ویسے تو ہر نئی حکومت اپنی ناکامیوں کے الزامات پچھلی حکومتوں پر عائد کرتی ہے‘ لیکن تحریک انصاف کی حکومت تو اس الزام تراشی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ اس حکومت کے ایک وزیر سے جب سوال کیا گیا کہ اتنی شدت سے مہنگائی میں اضافہ کیوں کر رہے ہیں؟ تو موصوف کا جواب تھا کہ ” ہم نواز شریف کو نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ جب الزام تراشی ایک وحشت میں بدل جائے تو ایسے میں بالعموم دوسری جانب سے بھی الزام تراشی کے سوا کوئی جواب نہیں ملتا۔ یہاں کے حکمران طبقے کے سیاسی نمائندوں میں یہ بڑھتا ہوا تنائو اور بد تہذیبی بنیادی طور پر اس سارے طبقے کی اپنی ٹوٹ پھوٹ اور بحران کی غمازی کر رہی ہے۔ ایک طرف سرمایہ داروں، بڑے زمین داروں اور درمیانے کاروباری طبقے کی پارٹی مسلم لیگ تھی جس کی مہارت ہی یہی تھی کہ نظام کے بحران کو ٹالنا کیسے ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ ہاتھ کیسے کرنا ہے‘ دوسری طرف نودولتیوں اور شہری مڈل کلاس پر مبنی یہ پی ٹی آئی ہے جس کے ثقافتی معیار اور سماجی بنیادوں کو جاننے کے لئے اس کے نمائندوں کے نام ہی کافی ہیں۔ یہ نئے پاکستان کے علم بردار اس مخصوص کردار اور ذہنیت کے حامل محسوس ہوتے ہیں جو نودولتیوں کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ نیا نیا سیاسی اور معاشی مقام حاصل کرنے والے ایسے حکمران ایک جانب نیکی، پارسائی اور روحانیت کا ڈھونگ کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے اندر رچے بسے ہوئے شخصی تضادات کا ایک ایسا ملغوبہ بن جاتا ہے جو متضاد شخصیت اور کردار واضح کر دیتا ہے‘ لیکن مروجہ سیاست کی تمام پارٹیوں کی تنزلی جہاں ان کے نظام کے زوال کی غمازی کرتی ہے وہاں ان کی سیاسی اقدار اور اخلاقیات کی گراوٹ کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔
اس خطے میں بسنے والی قومیتوں کی قدیم ثقافتی روایات میں ایک اہم عنصر جگت بازی اور طنز و مزاح کا بھی رہا ہے۔ لیکن آج کے عمومی تاثر کے برعکس جگت کا مطلب بیہودگی ہرگز نہیں ہوتا تھا‘ بلکہ حاضر جوابی کے ساتھ کیا گیا ایسا مزاح بڑا لطیف بھی ہو سکتا تھا۔ آج بھی ایسی جگتیں سننے کو ملتی ہیں جن میں گہری طنز کا عنصر پایا جاتا ہے‘ لیکن یہاں جاگیرداری کی باقیات ابھی تک ثقافت اور رویوں پہ حاوی ہیں۔ ایسے میں نودولتیے بھی ‘خاندانی‘ اور ‘جدی پشتی زمیندار‘ ہونے کا تاثر اپنے لباس اور انداز سے دینے کی کوشش کرتے ہیں جو بڑا مصنوعی ہوتا ہے۔ اس بناوٹ اور منافقت کو عام انسان آسانی سے پہچان سکتا ہے۔ اب یہاں پر جگتوں اور لطیفوں وغیرہ کی تخلیق کرنے والے فنکاروں کو بڑی ہی تضحیک کے ساتھ بھانڈ یا میراثی کہہ کر ان کی غربت اور محرومی کا دل سوز مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ کچھ قائدین انہی بھانڈوں اور مراثیوں کا بہت ہی گھٹیا چربہ معلوم ہوتے ہیں۔ اب پارٹیوں کی نمائندگی کا معیار یہ بن گیا ہے کہ ٹیلی ویژن پروگراموں اور جلسے جلوسوں میں کون زیادہ گھٹیا جگت بازی کرتا ہے اور کون مدِ مقابل سیاستدانوں کی زیادہ تضحیک کر سکتا ہے۔ ایسے تنزلی کے ادوار میں عام لوگ بھی جب صحت مندانہ تفریح، مزاح اور رونق سے محروم ہو جاتے ہیں تو پھر ان ٹاک شوز کو دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں‘ کیونکہ ڈرامہ، تھیٹر اور فلم کے معیار بھی اتنے ہی گر چکے ہیں۔ ایسے میں عوام کو اپنے روزمرہ کے اذیت ناک مسائل اور ذلتوں سے اپنی توجہ بٹانے کے لئے بعض سیاستدانوں کی گھٹیا اور بے ہودہ جگت بازی والے ناٹکوں کی لت سی لگ جاتی ہے۔ لیکن یہ پروگرام بھی دل کو چین اور روح کو تازگی نہیں بخشتے بلکہ مزید پراگندگی اور خجالت سے دوچار کر دیتے ہیں۔
یہ سارا کھلواڑ اتنا بے سبب بھی نہیں ہے۔ اِن میزبان خواتین و حضرات، پروگراموں میں شریک نام نہاد ماہرین اور سیاستدانوں کی یہ لا یعنی اور گری ہوئی گفتگو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اس نظام کے رکھوالوں کے پاس معاشرے کو درپیش سنگین مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ نہ ہی عوام کے حق میں اصلاحات کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ یہ بس لوگوں کو اس طلسم میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں کہ اپنے سلگتے ہوئے مسائل اور محرومیوں سے بھری زندگیوں کو وقتی طور پر فراموش کر دیں‘ اور بس ان کی آنیاں جانیاں دیکھتے رہیں۔
ویسے پی ٹی آئی کے نئے ماہرین کی فوج ظفر موج میں چند ایک ایسے معیشت دان تو یقینا ہوں گے جو کم از کم اتنا ادراک اور عقل رکھتے ہوں کہ یہاں کی تباہ حال سرمایہ داری کی حقیقی کیفیت کو جان سکیں۔ اس استحصالی معیشت کی بیماری کی سنگینی کس نہج کو پہنچ چکی ہے‘ اگر اس کا تھوڑا سا بھی اندازہ ہو جائے تو یہ پتا کرنا مشکل نہیں کہ اقتدار میں آ کر کتنی مہنگائی اور بربادی کرنا پڑے گی۔ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے تو کہاں جائیں گے؟ کوئی اور قرضہ دے گا بھی تو اس کی شرائط بھلا آئی ایم ایف سے کیونکر کم تلخ ہوں گی؟ اور عالمی منڈی میں جاری شدید مندی میں بھلا برآمدات کیسے بڑھ سکتی ہیں؟ ایک طرف سی پیک کی دیوہیکل درآمدات ہیں۔ پھر جنگی اسلحے اور انسانی تباہی کے آلات کی وسیع خریداری ہے۔ عمران خان صاحب کی حکومت اس بارے سوچنے سے تو رہی۔ باقی امیروں کے لیے جو چیزیں آتی ہیں‘ ان میں بہت ہی پُر تعیش مصنوعات پر کچھ ٹیکس بڑھ بھی جائیں تو انہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن منی بجٹ کے بعد 17 اکتوبر کی رات کو جو ایک اور شب خونی بجٹ پیش کیا گیا‘ اور اس میں جن 570 اشیا کی قیمتوں میں ہولناک اضافہ کیا گیا‘ ان میں سے بیشتر عام لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔ کیا محنت کشوں کے بچوں کو دہی اور آڑو کھانے کا بھی حق نہیں؟ لیکن کون پوچھنے والا ہے۔ بس نواز شریف کو ذمہ دار ٹھہرائو اور نیب سے ہر اس فرد کو پابند سلاسل کروا دو جو اس لڑائی میں آپ اور آپ کے آقائوں پر تنقید کرتا ہو۔ لیکن یہ لڑائیاں بھی ایک بہت بڑا فریب ہیں۔ حکمران طبقے کی ان آپسی لڑائیوں کا مقصد محنت کشوں کو ایک یا دوسرے دھڑے کا حمایتی بنانا ہے۔ کوئی مظلوم بن کر حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے تو کسی کو نجات دہندہ اور ہیرو بنا کر مقبول کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کی اکثریت گزشتہ لمبے عرصے سے اس کھلواڑ کا حصہ نہیں بنی ہے‘ جس سے پتا چلتا ہے وہ یہاں کے نام نہاد ”پڑھے لکھے‘‘ طبقات سے کہیں زیادہ سمجھدار ہیں۔ لیکن ان کے اندر ایک لاوا بھی پک رہا ہے۔ اس نظام کی حاکمیت کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔
دوسری جانب خود مختاری اور سالمیت کی باتیں بھی محض فریب ہیں۔ آئی ایم ایف سے زیادہ سفاک ایک اور ادارہ بھی ہے‘ جس سے اس نظام میں کوئی بچ نہیں سکتا۔ یہ عالمی منڈی ہے‘ جو یہ تک طے کرتی ہے کہ سندھ کے دور دراز علاقوں میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس یا بلوچستان کے ویرانوں سے نکلنے والی معدنیات کی قیمت کیا ہو گی۔ جب تک اِس منڈی کے نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں ہوتا سالمیت ایک ڈھونگ اور فریب ہی رہے گی۔ لیکن جب تک یہاں سرمایہ دارانہ معیشت رہے گی یہ اسی عالمی منڈی کی جکڑ میں رہے گی جس کے اصول اور قوانین پھر سامراجی قوتیں ہی طے کرتی ہیں۔ یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی اقتدار میں صرف وہی آتے ہیں‘ جنہیں عوام کے دُکھوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس اقتدار میں آنے کے لئے سفاک اور پتھر دل ہونا لازم ہے۔ یہ حکمران طبقات بے حس نہ ہوں تو حکمرانی کیسے کر سکتے ہیں؟ رحم دلی ان کے نظام کے لئے زہر قاتل ہوتی ہے۔ ظلم کا نظام ظلم کے بغیر چل نہیں سکتا اور مظلوموں کی بغاوت کے بغیر مٹ نہیں سکتا۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ