ہماری مشرقی تہذیب کی روایات جہاں اپنے مخصوص مزاج کی حامل ہیں وہیں کچھ حوالوں سے خاصی دلچسپ بھی ہیں۔بالخصوص خواتین کی شرم و حیا کے حوالے سے تو ایک روایت یا مزاج سے متعلق یہ عادت ایک لطیفہ کی صورت اختیار کر چکی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیشتر خواتین اپنے شوہروں کو نام لے کر نہیں پکارتیں اور نہ ہی انکا ذکر کرتے ہوئے نام لیتی ہیں۔اس حوالے سے ایک بڑا مشہور لطیفہ ہے کہ ایک عورت کے شوہر کا نام "رحمت اللہ”تھا۔اب اس نیک پروین، نیک بیوی کی عادت تھی کہ نماز کے آخر میں "السلام علیکم رحمت اللہ” کی بجائے” السلام علیکم اجی”کہتی تھی کیونکہ وہ اپنے شوہر کو "اجی سنتے ہو”کہہ کر بلاتی تھی۔تو اس نیک بیوی کے لئے نماز میں بھی شوہر کا نام لینا معیوب اور بے شرمی کی بات تھی۔
ویسے بھی منٹو صاحب نے تو یہ کہا تھا کہ ہماری سوسائٹی میں لوگوں کو مرنے کے بعد لانڈری میں دھو کر "رحمت اللہ علیہ”کی کھونٹی پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔جبکہ ایک عجیب و غریب صورت حال یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ جیتے جی خود کو دھوئے بغیر رحمت اللہ علیہ کی کھونٹی پر ٹانگ دیتے ہیں۔اور پھر دوسروں کے بارے میں اس تیقین اور تکبر سے اول فول بکتے ہیں جیسے عالم غیب سے یہ خیال ان کے ذہن میں اتارا گیا ہو”مستند ہے میرا فرمایا ہوا”۔
اور ایسی ہستیوں کی خود پسندی اور نرگسیت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ "جس طرف دیکھا،میں ہی میں میں نظر آیا”۔انہیں لگتا ہے کہ ان کے خطے کی زمین اتنی بنجر ہے کہ اس میں صرف "ان” کی صورت میں ایک ہی گوہر نایاب کو پیدا کرنے کی صلاحیت تھی۔یاپھر ان جیسے دو چار اور جنہیں یہ”مستند ہے میرا فرمایا ہوا”کا راگ الاپتے ہوئے "در نایاب”کا سرٹیفیکیٹ عنائیت فرمائیں۔
اپنی کور بینی اور کم ظرفی میں یہ اپنی دھرتی کی تضحیک کرنےاور تمسخر اڑانے کو بھی اپنی شان اور لیاقت سمجھتے ہیں۔اور اپنی دھرتی ماں کی یہ ناخلف اولادیں اپنی کج فہمی میں صرف خود کو اس خطے کے سپوت اور میراث کا اصل حقدار سمجھتے ہیں۔
اور صرف یہی نہیں بلکہ خود کو عقل کل اور مختار کل سمجھنے لگ جاتے ہیں۔اور پھر نعوذ باللہ خدائی دعوے بھی کرنے سے نہیں چوکتے کہ ہم ہی ہیں کہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔جس کو چاہیں آسمان پر بٹھادیں اور جسے چاہیں پاتال میں پہنچادیں۔گویا مخلوق خدا کی تقدیریں ان کی جنبش قلم کی مرہون منت ہیں۔بلکہ اکثر و بیشتر تو ان کی بڑھکوں بلکہ خدائی دعووں سے یہ گمان گزرتا ہے کہ ان کا ایمان ہے کہ یہ مصرعہ صرف انہیں کے لئے کہا گیا ہے”لوح بھی تو، قلم بھی تو،تیرا وجود الکتاب”۔
خود کو عالم و فاضل سمجھنے کے ذعم میں مبتلا اور اعمال ایسے کریہہ ،مہلک اور موذی کہ ان سے بہتر تو بے عمل عالم ہونا جن کے بارے میں کہا گیا”بے عمل عالم ایسے ہی ہے جیسے گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں”۔زبان کی قینچی ہے کہ جس سے جب چاہیں دوسروں کی عزت تار تار کر ڈالیں۔شرفائ کی پگڑیاں اچھال دیں اور بدکرداری کی ہولی یوں کھیلی کہ خود کو رنگ رنگ کر بدرنگ کر دیا۔اور پھر یہ خواہش شیطانی بھی کہ ساری دنیا کو اسی رنگ سے رنگ دیں کہ کوئی صاحب کردار ان کے مکھوٹے نوچنے والا نہ رہے اور "اس حمام میں سارے ننگے”ہو جائیں۔اور ان کو "رحمت اللہ علیہ”کہنے کو ہی دین و دنیا کی سرخ روئی اور عاقبت میں عافیت جانیں تو پھر آئیں سب مل کر باآواز بلند پڑھیں
"اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم”
فیس بک کمینٹ