تحریک انصاف کی نئی حکومت کا پیش کردہ ‘مِنی بجٹ‘ انہی پرانی پالیسیوں کا تسلسل ہے جنہیں اس سماجی و معاشی نظام میں سرمایہ دارانہ جماعتوں کو ناگزیر طور پر لاگو کرنا پڑتا ہے۔ اس میں ایک قابل ذکر تبدیلی یہ ہے کہ سابقہ نواز حکومت کی طرف سے غیررسمی یا کالی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے جن اصلاحات کو متعارف کروایا گیا تھا ، حالیہ پالیسیوں کے تحت ان کو ختم کردیا گیا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت نے ٹیکس چوروں کو گاڑیاں اور جائیدادیں خریدنے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔
جہاں مسلم لیگ (ن) پاکستان کی نام نہاد کلاسیکل صنعتی بورژوازی کی نمائندگی کرتی تھی وہیں تحریک انصاف کالی معیشت کے نودولتیوں کی نمائندہ لگتی ہے۔ الیکشن کمیشن میں جمع کردہ اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کی صفوں میں اس وقت حکمران طبقے کی کسی بھی پارٹی کی نسبت سب سے زیادہ ارب پتی ہیں۔ ٹیکس چوروں کو گاڑیاں اور جائیدادیں خریدنے کی اجازت دینے کے بعد غیر دستاویزی کالی معیشت اب مزید تیزی سے بڑھے گی۔ پابندی کے خاتمے کا یہ فیصلہ رئیل سٹیٹ اور آٹو موبائل سیکٹر کے مالکان کے لیے انتہائی منافع بخش ہے‘ جن میں ایسے بدنام زمانہ ڈاکو بھی ہیں جن کے غالب کالی معیشت سے گہرے سمبندھ ہیں۔
انتخابی مہم میں ٹیکس آمدنی بڑھانے اور بالواسطہ ٹیکس کم کرنے کے اپنے وعدوں سے پی ٹی آئی حکومت نے منہ موڑ لیا ہے اور سالانہ ٹیکس وصولی کے اہداف کو بھی کم رکھا ہے۔قومی اسمبلی میں اسد عمر صاحب کے پیش کردہ فنانس سپلیمنٹری بل 2018ء میں ٹیکس اقدامات وہی ہیں جو ان کے پیش رو اسحاق ڈار نے کیے تھے۔تاہم بالواسطہ ٹیکسز کے ذریعے آمدن بڑھانے پر زور دیا جا رہاہے۔تحریک انصاف کے پہلے بجٹ میں ہی مزدوروں اور غریب کسانوں کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔کم سے کم اجرت کا تو ذکر ہی نہ تھا۔ اس میں اضافہ تو عمران خان کی سوچ میں بھی نہیں۔حتیٰ کہ کنٹریکٹ لیبر، بیگار اور محکوم طبقات کی دوسری معاشی محرومیوں کا نئی حکومت کے معاشی ‘ماہرین‘ کے کسی بیان میں ذکر بھی نہیں ہے۔
پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام میں 45اَرب روپے کی کٹوتیوں سے نئے عوامی فلاحی منصوبے تو درکنار پہلے سے تباہ حال انفراسٹرکچر کی مرمت بھی ممکن نہیں۔اس طرح کی بجٹ کٹوتیاں جاری رہیں گی اورشدت اختیار کریں گی۔ سامراجی مالیاتی اداروں کی لوٹ مار کی شکار ریاست ایسے اخراجات کی قطعاً متحمل نہیں ہوسکتی جن کے تحت عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے تھے۔پاکستان کی بیمار سرمایہ داری کے بارے میں کسی بھی باخبر شخص کے لیے یہ وعدے اپنے آغاز سے ہی محض خام خیالی اور ڈھکوسلے تھے۔
مِنی بجٹ کی ترامیم مالیاتی خسارے کو قابو کرنے کے لیے قلیل مدتی اقدام ہیں۔حکومت ٹیکس کے جال کو بڑھا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔حکومت کی ظاہری ہچکچاہٹ کے باوجود جلد یا بدیر آئی ایم ایف سے مدد مانگنی ہی پڑے گی۔مذاکرات کے لیے 27ستمبر کی تاریخ پہلے طے ہی ہوچکی ہے۔روزانہ کی قلابازیاں اور یو ٹرن اب پی ٹی آئی رہنماؤں کا خاصہ بن چکی ہیں اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پرشاید ان کو زیادہ ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آنے والے وقت میں اس حکومت کو شاید مزید قرضے بھی لینے پڑیں۔عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بیرونی قرضے موجودہ مالی سال کے 93.4اَرب ڈالر سے بڑھ کر 2023ء میں 145اَرب ڈالر ہونے کا اندیشہ ہے۔اس کا مطلب اگلے پانچ سالوں میں پچاس فیصد کا اضافہ، چاہے جس پارٹی کی بھی حکومت ہو۔
ملک کی سماجی معاشی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔نجی تعلیم اور صحت منافع بخش ترین کاروباربن گئے ہیں جن میں کالی یا غیررسمی معیشت کی مداخلت بھی ہے۔انسانی وجود کے لیے انتہائی لازم ان شعبوں کی یہاں حالت نہایت دگرگوں ہے۔پاکستان میں 2کروڑ26لاکھ یعنی 44فیصدبچے اور بچیاں تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔43فیصد سرکاری سکولز تباہ حال ہیں جہاں فرنیچر، باتھ رومز، چاردیواری، بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات ناپید ہیں۔55فیصد شرح خواندگی کے ساتھ سارک ممالک میں یہ چھٹے نمبر پر ہے جبکہ تعلیم اور صحت کا بجٹ شرمناک حد تک کم ‘ یعنی بالترتیب 1.2فیصد اور 0.91فیصد مختص ہے۔
جہاں تک بیروزگاری اور ہنرمند افراد کا بیرون ملک ہجرت کرنے کا سوال ہے تو تقریباً سالانہ بیس لاکھ افراد ورک فورس میں شامل ہوتے ہیں لیکن اس تناسب سے بہت کم نئی نوکریاں تخلیق ہوتی ہیں۔سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں تقریباً 27لاکھ 65ہزار افراد ملک میں روزگاراور مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک سے باہر جا چکے ہیں۔7کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر، دو ڈالر یومیہ، سے نیچے رہتے ہیں۔اگر غربت کی یہ حد کم سے کم اجرت یعنی 15000روپے ماہانہ کے حساب سے مقرر کی جائے تو یہ 17کروڑ 80لاکھ افراد بنتے ہیں۔ افراط زر اور غربت کی وجہ سے لوگ روزمرہ کے اخراجات، بجلی کے بل، بچوں کی فیسیں، علاج کے اخراجات، مکان کے کرایے اور سب سے بڑھ کر خوراک کی ضروریات پوری ہی نہیں کرسکتے۔پاکستان ڈیجیٹل ایجادات میں 139ممالک کی فہرست میں 110ویں نمبر پر ہے۔گلوبل انوویشن انڈیکس کے مطابق پاکستان 128ممالک میں 119پر ہے۔تحقیق اور ترقی کے شعبے میں بھی پاکستان کی حالت اسی طرح دگرگوں ہے۔تحقیق پر ہونے والے اخراجات بجٹ کا محض 0.29فیصد ہیں۔78فیصد آبادی نجی شعبے میں صحت کے دیوہیکل اخراجات برداشت کرتی ہے۔بیس کروڑ سے زائد آبادی والے ملک کی صحت کے لیے 145,787ڈاکٹرز، 10,693ڈینٹسٹ اور 55,165نرسز ہیں جبکہ عالمی معیار کے مطابق اس وقت ملک کو 194,201ڈاکٹرز، 159,307 ڈینٹسٹ اور 14لاکھ نرسز کی ضرورت ہے۔80فیصد آبادی کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔آب رسانی کے منصوبوں میں سے 72فیصد کام کر رہے ہیں لیکن ان منصوبوں کا 80فیصد لوگوں کو آلودہ پانی فراہم کر رہاہے۔خشک ہوتے ہوئے دریا اور پاکستان کے پانی کے ناقص نظام کی وجہ سے ملک میں طویل مدتی قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔پاکستانی کاروباریوں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور عوام کے چندوں سے دیامیر بھاشا ڈیم تعمیر کرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ڈیموں کی تعمیر، تعلیم اور صحت کی سستی سہولیات کی فراہمی اور دیگر سماجی اور فزیکل انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے دیوہیکل سرمایہ کاری کی ضرورت ہے لیکن سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے درکار رقم کا حصول ناممکن ہے۔
فنڈز کی کمی اور شکست و ریخت کی شکار حکومتی ادارے چھوٹے سے چھوٹے منصوبے کی تعمیر کے لیے بھی نااہل ہیں۔حکومتی گاڑیوں، ریسٹ ہائوسوں، بھینسوں اور دیگر اشیا کی فروخت وغیرہ جیسے اقدامات عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔اس پر مضحکہ خیزی یہ ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے بڑے منصوبوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کا دعوے کیے جا رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے ان سادگی کے اقدامات سے حاصل ہونے والی رقم صرف پانچ ارب روپے ہے جو وفاقی اخراجات کے ایک فیصد کے دسویں حصے کے برابر ہے۔لیکن یہ بھی محض اعلانات ہی ہیں۔درحقیقت ان سادگی کے اقدامات سے بھی کچھ نہیں ہونے والا۔
اسد عمرصاحب نے اپنی پہلی بجٹ تقریر میں وہی باتیں دہرائیں جو اس ملک کے وزرائے خزانہ دہائیوں سے دہراتے رہے ہیں۔اس نے کہا تھا کہ پاکستانی معیشت اس وقت ‘آئی سی یو‘ میں ہے۔دراصل یہ پچھلے 71سالوں سے تقریباً ہر وقت آئی سی یو میں ہی رہی ہے۔آخری تجزیے میں اس معیشت کا تعین منڈی کی اندھی قوتیں ہی کرتی ہیں۔فی الحال یہ معیشت پہلے سے بھی زیادہ بیمار اور زوال پذیر ہے۔جب تک اس منڈی کی معیشت کو اکھاڑ کر تاریخ کے کوڑے دان میں نہیں پھینکا جاتا اس وقت تک استحصال زدہ اور محکوم عوام کے لیے کسی بھی طرح کے ‘ریلیف‘ کا امکان نہیں ہے۔تمام سیاسی جماعتیں اسی سرمایہ دارانہ معاشی نظام پر یقین رکھتی ہیں۔ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔محنت کش طبقے کواپنی ہی پارٹی اور ایک متبادل پروگرام کے ساتھ اس نظام کو اکھاڑ کر ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کی بنیاد رکھنا ہوگی۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ