ماہ فروری کی ابتدا ہوتے ہی سرخ رنگ کی سجاوٹیں سڑک کنارے پھول فروشوں سے لے کر دکانوں اور ریستورانوں اور چاۓ خانوں میں جلوہ افروز ہونے لگتی ہیں۔۔کچی عمر کی کئی محبتیں سرخ رنگ کے غباروں ،پھولوں اور چاکلیٹ کے ڈبوں پر مشتمل تحفوں سے ابلتی نظر آتی ہے۔۔محبت بھرے وعدے اور قسموں بھرے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن چند ہی محبتیں اگلے فروری تک ساتھ نبھا پاتی ہیں۔۔باقی محبتیں پھولوں کے مرجھاتے ہی دم توڑجاتی ہیں۔۔۔ہسپتالوں میں ایسی محبتوں کے بوجھ سے ہلکان کئی نوجوان محبوب کی بےوفائی کا بدلا اپنے آپ سے لینے کی کوشش میں خودسوزی کی کوشش میں خود کو زخمی کر کے یا زہرنوشی کرنے کے نتیجے میں لاۓ جاتے ہیں۔
آہیں سسکیاں اور کبھی کم کبھی ز يادہ ہونے والی چيخ و پکار کے ساتھ شعبہ حادثات کی مصروفیت معمول کی طرح ابھرتے ڈوبتے ہنگامہ خيز انداز میں گزر رہی تھی۔۔۔جب ایک اوسط عمر کا پٹھان جوڑا ڈاکٹر روم میں داخل ہوا۔۔۔ان کی ذاتی تشخيص کے مطابق خاتون شدید پیٹ درد اور قے کی شکایات کی وجہ سے حیضے کے مرض میں مبتلا تھی۔۔۔خاتون پیٹ میں شدید درد کی وجہ سے دوہری ہوۓ جا رہی تھی اور بار بار قے ہونے سے پانی کی کمی کا شکار تھی۔۔ رنگ اڑا اڑا ساتھا نبض کی رفتار تیز اور قوت کم تھی۔۔بیمار خاتون تھی لیکن درد اور بے چينی شوہر محسوس کر رہا تھا۔۔روایتی شوہر حضرات کی تلقین اور تنقید کی بجاۓ وہ انتہائی متفکر اور محبت بھرے انداز سے زوجہ کا احوال لے رہا تھا اور خيال رکھ رہا تھا۔۔۔اس کی سادہ لوح اور نرمی بھری محبت نے مجھ سمیت تمام سٹاف کو متوجہ کیا..ہم تو لڑتے جھگڑتے اور آپس میں الجھتے ہوۓ جوڑوں کے عادی ہیں جہاں ڈاکٹر کی تشخيص اور تجویز سے بے نیاز میاں بیوی بیماری کی ناخوشگوار ذمہ داری کا ملبہ دوسرے فریق پر ڈال کر خود کو معصوم اور مظلوم ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔۔
مریضہ کو بار بار قے کی وجہ سے لیٹنے اور معائنہ کرانے میں دشواری آ رہی تھی۔۔نمکیات کے محلول اور الٹی روکنے کے ٹیکوں کے استعمال کے بعد معائنہ کرنا ممکن ہوا۔۔مریضہ کے علاج کیلئے خون اور تابکاری ٹیسٹ تجویز کیے گئے۔۔ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق مریضہ کو ماضی قریب میں ٹیوب میں حمل کی وجہ سے پیٹ کے ایک پیچيدہ جراحی عمل سے گزرنا پڑا تھا جس کے ممکنہ بعد از آپریشن کے مسائل سے دوچار تھی۔۔۔۔مریضہ کی شادی کو دس برس گزر چکے تھے۔۔اسقاط حمل اور پھر ٹیوب کے ضائع ہونے سے جوڑا مغموم تھا دلگرفتہ بھی لیکن ایک دوسرے سے نہ ہی اکتاہٹ تھی اور نہ متنفر تھے۔۔۔۔سرجن کے مشورے پر مریضہ کو ناک کے ذریعے معدے میں نالی ڈالی گئی اور کھانا پینا مکمل بند کر دیا گيا ساتھ ساتھ ادویات شروع ہوئيں تو درد میں افاقہ ہونے سے مریضہ نیند کی وادی میں چلی گئ۔۔۔زنانہ وارڈ ہونے کی وجہ سے مریضہ کے ساتھ خان بھائی کو وہاں سے باہر بھیجا جاتا لیکن فکر مند خان بھائی ذرا دیر کو باہر جاتے اور واپس آکر پھر محبوب کا دیدار کرنے لگتے۔۔اپنی بیوی کے علاوہ ہم سب کو باجی یا صاحب کہہ کر جھکے سر اور جھکی پلکوں سے مخاطب کرتے اور مریضہ کے ٹھیک ہو جانے کی تصدیق چاہتےاور اس بات پر بارہا مشکور ہوۓ کہ ہم نے ان کی بیوی کو حیضے کی دوا لگا کر رخصت نہیں کیا۔۔حالت بہتر ہوئی تو مریضہ کو وارڈ منتقل کر دیا گيا۔۔۔ہم اس انوکھی محبت کو دیکھ کر مسرور ہوتے رہے کہ تنگ معاشی حالات اور اولاد جیسی نعمت سے محرومی کے باوجود وہ ایک دوسرے کہ ساتھ جس طرح مکمل اور خوش و خرم نظر آتے ہیں ایسی محبت کہانیوں میں ہی پڑھی تھی۔۔
کوئی ہفتے بعد کی بات ہے کہ وہی جوڑا مجھے ایمرجنسی گيٹ پر نظر آیا میں نے خيریت دریافت کی اور پوچھا اب کیا ہوا کیسے آنا ہوا۔۔دونوں مسکرا کے بولے علاج کیلئے ہسپتال میں قیام کے دوران نرسنگ سکول کی طالبہ اور ڈسپنسری کا کورس کرنے والے ایک لڑکے کو اپنا بیٹی بیٹا بنا لیا تھا انہیں کو ملنے آۓ تھے۔۔۔ان کی آنکھوں کی الوہی چمک آسمان سے نازل کردہ محبت بھری رحمت کا عکس نظر آتی تھی وہ اس دنیا کے لگتے ہی نہیں تھے۔۔۔یا شاید یہ وہ محبت تھی جسے پھولوں اور غباروں سے تجدید کی ضرورت نہیں تھی وہ ہاتھ تھام کر زندگی کے تمام راستوں پر محبت کے مضبوط سہاروں تھام کر چلے جا رہے تھے۔۔
فیس بک کمینٹ