شام، یمن، لیبیا، عراق اور سارے مشرق وسطیٰ کی بربادی میں مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ خلیج میں مقامی بادشاہوں کے درمیان تناؤ اور مصر میں گرم جبر کا بازار وغیرہ شہ سرخیوں کی زینت ہیں۔ ٹرمپ حکومت کے آنے سے سامراج کی جارحیت ننگی اور مظلوموں کی جانب ان کی نفرت بے نقاب اور شدید ہو گئی ہے۔
غزہ میں جاری ظلم و جبر اور اس کے محاصرے پر اقوام متحدہ اور نام نہاد عالمی برادری کی بے کاری، عیاری اور بزدلی عیاں ہے۔ چین، روس اور دیگر عالمی قوتیں بنیادی طور پر اپنے مالیاتی اور سٹریٹیجک مفادات کے پیچھے ہیں۔ انہیں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی کوئی پروا نہیں۔ عرب حکمران اور کچھ مسلم اور غیر مسلم ممالک فلسطینیوں کی حالت زار کو اپنے داخلی مفادات کی خاطر نعرے بازی کے لیے استعمال کر کے ان کے زخموں کا استحصال کرتے ہیں۔
ستر برس قبل سامراجیوں اور کارپوریٹ میڈیا نے خود فلسطینیوں کو ان کی جبری بے دخلی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ”درندہ صفت، دہشت ناک، خباثت سے بھرپور۔ کیا عجب کہ آج مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے لیے لفظ کم پڑ گئے ہیں۔ ساٹھ فلسطینی ہلاک۔ صرف ایک دن میں۔ دو ہزار چار سو زخمی، نصف سے زیادہ سیدھی گولیوں کا نشانہ۔ ایک دن میں۔ یہ اعداد و شمار ظلم کی انتہا، اخلاقی معیاروں کی فراموشی اور ان کی مرتکب فو ج کے لیے باعث ذلت ہیں… اور ہمیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اسرائیل کی فوج ”قوت کی پاکیزگی‘‘ پر مبنی ہے؟ اسرائیل کے کھوکھلے جوازوں، امریکہ کے بھونڈے جوازوں سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر آج ہم اس پیمانے کا قتل عام قبول کر لیں تو آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں ہماری قوتِ مدافعت کہاں تک جا سکتی ہے؟ مظلوم خود ہی مجرم ہیں۔ ستر سال سے فلسطینیوں کو یہی کہا جا رہا ہے… سی این این نے اسرائیل کی جانب سے قتلوں کو ‘کریک ڈاؤن‘ قرار دیا ہے‘‘۔
مئی میں ایک جانب غزہ میں قتل عام تھا اور دوسری طرف یروشلم میں امریکی سفارت خانے کے افتتاح کے جشن میں ٹرمپ کی بیٹی اور داماد کی شرکت کراہت آمیز تھی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے مکروہ کردار کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ”یہ امن کے لیے ایک بہت بڑا دن ہے‘‘۔ یہاں تک کہ امریکی حکمران طبقے کے مین سٹریم اخبار نیو یارک ٹائمز کی مشیل گولڈ برگ نے غزہ میں بربریت اور یروشلم میں سفارت خانہ کھولنے کو ان الفاظ میں بیان کیا ”یہ انتہائی بھیانک تھا… جنگجو یہودیوں اور صہیونیت کے حامی مسیحیوں کے درمیان ایک مفاد پرستانہ اتحاد کی تکمیل تھی، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کی اسرائیل میں واپسی سے دنیا کے خاتمے کی شروعات اور مسیح ؑ کی واپسی ہو گی، جس کے بعد عیسائیت پر ایمان نہ لانے والے یہودی ہمیشہ کے لیے آگ میں جلتے رہیں گے… جب تک ٹرمپ حکومت میں ہیں تب تک اسرائیل بلا کسی روک ٹوک فلسطینیوں کو قتل، ان کے گھروں کو مسمار اور ان کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کر سکتا ہے‘‘۔ سفارت خانہ کھولنے کی تقریب میں ابتدائی دعا ایک امریکی عیسائی پادری نے کی تھی۔
تجزیہ کاروں اور مبصرین کی اکثریت کے بر عکس رابرٹ فسک فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی سے مایوس نہیں ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ”میرے خیال میں اسرائیل کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ لاکھوں فلسطینی اقوام متحد ہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے حق کے دعوے دار ہیں، اور اگلی مرتبہ ہزاروں کی تعداد میں غزہ کی سرحدی باڑ پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ تب اسرائیل کو کتنے نشانہ باز درکار ہوں گے۔ اور، بلا شبہ یہاں درد انگیز المیے ہیں۔ غزہ میں کئی ایسے خاندان ہیں… جو اپنی زمینوں کو دور سے دیکھ سکتے ہیں۔ جب آپ اپنی زمین دیکھتے ہیں تو آپ کا گھر جانے کو دل چاہتا ہے‘‘۔
تین عرب اسرائیل جنگیں، فلسطینی نوجوانوں کی کئی دہائیوں کی مسلح جدوجہد، اقوام متحدہ، امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں ان گنت مذاکرات کے باوجود فلسطینیوں کی آزادی کا خواب حقیقت کے قریب آنے میں ناکام رہا ہے۔ مسلح حملوں سے جابر اسرائیلی ریاست کو ظلم کے مزید جواز میسر آ جاتے ہیں۔ عرب حکمرانوں اور ان کی فوجوں کو تینوں جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست ہوئی اور لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے اور فلسطینیوں کو دھوکہ دیتے رہے۔
اوسلو معاہدے کے پچیس برس بعد اسرائیل اور فلسطینیوں میں امن کا عمل جمود کا شکار ہے۔ اسرائیلی حکومت مذاکرات کا نام تک نہیں سننا چاہتی۔ فلسطینی قیادت یاسر عرفات کے شروع کردہ اس عمل کی ناکامی کو تسلیم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ مذاکرات انتفادہ کی تحریکوں کو زائل کرنے کا حربہ رہے ہیں۔ ان تحریکوں سے صہیونی اقتدار کی بنیادوں پر ضرب لگتی رہی اور اسرائیل کے نوجوانوں اور محنت کش طبقات میں ایک بیداری جنم لیتی رہی۔ مذاکرات کی حکمت عملی اور معاہدوں سے اسرائیلی حکمران طبقے کو مغربی کنارے اور غزہ پر اپنے قبضے اور جبر کو مستحکم کرنے کے لیے مہلت ملتی رہی۔
اب مصر میں السیسی کی آمریت متحارب فلسطینی دھڑوں کے درمیان اور اسرائیل کے ساتھ بھی مذاکرات میں ثالثی کر رہی ہے۔ مصر کی حکومت مفاد پرستی کے تحت اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر پھر سے خطے میں ایک بڑی قوت بننا چاہ رہی ہے۔ اگست میں مصری انٹیلی جنس غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کروا چکی ہے۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد تمام پارٹیوں کے حکمران طبقات کو لاحق خوف کا انسداد کرنا ہے کہ فلسطینیوں میں سلگنے والی تکلیف کسی بھی لمحے ایک انتفادہ کی شکل میں پھٹ سکتی ہے۔ غزہ میں گزشتہ کئی ماہ کے دوران اسرائیل کی جانب سے کئی دہائیوں سے جاری سمندری اور فضائی ناکہ بندی کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ 30 مارچ کے بعد سے اب تک 170 سے زیادہ فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں جو 1948ء میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے واقعات کی برسی منانے کے لیے اسرائیلی باڑ پار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
السیسی کی آمریت غزہ میں جاری عدم اطمینان کو دبا کر سینا میں خلفشار کو روکنا چاہتی ہے۔ ”فلسطینی اتھارٹی‘‘ کے صدر محمود عباس‘ حماس اور اسرائیل کے مذاکرات میں شامل نہ کیے جانے پر بہت غصے میں ہیں اور فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل سے مذکرات کرنے کی مجاز واحد قوت مانتے ہیں۔
دوسری جانب کئی عرب حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات استوار ہیں، جن کی بنیاد ایران سے ان کی مشترکہ دشمنی اور امریکی سامراج کی کاسہ لیسی ہے۔ یعنی انہوں نے فلسطینی عوام کو غربت، ذلت، بے روزگاری اور صہیونی ریاست کے ظالمانہ قبضے کے سامنے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ پچھلے ہفتے شائع ہونے والی عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ”غزہ کی معیشت ‘منہدم‘ ہو رہی ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں کی ناکہ بندی ہے۔ معیشت ‘مسلسل گر‘ رہی ہے‘ 2018ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران چھ فیصد سکڑی ہے اور اس کے بعد مزید بد تر ہوئی ہے‘‘۔
آج کی عالمی صورتحال میں فلسطینی محنت کشوں کا مشرق وسطیٰ اور دنیا کی دوسری حکومتوں میں کوئی دوست نہیں ہے۔ الفتح اور حماس کے حکمرانوں کے اقتدار اور مراعات کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ وہ علاقائی قوتوں سے مال اور فائدے بٹورنے کے لیے روتے دھوتے ہیں۔ ان کے اصل دوست اور حامی اس خطے اور باقی دنیا کے محنت کش طبقات اور محکوم عوام ہیں۔ ان کے مطالبات، مشکلات، استحصال اور جبر سانجھا ہے۔ 2011ء کا عرب انقلاب بغاوت پر اترے عوام کی قوت کی شاندار مثال ہے۔ 15 مارچ کو منتج ہونے والے ”واپسی کے عظیم مارچ‘‘ کے دوران غزہ کے ایک شاعر نے ایک نیا نعرہ تخلیق کیا کہ ”ہمارے مصائب سے نکلی ہے یہ زندگی کی پکار، واپسی کا مارچ ہے زندگی کی پکار، کہ اب ہمیں قید نہ کر سکے زنداں کی دیوار‘‘۔ ایک نئے فلسطینی انتفادہ کا حقیقی امکان موجود ہے۔ اس کے پھٹنے سے ایک نیا عرب انقلاب جنم لے سکتا ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے راستے پر چل کر یہ تحریک اسرائیل کی صہیونی ریاست کے ساتھ دوسری رجعتی ریاستوں اور نظاموں کا بھی خاتمہ کر سکتی ہے جنہوں نے نسلوں سے عوام کی زندگیوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ