ہماری ایک رفیق کار اپنےموبائل پر ہمیں ایک تصویر دکھاتے ہوئے کہنے لگیں۔۔”لو دیکھو بابے دے کم(کام)”۔ہم نے دیکھا تو ایک بڑی عمر کے بڑے سرکاری عہدہ دار ساتھ بیٹھی خاتون کو مسکراتے ہوئے غور سے لیکن ترچھی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔بالکل ایسے جیسے بقول غالب”تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں”
۔لیکن کسی بےرحم کیمرہ مین نے عین اسی وقت کیمرے کی آنکھ سے دیکھ، کلک کا بٹن دباکر وہ منظر محفوظ کر لیا۔اور پھر
"دیکھنے والوں نے کیا کیا نہیں دیکھا ہوگا”
لیکن جناب حق انصاف کی بات کی جائے تو اگر ایک عمر میں عورت پر سے پردہ کی پابندی ختم ہو جاتی ہے تو اس عمر میں یا کچھ بعد” بابے” بن جانے والے مردوں کی نظروں کا بھی پردہ ختم ہو جانا چاہیئے۔۔نظر بازی کی اجازت کسی عمر میں تو دے دینی چاہئیے نا کہ اس عالم رنگ و بو میں جو بھی ہے دیکھنے کی چیز جاتے جاتے اسے بار بار دیکھ کر تو جائیں۔
لیکن ہم تو بھئی یوسفی صاحب کی بات کو دل و جان سے مانتے ہیں کہ "مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔”اور کیا پتا نہ بھی نکلتا ہو کہ عورت کی زبان کے حوالے سے تو ایک مشہور لطیفہ ہے”ایک آدمی کی بیوی زبان کی بہت تیز تھی۔فوت ہوگئی۔دفنا کر گھر کے دروازے تک ہی پہنچے تھے کہ آسمان پر زور س بجلی کڑکی۔شوہر نے اوپر دیکھا اور بڑبڑایا”لگتا ہے پہنچ گئی ہے”۔مرد حضرات لطیفے پر زیادہ دانت نہ نکوسیں کہ ہر سمجھ دار عورت خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ مردوں کے نیناں ان سے بھی بڑے دغا باز ہوتے ہیں۔اور یہ بھی سیانے ہی فرما گئے ہیں کہ عورت تو مرد کی نظر سے تاڑ جاتی ہے کہ اس کی نیت کیا ہے۔اور یہ ضروری بھی نہیں کہ ہر نیت کو مراد ہو۔اس لئے خود کو کیوپڈ سمجھ کر ہر کسی پرتیر چلانے کی ضرورت نہیں۔
ایک اور بڑا مستند قول ہے کہ عورت ہمیشہ اپنے کانوں سے اور مرد اپنی آنکھوں سے دھوکا کھاتا ہے۔اور پھر دہائی دیتے نہیں تھکتے کہ "قصور آنکھوں کا ہوتا ہے ،تڑپنا دل کو پڑتا ہے”پھر زبان خلق تو یہ بھی کہتی آئی ہے کہ پیار اندھا ہوتا ہے۔دھند ہو جائے یا پیار کچھ بھی نظر نہیں آتا۔اور کیا پیار صرف آنکھوں والوں کو ہوتا ہے جو بعد میں سر پیٹ رہے ہوتے ہیں کہ اس وقت ان کی آنکھوں میں پتا نہیں کونسے ککرے پڑ گئے تھے۔اورانکے عزیز،رشتہ دار اوردوست انہیں ملامت کرتے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں "پتا نہیں تونے اسے کیا دیکھ کر پسند کیا تھا۔نہ جی نا۔پیار تو احساس کا نام ہے اور اس کے لئے آنکھوں والا ہونا لازم نہیں ایسے ہی سارا الزام آنکھوں کے سر نہ ڈالاجائے۔ایسا نہ ہوتا تو ہمارے داستانوں کے شہزادے کسی بولنے والے طوطے کے مونہہ سے کسی ان دیکھی شہزادی کے حسن کے قصیدے سن کر اس پر دل و جان سے فریفتہ نہ ہو جاتے۔اور اس کے عشق میں دیوانے ہو کر اپنی جان جوکھم میں ڈال انجان اور ان دیکھی منزلوں کی جانب دور دراز کے سفرپر نہ نکل کھڑے ہوتے۔
پھر ہمارے شاعروں کی شاعری سے تو یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یار لوگ کسی ان دیکھی حسینہ کے د وپٹے کے پلو کے کسی کونے کی جھلک دیکھ کر بھی اس کے عشق میں دیوانے ہوتے رہے۔یا کسی نازک یا حنائی ہاتھ کی ایک جھلک نے ان کے دل کا سب چین و قرار لوٹ لیا۔اور تو اور کسی پردہ پوش کے نازک پیروں کی کومل ایڑیاں دیکھ کر ہی اس ان دیکھی محبوبہ کے عشق میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیتے تھے”۔یہ تیرا دیکھنا،دیکھا نہ جائے”
اور محبوب کی آنکھوں سے مہلک اور خطرناک ہتھیار تو مانوآفرینش سے اب تک اس دنیا میں نہیں آیا۔نظروں کے تیر، ترچھی نظروں کی برچھیاں،تیکھی نظروں کی گولیاں۔۔۔اف خدایا،پتا نہیں محبوب کی آنکھوں کے علاوہ یہ بے وقوف دنیا کسی اور کو دہشت گرد کیوں سمجھتی ہے؟؟اک نظر میں ہی ایسا گھائل کرتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔قتل کرنا تو ایک طرف ،آن کی آن میں کشتوں کے پشتے لگا دیتی ہیں۔اور ان کے کشتہ اور مقتول کی شان تو دیکھیں مرتے مرتے بھی یہی اصرار
"دفن ہونا ہے اس کی آنکھوں میں
یہ مری آخری وصیت ہے”
لیکن ایک بات ماننے کی ہے کہ دل پر عشق کی چوٹ پڑے تو محبوب کی مہربان اور میٹھی نظروں سے زیادہ کارگر اور آزمودہ کوئی پھاہا بھی نہیں۔”ان”کے دیکھے سےجو آجاتی ہے مونہہ پر رونق ،وہ بڑے سے بڑے حکیموں اور طبیبوں کے بھی بس کی بات نہیں ۔اور عشق پیشہ تو یہ بھی حلفیہ کہتے ہیں کہ محبوب کی آنکھوں کو بھی اللہ تعالی نے اپنی "کن فیکون "والی صفت تھوڑی بہت عطا کردی ہے کہ اک نظر ہی ڈال دیں تو دل کی دنیا عشق سے آباد ہو جاتی ہے۔اور یہ کہنا بالکل برحق ہے”فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا”اور دلوں کے رازتو صرف اللہ ہی جانتا ہے نا۔اور بھئی کب کوئی آنکھوں کے رستے دل میں اتر جائے کسی کو پتا تھوڑا ہی ہوتا ہے۔