کتاب سے دوستی نہ صرف شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے بلکہ کتاب ایک قوم کی تہذیب و ثقافت اور معاشی، سائنسی اور عملی ترقی کی آئینہ دار ہونے کے ساتھ انسان کی بہترین دوست بھی ہے۔ آج سے کم و بیش پانچ ہزار سال قبل مسیح دنیا جب تحریر کے فن سے روشناس ہوئی تو انسان نے چٹانوں، درختوں کی چھالوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں، کھجور کے پتوں، ہاتھی دانت، کاغذ غرض ہر وہ شے لکھنے کے لیے استعمال کی جس سے وہ اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا سکے۔ بعض مؤرخین کے مطابق دنیا کی پہلی کتاب قدیم مصریوں کی ”الاموات“ ہے اور یہ بھی ایک قابلِ ذکر امر ہے کہ قدیم مصر میں کتاب لکھنے اور پڑھنے کا حق صرف مذہبی پیشواﺅں کو حاصل تھا جو اس ملک کے فرمانروا بھی ہوتے تھے۔
کچھ مؤرخین کے مطابق دنیا کی سب سے پہلی کتاب چین میں لکھی گئی جس کا نام ڈائمنڈ سُترا تھا۔ یہ ایک مذہبی کتاب ہے جو آج بھی برٹش میوزیم لائبریری میں موجود ہے اور یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ مذہبی اور دیگر نوعیت کی کتابوں پر عام طور پر مذہبی رہنماﺅں اور مقتدر، حکمران افراد کا ہی تصرف رہا۔ شاید کتاب تک نارسائی کی یہ صورت حال بھی عام لوگوں کی کتاب سے دوری اور اس کی اہمیت و افادیت سے نابلد رہنے کا ایک سبب بنتی رہی ہو۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے علم و تحقیق کا دامن چھوڑ دیا۔ کتاب سے دوری اختیار کی وہ پستی میں گر گئی۔ خود مسلم امہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ساتویں سے تیرہویں صدی تک بغداد علم و ادب کا گہوارہ رہا۔ سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں کے عظیم کتب خانوں کو دریا برد کردیا گیا۔ کتب کا یہ ذخیرہ اس قدر ضخیم تھا کہ دریا کا پانی ان کی سیاہی سے سیاہ ہوگیا۔ اسی طرح جب اندلس میں پندرہویں صدی کے آخر میں اسلامی حکومت کا قیام ہوا تو غرناطہ کی بڑی لائبریری کو بھی ملکہ ازابیلا نے جلوا دیا۔ غرض کتابوں کے ساتھ ہمیشہ سے ایک ظالمانہ سلوک ہوتا آیا۔ کبھی جلوایا گیا کبھی دریا برد کیا گیا۔ کبھی فٹ پاتھ پر کوڑیوں کے دام فروخت ہوئیں۔ مسلم امہ کا عروج رہا جب تک مسلمان کتابیں پڑھتے، لکھتے اور جمع کرتے تھے۔ مگر علم سے دور مسلمانوں کو زوال اور رسوائی کی طرف لے گئی۔
آج دنیا کے 28 ممالک ایسے ہیں جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں مگر افسوس ان میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں حالانکہ ہمارے آباﺅ اجداد کی محنت آج بھی لندن کی ”انڈیا آفس لائبریری“ میں موجو د ہے۔ جہاں کئی لاکھ کے قریب کتب ہیں۔ ان میں عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ لندن کے بعد پیرس لائبریری میں مشرقی زبانوں میں لکھی کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ 1857ءمیں مغلیہ سلطنت ختم ہوئی تو انگریزوں نے لال قلعے کی شاہی لائبریری سے ہزاروں کتابیں لوٹ کر لندن پہنچا دی تھیں۔
یہ تو مسلم امہ کے حوالے سے کتابوں کی تاریخ ہے کہ کس طرح مسلمانوں سے کتابیں چھینی گئیں اور انہیں کتاب سے محروم رکھنے کی کوشش کی گئی۔
اب ذرا وطن عزیز میں کتب بینی اور کتاب دوستی کے حوالے سے موجود صورت کا جائزہ لیجئے۔ تو یہ تکلیف دہ اور فکر آمیز حقیقت سامنے آتی ہے اگرچہ پوری دنیا اس وقت کتابوں سے دوری کی ایک خوفناک صورتحال سے دوچار ہے لیکن پاکستان میں یہ صورت حال یقیناً انڈیا، چین، جاپان اور بہت سے ترقی یافتہ ممالک کی نسبت زیادہ تردد آمیز ہے اور اس تمام صورت حال کے پس منظر اور پیش منظر میں موجود اسباب و محرکات اور عوامل کی نشاندہی آئے روز کی جاتی رہی ہے۔
ڈاکٹر ظہیر احمد بابر نے 3 اپریل 2017ء کے نوائے وقت میں اپنے کالم میں تحریر کیا ہے کہ ایک حالیہ سروے میں پاکستان میں صرف 27 فی صد عوام کتب بینی کے شوقین جبکہ 73 فی صد کتب بینی سے دوری کا اعتراف کیا جبکہ گیلپ سروے کے مطابق 93 فی صد کتابیں پڑھنے کے دعوے دار اور 61 فی صد کتابیں نہیں پڑھتے۔
پاکستان میں کتب بینی فروغ نہ پانے کی وجوہات کی نشاندہی کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے:۔
1۔ ایک تو کم شرح خواندگی اس کا اہم سبب ہے۔ اس میں خاندان کی طرف سے ہی کتب بینی کی کے فروغ کے لیے کوششوں میں شامل نہ ہونا شامل ہے۔ اس حوالے سے 2011ء میں کراچی میں منعقدہ عالمی کتب میلہ کے منظم خالد عزیز نے اگرچہ اس دلچسپ امر کا خوشی سے اظہار کیا کہ پڑھی لکھی نوجوان ماﺅں کی بچوں کے لیے کتابیں خریدنے میں دلچسپی بہت خوش آئند تھی لیکن ظاہر ہے کہ کم شرح خواندگی میں پڑھی لکھی ماﺅں کی تعداد کو ہر گز تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس تناظر میں میں حکومتی عدم سرپرسی، تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کے لیے کماحقہ کوششیں نہ کرنا، لائبریریوں کے لیے مناسب وسائل کی عدم فراہمی بھی ایک اہم سبب ہے۔
بیروزگاری اقتصادی پس ماندگی روزبروز بڑھتی مہنگائی بھی صارفین کی قوتِ خرید میں شدید کمی کا باعث بن رہی ہے۔ مہنگے داموں کتابوں کی چھپائی اور فروخت صارف کی ایک تسلی بخش تعداد کو سامنے لانے میں رکاوٹ ہے۔ پھر بیشتر خواتین و حضرات پیسوں کو کتابوں کی خریداری پر خرچ کرنے کی بجائے کپڑوں جوتوں زیورات وغیرہ پر کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اگرچہ نیشنل بک فاﺅنڈیشن اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سستی کتابوں کی اشاعت اور فروغ کے سلسلے میں قابلِ قدر کردار ادا کررہے ہیں ۔ اسی طرح مختلف کتب میلے، ادبی میلے، سالانہ آکسفورڈ لٹریری فیسٹول، کراچی لاہور میں ایکسپو سنٹر میں کتاب میلے اور ان کے تتبع میں کراچی، گوادر حیدر آباد اور فیصل آباد میں بھی کتابی ادبی میلوں کا انعقاد کتب بینی کے احیاء میں اہم کردار کا باعث ہے۔
ایک اہم امر یہ بھی ہے کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ویب، ریختہ، کتابی دنیا وغیرہ مختلف ویب سائٹس اور سافٹ وئیرز نے جہاں ای بکس کی طرف قارئین اور طلبہ کی ساری توجہ مبذول کروائی ہے۔ وہیں ڈیجیٹل پرنٹنگ اور نیٹ پبلشنگ نے جہاں پبلشر کو روایتی پبلشنگ سے اپنی طرف کھینچا ہے وہیں طلبہ اور کتب بینوں کے لیے کتابوں کی نسبتاً سستی ڈاﺅن لوڈنگ نے روایتی کتب فروشوں کی کمر توڑ دی ہے۔ بھاری بھرکم کتابوں کی جگہ ای بکس نے لے لی ہے۔ امریکہ میں بھی ایمیزون گذشتہ بیس برس میں دنیا کا سب سے بڑا کتب فروش ادارہ بن چکا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی انٹرنیٹ نے طلبہ کی دلچسپی اور وقت کے استعمال کی ترجیحات کو بھی بدل دیا ہے۔ پہلے ٹی وی چینلز کی بھرمار، الیکٹرونک میڈیا، یوٹیوب مختلف سرچ اسٹیشن، گوگل، وکی پیڈیا وغیرہ نے بھی طلبہ کو عام لوگوں کو کتاب بینی سے دور کیا ہے۔
اکادمی ادبیات کے تحت اپریل 2012ء میں پانچ روزہ کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا تو اس وقت کے سربراہ عبدالحمید صاحب نے بھی وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ ٹی وی، پروگرام، انٹرنیٹ، کمپیوٹر کی دنیا بہرحال قاری کو کتاب کی طرف لے جانے کی بجائے اپنی طرف لے جاتے ہیں۔
درحقیقت ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل نے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کرلیا ہے حالانکہ موجود دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل سے بچنے کے لیے آج ماہرین نفسیات بچوں کے لیے مطالعہ کو لازمی قرار دے رہے ہیں۔ یونانی ڈرامہ نگار پوری ہیڈیس نے بھی ایک جگہ لکھا کہ ”جو نوجوان مطالعہ سے گریز کرے وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لیے مردہ ہوتا ہے۔“
ڈان نیوز 18 مئی 2015ء میں شامل ایک مضمون میں بھی لکھا ہے کہ ”امریکہ کی یونیورسٹی میڈیکل سنٹر کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جو بالغ حضرات تحقیقی یا دانش ورانہ سرگرمیوں جیسے مطالعہ وغیرہ میں گزارتے ہیں تو ان میں بڑھاپے یا ادھیڑ عمری میں دماغی تنزلی کی شرح ان افراد کے مقابلہ میں 32 فی صد کم ہوتی ہے جو کتابوں یا ایسی سرگرمیوں سے دور بھاگتے ہیں۔
اسی طرح ایک دماغی بیماری الزائمر بھی مطالعے کرنے والے افراد ہیں اڑھائی گنا کم ہوتی ہے۔ برطانیہ کی ریڈنگ ایجنسی کی ایک تحقیق کے مطابق بھی خوشی یا حظ کے لیے مطالعہ کرنے والے سماجی تفریحاتی سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
کتب بینی کی اسی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر 1995ء میں یونیسکو نے23 اپریل کو سپین کے علاقہ کا تالوپتا اور اس کے دارالحکومت بارسلونہ سے شروع ہونے والے یوم کتاب کو عالمی یوم کتاب کے حوالے سے منانے کا فیصلہ کیا۔ 23 اپریل کا یہ دن اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ دو نامور ادیبوں ولیم شیکسپیئر اور مِگل دی سروانٹس (ہسپانوی ناول نگار) کا یومِ وفات بھی ہے۔
وطن عزیز میں گزشتہ برسوں میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور خوف کی گرفت نے بھی کتب بینی اور کتب فروشی کے تنزل میں ایک ناقابلِ قدر تردید محرک کا کردار ادا کیا گیا ہے۔
بالخصوص وہ علاقے جو دہشت گردی کی لپیٹ میں زیادہ رہے۔ مثلاً وسعت اللہ نے 29 اگست 2016ءکے ایکسپریس میں لکھا کہ پشاور میں شاہین بکس سمیت پچھلے تین برسوں میں تین قدیم دکانیں بند ہوچکی ہیں۔ اسی طرح بیبیسی اردو ڈاٹ کام پر رفعت اللہ خان اورکزائی کے مضمون کے مطابق پچھلے دو تین سالوں میں ۷۱ دکانیں بند ہوچکی ہیں۔ یہی صورت حال کراچی کی ہے جہاں پاک امریکن کتاب محل، اسٹینڈر پبلشنگ ہاﺅس، فوکس پبلشنگ ہاﺅس اور سیسی کا کفن دفن ہوئے عرصہ ہوا جبکہ کراچی کے علاقہ صدر میں صرف ایک بک شاپ (تھامس اینڈ تھامس)گنے کا رس پیلنے والی دو مشینوں کے پیچھے سے جھانکتی نظر آتی ہے۔
بہرحال ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہے لیکن عہد موجود کے سارے منظرنامہ میں شاید آج کتاب کو انسان کی سچی اور مضبوط دوستی کی اشد ضرورت ہے۔
فیس بک کمینٹ