دوستو یہ سوشل میڈیا بھی کیا مزے کی چیز ہے۔ہراہم موقع یا تقریب پر خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ،یہ ہر کسی کے جذبات کے سرعام اظہار کا فوری اورسریع الاثر ذریعہ بن جاتا ہے۔اس عید قربان پر بھی لوگوں نے مختلف طریقوں سے اپنے جذبات،احساسات اور خیالات کا اظہار طرح طرح کی پوسٹس،تصاویر اور وڈیوز لگا کے کیا۔سب سے زیادہ خوشی اور اہمیت تہنیتی پیغامات کی ہوتی ہے۔پھر بچوں کو قربانی کے جانوروں کے ساتھ خوش ہوتے دیکھ کر والدین کادل ایک عجیب سی مسرت اور فخر سے بھر جاتا ہے۔بچوں کی بھی اپنی خوشیاں اور اپنی دنیا ہوتی ہے۔یہ جانوروں کو بھی انسانوں جیسا پیار کرنے لگ جاتے ہیں۔جبکہ یہاں انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے بھی چشم فلک نے بارہا دیکھا ہے۔۔اور طبقہ اشرافیہ تو ویسے بھی خود کو آسمان سے اترے ہوئے اور باقی سب انسانوں کو جانور بلکہ کیڑے مکوڑے ہی سمجھتی ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی اس عید قربان پر لگائی جانے والی پوسٹس کی۔تو ایک دو پوسٹیں نظر سے گذریں جن میں اطلاع دی گئی تھی کہ قرض دار ہونے کے سبب وہ اس مرتبہ قربانی نہیں کر رہے۔اس کے جواب میں کچھ خیر خواہوں اور درد مندوں نے انہیں گوشت بھجوانے کی یقین دہانی کروائی اور غالباًکچھ مزاج شناسوں نے یہ بھی باور کروایا کہ اس اطلاع دینے کا مقصد قربانی کا سارا گوشت اکیلے ہڑپ کرنا ہے۔ایک نے تو”ہوئے تم دوست جسکے دشمن اسکا آسماں کیوں ہو”کے مصداق بھانڈا پھوڑتے ہوئےیہ تک کہہ دیا
تیڈے عشق دے قرضے لیہندے نئیں
اساں عید تے لیلا کیا گھنسوں۔۔
پھر کچھ ایسی ایکشن اور سنسنی سے بھرپور دل دہلا دینے والی وڈیوز بھی شئیر کی گئیں جن میں قربانی کے جانور ذبح کرتے ،ان کی کھال کھینچتے اور ان کے گوشت کی بوٹیاں بناتے دکھایا گیا تھا۔ان کو دیکھ کر ہالی ووڈ کی ایکشن ،تھرل اورتشدد سے بھرپور فلموں کا گمان ہوتا تھاپھرظالموں نے ان سے پہلے یہ وارننگ بھی نہیں دی کہ 18 سال سے کم اور کمزور دل والے خواتین حضرات یہ وڈیوز نہ دیکھیں۔اب کیا خبر کہ ان حضرات کے پاس بھی شاید یہی واحد طریقہ ہو اپنی بہادری کی دھاک بٹھانے کا یا”کسی "پر اپنی بہادری اور جوانمردی ثابت کرکے” اس” کو متاثر یا مائل کرنے کا۔لیکن اس پر ایک صاحب نے بہت تلملا کرپوسٹ لگائی کہ براہ کرم ایسی وڈیوز لگا کہ اپنے جانور ہونے کا ثبوت نہ دیں۔اور ایک کمزور دل خاتون نے یہ تک کہہ دیا کہ عید قربان کے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے اپنے اندر پلنے والے جانور کو ذبح کریں۔ایک اور دانشورانہ قسم کی پوسٹ بھی شئیر کی گئی جو اس عید قربان کی غالباًوائرل ہوجانے والی پوسٹ تھی کہ اس عید پر قربانی کے ساتھ ساتھ اپنی جھوٹی انا کو بھی قربان کر دیں بہت "میں میں "کرتی ہے۔بالکل صحیح لیکن ہمارا یہ ماننا ہے کہ سال میں ایک بار نہیں بلکہ ہمارے اندر اس طرح کی حیوانی اور بد عادتیں جب بھی پلنے لگیں بلکہ پیدا ہونے لگیں انہیں فوراًقربان کردیا جائے۔ویسے آپس کی بات ہے کہ اس طرح کی سب قربانیاں اپنی جگہ لیکن یہ بھی بات خدا لگتی ہے کہ اگرچہ بکرے سال میں ایک بار ہی قربان کئے جاتے ہیں مگر یوسفی صاحب کے بقول اسلام کے لئے سب سے زیادہ قربانی بکروں نے ہی دی ہے۔
ایک اور عمر رسیدہ صاحب نے تو عجیب و غریب ہی پوسٹ لگائی جس میں شدید ملامتی انداز میں پوچھاگیا تھا کہ اپنے خداؤ ں کو خوش کرنے کے لئے جانوروں کو ذبح کیوں کرتے ہو۔یعنی کہ حد نئیں ہوگئ۔اب ایسا بھی نہیں کہ موصوف نے اسلام میں قربانی کی مذہبی تاریخ ،حقیقت ،اہمیت اور فلسفہ نہ پڑھا ہو۔لیکن شاید سٹھیانا اسی کو کہتے ہیں۔ایسی ہی پریشانی جناب مصحفی کو بھی لاحق تھی کہ
یہ عجیب رسم دیکھی کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہ ہی لے ثواب الٹا
خیر بڑے لوگ بڑی باتیں۔۔لیکن ایک بات تو ہمیں بھی پریشان کرتی ہے کہ ویسے تو یہ حضرات معشوقاؤں اور محبوباؤ ں کی اک اک نگاہ ناز اور نظر کرم کی خاطر دل و جان قربان کردینے پر تلے رہتے ہیں۔اور ذرا ان حضرات کا قربانی کا فلسفہ اور جذبہ ملاحظہ فرمائیں۔
اپنی خوشیاں لُٹا کر تجھ پہ قربان ہو جاؤں
کاش کچھ دن تیرے شہر میں مہمان ہو جاؤں
صاحبو مانا کہ جوانی تو دیوانی ہوتی ہے لیکن اس "ٹائپ "کے عاشقوں کے دماغ میں تو قربان ہونے کا سودا اور جذبہ تو آخری عمر تک سمایا رہتا ہے۔”بس اک صنم چاہئیے عاشقی کے لئے”اور پھر اس کے بعد بس ایک ہی نعرہ
"یہ آپ ہیں تو آپ پرقر بان جائیے”
تو پھر اللہ کے لئے قربانی کرنے پر ان کا حیل وحجت کرنا اور اوٹ پٹانگ سوال اٹھانا تو سمجھ میں آتا ہے نا۔کیونکہ
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخر ی وقت میں کیا خاک مسلماں ہونگے۔
فیس بک کمینٹ