیار کی بس گھٹا رہی
مرے دن میں عصر زوال کا
جو رہا تو پھیلی زمین پر
اک اداس رنگ فلک رہا
مری حسرتوں کے مزار پر
نہ دعا کوئی نہ دیا کوئی
وہی ایک فصل ملال ہے
وہی ساعتوں کا زوال ہے
فیس بک کمینٹ