کھیل کود کو ہمیشہ سے انسانی صحت و تندرستی کے لئے لازمی سمجھا گیا ہے۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صحت مند جسم میں ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے۔اب کرکٹ کو ہی لیجئے۔بیماروں کے بس کا تو کھیل ہرگز نہیں۔لیکن اس کھیل کے شیدائی کرکٹ کے بخار میں مبتلا نہ ہوں تو زندگانی کا لطف ہی ادھورا رہ جاتا ہے۔کرکٹ کے کھلاڑیوں کی بھی نرالی چھب اور ادائیں ہوتی ہیں۔اور اپنی کسی نہ کسی کارکردگی کی بنا پر کرکٹ چھوڑنے کے بعد بھی یاد رہتے ہیں۔کہیں مثالوں میں،کہیں حوالوں میں۔لیکن اب ایسا بھی کیا یاد رہنا کہ "اباسی”لیتے ہی یاد آجائیں اور بندہ مونہہ پر ہاتھ رکھ چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ کسی نے دیکھا تو نہیں،تصویر تو نہیں کھینچ لی یا وڈیو تو نہیں بنا لی۔اب ایسے عالم میں تصویر کھینچھنے والے سے یہ فرمائش بھی نہیں کی جاسکتی کہ”کھچ میری فوٹو تے بٹوے اچ لا لے”خیر جانے دیں”زندگی میں ہزار ایسے مقام آتے ہیں”
اب "ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی”لیکن یہ بالکل سچ ہے کہ مرد حضرات خود چاہے کرکٹ کی محبت میں دیوانے ہو ہوجائیں۔کرکٹ کے نشے میں برباد ہوجائیں لیکن صنف مخالف کی کھیل تو نہیں ہاں کھلاڑیوں کی طرف رغبت کا شائبہ بھی برداشت نہیں کرتے۔ایک شاعر صاحب کو ہی لیجئے فرماتے ہیں
"ان کی نظروں میں ہیں سب شاعر اعظم بے کار
آج ہر لڑکی کے اعصاب پہ کرکٹ ہے سوار
ان کو شاعر کوئی اس دنیا میں بھاتا ہی نہیں
ان کو کرکٹ کے سوا کچھ نظر آتا ہی نہیں”
لیکن جناب شوہر صاحبان کو تو بیوی کے سوا کرکٹ سمیت دنیا کی ہر چیز بھاتی ہے۔اسی طرح ایک شوہر جو کرکٹ کے دیوانے تھے ان کی بیوی تنگ آکر ان سے الجھ پڑی اور کہنے لگی سارا دن لیٹے کرکٹ دیکھتے ہو گھر کی کوئی فکر نہیں۔۔سنبھالو اپنا گھر میں اپنے میکے جارہی ہوں اور باہر کی طرف چل پڑی۔شوہر صاحب کمنٹری کے انداز میں بولے”پہلی بار ٹانگوں کا درست استعمال”
بھئی کھیل کوئی بھی ہو سیانے کہتے ہیں محبت جیسا پرخطر کھیل کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور اسے صرف خطروں کے کھلاڑی ہی کھیل سکتے ہیں جن کا یہ منشور ہوکہ”ہارے بھی تو بازی مات نہیں”
اگرچہ کرکٹ اور محبت دونوں کھیلوں میں مماثلت بھی کافی پائی جاتی ہے۔ان میں ایک اہم قدر مشترک تو یہ بھی ہے کہ دونوں کھیل ہی گلی محلوں میں بڑے اچھے طریقے سے کھیلے جاتے ہیں اور وہیں پر "بطریق احسن” پروان بھی چڑھتے ہیں۔لیکن محبت کے کھلاڑی پورے تیقن اور فخر سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ
"وہاں ہے ایک ہی کپتان پوری ٹیم کی جان
یہاں ہر ایک پلیئر بجائے خود کپتان
یہاں کچھ ایسے بھی کپتان پائے جاتے ہیں
جو رن بناتے نہیں ہٹ لگائے جاتے ہیں ”
ماننےکی بات بھی ہے کہ محبت کے کھیل کو باقی سب کھیلوں پر اس لحاظ سے بھی فوقیت حاصل ہے کہ اس ایک کھیل کی آڑ میں اور بھی "کئی کھیل” کھیلے جاسکتے ہیں۔مثلا” عاشق میٹھے میٹھے انداز میں محبوب کا شکوہ کچھ اس طرح کر تے بھی پائے جاتے ہیں
یہ ان کا کھیل تو دیکھو کہ ایک کاغذ پر لکھا بھی نام مرا اور پھر مٹا بھی دیا
اور یہ بھی التجائیں کرتے ہیں”ہمارے دل سے مت کھیلو ،کھلونا ٹوٹ جائے گا”
لیکن جناب محبت کا کھیل تب تک ہی مزا دیتا ہے جب تک شادی کا کھیل نہ رچا لیا جائے۔کیونکہ اس کے بعد کبھی کبھی ماہر کھلاڑی بھی پہلے ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ ہو جاتے ہیں ۔ایسا ہی کچھ ایک بچارے کبڈی کے ماہر کھلاڑی کے ساتھ بھی ہوا۔جب اس کی ںبیوی خلع لینے عدالت جا پہنچی۔فاضل جج صاحب نے اس سے دریافت کیا کہ بی بی تمہارا شوہر تو کبڈی کا بہت مشہور اور ماہر کھلاڑی ہے پھر تم اس سے خلع کیوں لینا چاہتی ہو۔تو بیوی غصہ میں آپے سے باہر ہو گئی اور بولی”یہی تو اصل مرنا ہے۔کم بخت ہاتھ لگا کر بھاگ جاتا ہے”