یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب، سرائیکی علاقہ جات یا سابقہ ریاست بہاولپور کے علاقے پاکستان کے بیشتر دوسرے پسماندہ خطوں کی طرح بد حالی، ذلت اور محرومی کی اندوہناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ بالخصوص یہاں کے درمیانے طبقات کو اپنی ثقافتی اور لسانی بیگانگی اور حکومتی عدم توجہ کے بہت شکوے ہیں۔ پچھلی کچھ دہائیوں کے دوران ملک کے اندر ہونے والی دوسری ہجرتوں میں سرائیکی بیلٹ سے روزگار اور تعلیم کی تلاش میں وسطی پنجاب اور کراچی وغیرہ کی طرف دیوہیکل نقل مکانی بھی شامل ہے۔ اس پسماندہ خطے کے عوام کے تلخ حالاتِ زندگی کو سمجھنا اور ان کی محرومیوں کے ساتھ جڑت بنانا ہر ذی شعور اور ترقی پسند فرد کا فریضہ بنتا ہے۔ لیکن اب ایک نیا نسخہ جنوبی پنجاب صوبے کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے پیشتر بھی سیاسی پارٹیاں اس نئے صوبے کے نام پر حمایت لینے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں اراکین اسمبلی کا ایک گروپ نواز لیگ سے نکل کر پہلے ‘جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘ کے نام سے سامنے آیا اور اب تحریک انصاف کے ساتھ الحاق بنا رہا ہے یا اس میں ضم ہو رہا ہے۔ اس ‘معاہدے‘ کے مطابق عمران خان کی حکومت آنے کے بعد سو دنوں میں نیا ‘جنوبی پنجاب صوبہ‘ تشکیل دیا جائے گا۔ موجودہ سیاسی حالات میں اس ساری پیش رفت کے پس پردہ وجوہ جاننا مشکل نہیں ہے۔ عوام اب بڑے سیانے ہو گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پہلے نواز لیگ سے یہ علیحدگی اور پھر تحریک انصاف سے یہ بندھن کن مقاصد کے تحت بنوایا گیا ہے۔ لیکن ان چالبازیوں سے ہٹ کر اگر ہم ‘جنوبی پنجاب‘ کے عام انسانوں کی بات کریں تو یہ پسماندگی اور محرومی کوئی ان کے مقدر میں نہیں لکھی ہوئی‘ بلکہ اسی نظام کے نسل در نسل استحصال کی پیداوار ہے جس میں ان پسماندہ علاقوں کے بڑے زمیندار اور سرمایہ دار خود پوری طرح ملوث ہیں۔ یہ درست ہے کہ وسطی اور شمالی پنجاب کی نسبت یہاں زیادہ غربت پائی جاتی ہے اور اپنے حالات زندگی میں بہتری کی بات کرنا یہاں کے عوام کا حق ہے۔ اگر ان کے مسائل ایک الگ صوبہ بنانے سے حل ہوتے ہیں تو مخالفت تو دور کی بات کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے‘ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ نیا صوبہ بننے سے بیروزگاری، ناخواندگی، لا علاجی اور غربت جیسے مسائل حل ہو سکیں گے؟ وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بات کی جاتی ہے تو کیا یہ وسائل یہاں کی آبادی میں بھی برابر تقسیم ہوں گے؟
پاکستان میں جہاں محنت کش عوام کا طبقاتی استحصال پوری شدت سے جاری ہے‘ وہاں مختلف خطوں میں قومی و ثقافتی محرومی کا احساس بھی موجود ہے۔ ان احساسات کے وجود سے ہی انکار کر دینے سے یہ مٹ تو نہیں جائیں گے۔ جنوبی پنجاب میں سرائیکی قومیت کی تحریک بھی کئی سطحوں پر موجود رہی ہے۔ ‘اساں قیدی تخت لاہور دے‘ کا نعرہ یہاں مشہور رہا ہے‘ لیکن کیا علیحدہ جنوبی پنجاب صوبہ بننے سے تخت لاہور کی قید سے رہائی مل جائے گی؟ کہیں کوئی ‘ملتانی‘ یا ‘بہاولپوری‘ تخت تو نئے جبر و استحصال کا ذریعہ نہیں بن جائے گا؟ ان سوالات کے جواب کی تلاش ہمیں ناگزیر طور پر اس سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت و معاشرت کی طرف لے جاتی ہے جو ان تمام تر مسائل کی جڑ ہے۔
اگر طبقاتی بنیادوں پر دیکھا جائے تو پھر ہر قوم میں دو قومیں ہوتی ہیں۔ استحصال کرنے والی اقلیتی ‘قوم‘ اور استحصال زدہ اکثریتی ‘قوم‘۔ اگر یہ طبقاتی جبر و استحصال ختم نہیں ہوتا تو نئے صوبے بنا دینے سے استحصال زدہ طبقات خوشحال نہیں ہو سکتے۔ جنوبی پنجاب کے حاکم طبقات بھی اتنے ہی ظالم ہیں جتنے کسی بھی دوسرے خطے کے ہو سکتے ہیں۔ نسل در نسل یہاں کے دہقانوں، مزارعوں اور مزدوروں کا خون چوسنے والی یہی شخصیات اب اس نئے صوبے کی ‘تحریک‘ کی قیادت فرما رہی ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی نسلیں اور عمریں پہلے انگریز سامراج اور پھر ‘تخت لاہور‘ کی کاسہ لیسی میں گزریں۔ یہ سب ”خاندانی‘‘ اور ”جدی پشتی‘‘ امیر ہیں جنہیں انگریز آقاؤں سے وفاداری کے صلے میں جاگیریں عطا ہوئی تھیں۔ ان کی نئی نسلیں اب کچھ پڑھ لکھ کر سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کے نئے ہتھکنڈے سیکھ کر زیادہ تیز منافع خوری کے عمل میں سرگرم ہیں۔
اگر تاریخی حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اِس خطے کے ‘جدی پشتی‘ جاگیردار بھی خاصے نودولتیے ہی ہیں ۔ برصغیر کے تاریخی ارتقا کی طرز یورپ سے خاصی مختلف رہی ہے۔ آج بھی بہت سے خود ساختہ تاریخ دان اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ یورپ کے برعکس اٹھارہویں صدی تک یہاں زمین کی نجی ملکیت سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ ساری زمین بادشاہ (ریاست) کی ملکیت ہوا کرتی تھی اور من پسند لوگوں کو صرف وقتی تصرف کے لئے دی جاتی تھی۔ یہاں غلام داری اور جاگیر داری کبھی بھی بطور طرز پیداوار موجود نہیں رہی۔ یہاں پہلی مرتبہ جاگیر داری کو 1793ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے منتظم اور گورنر جنرل بنگال لارڈ کارنیوالس نے ”مستقل آباد کاری کے قانون ‘‘ کے تحت رائج کیا تھا۔ ایک بار پھر قرونِ وسطیٰ کے یورپ کی کلاسیکی جاگیر داری کے برعکس یہ جاگیر داری روزِ اول سے سرمایہ داری کے تابع تھی کیونکہ انگریز سامراج کی لوٹ مار کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام تھا۔ اس عمل میں انگریز سامراج نے یہاں کے محنت کشوں کی بغاوتوں کو کچلنے میں معاونت کرنے والے مقامی وفاداروں اور ضمیر فروشوں کو جاگیریں الاٹ کی تھیں‘ لہٰذا یہ اشرفیہ اپنے اِس شرمناک ماضی پر ناز نہیں کر سکتی۔ اب یہی طبقہ اپنی وفاداریاں بدل کر ‘تخت لاہور‘ کے حریف دھڑے سے مل رہا ہے تو ان کا تاریخی کردار تو نہیں بدلے گا‘ بلکہ پہلے سے زیادہ شدت سے لوٹ مار اور ظلم کا بازار گرم کرے گا۔
یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے مختص رقوم بھی لاہور پر خرچ کر دی جاتی ہیں‘ لیکن جنوبی پنجاب صوبہ بنانے والے بھی جنوبی پنجاب کے غربت کے صحرا میں موجود امارت کے نخلستانوں میں رہتے ہیں جہاں غریبوں کا گزر بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ سراسر خام خیالی ہو گی کہ نیا صوبہ بننے کے بعد یہ پیسے اِس صوبے کے عام لوگوں پر خرچ کئے جائیں گے۔ کسی صوبے یا انتظامی یونٹ کے وسائل وہاں کے تمام باسیوں کی فلاح پر خرچ ہوں تب ہی کسی بہتری کا سوال پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک بنیادی حقیقت یہ بھی ہے کہ اِس بحران زدہ سرمایہ داری میں جہاں حکمران طبقہ ٹیکس چور ہے اور آدھی سے زیادہ معیشت کالے دھن پر مبنی ہے، مسائل کے مقابلے میں حکومتوں کی آمدن ویسے بھی انتہائی قلیل ہے۔ یہاں جتنی گہری اور وسیع محرومی ہے وہ اِس بحران زدہ سرمایہ داری میں نہیں مٹ سکتی۔
لیکن اگر جنوبی پنجاب صوبہ بننے کے بعد بھی عا م لوگوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آتی تو پہلے وہ بھلا کون سی کم تلخیوں کا شکار ہیں۔ مسئلہ انتظامی ڈھانچوں کا نہیں طبقاتی استحصال کا ہے۔ قومی اور ثقافتی آزادی کی جدوجہد بھی اِس استحصالی نظام سے نجات کی متقاضی ہے۔ لیکن جب محنت کشوں کی تحریکیں ابھر کر اِس نظام کو چیلنج کرتی ہیں تو تمام قوموں، نسلوں، ذاتوں اور مذہبوں کے حکمران طبقات اپنے نظام کو بچانے کے لئے متحد ہو جاتے ہیں اور انقلابات کو کچلنے کے لئے بے رحمی کی ہر حد تک جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کی اس طبقاتی حاکمیت کے خاتمے کے لئے بھی تمام قوموں، نسلوں اور ذاتوں کے محنت کشوں کو اکٹھے ہو کر ناقابل مصالحت طبقاتی جدوجہد کرنا ہو گی۔ ان کا نظام اور اس کے تمام ڈھانچے ختم کر کے ہی ایسا خوشحال معاشرہ تعمیر کیا جا سکتا ہے جہاں ہر قوم کے انسانوں کو معاشی، سیاسی اور ثقافتی آزادی حاصل ہو سکے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ