بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے بعض اساتذہ کے حوالے سے جنسی ہراسمنٹ کی جو شکایتیں سامنے آئی ہیں۔ اس کی بنا پر یہاں کا تعلیمی نظام ‘ سمسٹر سسٹم ‘ تشویشناک اعتراضات اور سخت تنقید کی زد میں ہے کیونکہ اس کے ہاتھوں ملنے والے بے پناہ اختیار نے بعض اساتذہ کو اپنے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی طرف راغب نہیں کیا بلکہ استحصال اور زیادتی کا فن عطا کر دیا ہے اس لیے کہ اس سسٹم میں استاد کی حیثیت مقتدر ہوتی ہے اور طلباءکی تابع بلکہ تابع مہمل کی اب وہ جس کی چاہے قسمت بگاڑ دے اور جس کو چاہے نیچے سے اٹھا کر بلند تر کر دے۔ اس سے طلباءتو قابو میں آگئے ہیں مگر کوالٹی ایجوکیشن مجروح ہو گئی ہے۔ سفارش اور خوشامد کا کلچر پنپا ہے۔ دام تحریص نے نئے نئے گل کھلائے ہیں۔ منہ زور طاقت کے یہی انداز ہوتے ہیں ۔
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
کمپوزٹ سسٹم میں طاقت کا یہی توازن طلباءاور یونینز استعمال کرلیا کرتے ہیں۔
سمسٹر سسٹم بجائے خودکوئی بُرا نظام نہیں بلکہ کمپوزٹ سسٹم کے مقابلے میں بہت بہتر طرز تعلیم ہے۔ بشرطیکہ اس کو لاگو کرنے والی مشینری درست ہو۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہی سسٹم اچھے برگ و بار لا رہا ہے۔ ہم نے بھی اسی کا اتباع کیاہے۔ اس کے تحت طالب علم ہمیشہ مستعد (On the tip of the Toe) اور باقاعدہ رہتا ہے۔ وہ اسائنمنٹس تیار کرتا ہے۔ سال میں امتحان کے متعدد مراحل ”مڈ ٹرم ٹیسٹ اور فائنل ٹرم ٹیسٹ سے گزرتا ہوا اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ جدید آزمائشی طریقوں کے مطابق وقفے وقفے سے امتحانات سے طلباءکی صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور منزل تک رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ متعلم کو اپنے تمام مضامین میں یکساں محنت کرنی پڑتی ہے کیونکہ اس کے فائنل رزلٹ کا انحصار حاصل کردہ نمبروں پر نہیں ہوتا بلکہ (Grade GPA Point Average) پر ہوتا ہے۔ اگر اس کی میکسیمم جی پی اے چار (4) ہے تو اسے حاصل کرنے کے لیے سٹوڈنٹ کو اپنے ہر مضمون میں 80 فیصد یا اس سے زائد نمبر لینے ہوتے ہیں لیکن اگر کسی مضمون میں 75 فیصد نمبر ملیں اور کسی میں 90 فی صد بھی تو اس کی جی پی اے کم ہو جائے گی۔ اسی لیے اعلیٰ GPA کے لیے طلباءکو تمام مضامین میں محنت کرنا پڑتی ہے۔
جدید دنیا کے تعلیمی نظاموں اور متذکرہ سسٹم کی خوبیوں کے پیش نظر ہمارے ہاں اس کا پہلا تجربہ ‘ پوسٹ گریجوایٹ لیول کی کلاسز پر 1976میں کیا گیا مگر اس کے لیے اساتذہ کو تربیت نہ دی گئی۔ اس لیے ایک تو اس کے سامنے کوئی راہ عمل متعین نہ ہو سکی اور دوسرے اسے جب یہ احساس ہوا کہ میں ہی ہمہ مقتدر ہوں تو اس نے آسان کوشی کا راستہ اپنا لیا عمومی اساتذہ کی خامی یہ بھی ہے کہ وہ کسی دباﺅ کے سامنے ڈٹ نہیں سکتے۔ پھر اور بھی ایسے دام تحریص ہوتے ہیں جن میں پھسانا راہ عمل کی مشکلوں سے نمٹنے کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ بیشتر اساتذہ بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہیں جہاں اخلاقی قدروں کو زنگ لگ چکا ہے۔ اس لیے نہ صرف طلباءبلکہ اساتذہ نے خود بھی اپنے شکار کے لیے اپنے دام پھیلائے۔ اس دور میں طلباءیونینز بھی زور و جبر کا کھیل کھیلتی تھیں۔ ایسے ماحول میں بیشتر اساتذہ نے جفاکشی کی بجائے آسان راہیں اختیار کرلیں۔ سٹوڈنٹ کا مقصد اچھا گریڈ تھا تو وہ اساتذہ کی چاپلوسی سے بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ تب شنگریلا چائینز ہوٹل یونیورسٹی طلباءاور اساتذہ کی باہمی پارٹیوں سے بہت معروف ہو گیا تھا۔ پھر تعلیمی سطح پر بہت کم اساتذہ نے جدید آزمائشی طریقے اپنائے۔ بیشتر نے موضوعی سوالات کے ذریعے ٹیسٹ لیے اور طلباءکے اصرار پر گیس بھی دے دیئے۔ اس سے تعلیمی معیار بھی فروتر ہوا اور اساتذہ کا وقار بھی زوال آمادہ ہوا۔ بالآخر چار سال کے تجربے کے بعد اس کی بساط لپیٹ دی گئی اور حیرت کی بات یہ ہوئی کہ جولائی 1981 کے مہینے میں UNDP کی طرف سے خانس پور ایوبیہ میں ”New Techniques of Teaching & Research” کے موضوع پر پنجاب کے ایجوکیشن کالجز کے اساتذہ کی تربیت ہوئی جس میں پاکستان‘ مصر‘ یوگنڈا اور کینیڈا کے ریسورس پرسنز نے ایک ماہ کے قریب تربیت دی۔ راقم الحروف بھی اس کورس میں شامل رہا اگر یہی تربیت آغاز میں یا پہلے سال میں ہی دی جاتی تو یہ سسٹم شاید اس قدر جلد ناکام نہ ہوتا۔
بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پہلے IMSڈیپارٹمنٹ میں ڈاکٹر ظفر اللہ کی سربراہی میں SS شروع ہوا پھر ایگری کلچر میں اور بی فارمیسی میں بعد میں غالباً 20ویں صدی کے ابتدائی سالوں سے باقی شعبوں میں بھی اس کی روشنی پھیلی لیکن اس کے ساتھ ہی شکایات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چند ایک اساتذہ کی فرعونت اور استحصال کے چرچے ہوئے۔ دیگر میں اچھے مزاج اور قابلیت کے اساتذہ نے کچھ عرصہ شعبوں کا بھرم قائم رکھا لیکن معاشرتی قدروں کا زوال اجتماعی اخلاقی انحطاط اور اساتذہ کے فروتر اقدامات ‘یونیورسٹی کی خرابیوں میں مزید اضافے کا باعث بنا۔ یہ کہنا صحیح نہیں ہو گا کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یہاں روشن ضمیر اساتذہ بھی ہیں۔ ان ہی کی کاوشوں سے یہ نظام چل رہا ہے مگر مجموعی طور پر سمسٹر سسٹم کوالٹی ایجوکیشن قائم نہیں کر سکا۔ صرف یہی ایک سسٹم نہیں ہم جو بھی سسٹم اپناتے ہیں اس میں ہم ترقی و ارتفاع کا باعث نہیں بنتے۔ جب مطمحِ نظر ‘ طمع ‘ لالچ اور حرص و ہوس ہو تو یہی حاصل ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں استاد کی گرتی ساکھ عرصے سے تشویشناک ناک ہے۔ اس کو بحال کرنے کے لیے کئی طریقے اختیار کیے گئے مگر جب تک استاد کے اپنے اندر جان نہ ہو اس کا تدریسی عمل مو¿ثر نہ ہو ‘ساکھ کیسے بحال ہو سکتی ہے۔ ایوبی دور میں استاد کو غالب حیثیت دینے کے لیے ہر مضمون میں انٹرنل Assessment کے نام سے اس کے ہاتھ میں سالانہ امتحان کے کچھ نمبر ”سیشنل مارکس“ کے نام سے رکھے گئے مگر طلباءیونینز کا دباﺅ ‘ خوشامد اور چاپلوسی اور مقتدر لوگوںکی سفارشوں نے یا اساتذہ کی دریا دلی یا سادگی یا طمع نے وہاں بھی انصاف نہیں ہونے دیا۔ طالب علم یونیورسٹی امتحان میں فیل ہوتا تھا مگر سیشنل مارکس پورے کے پورے ہوتے تھے جس طرح تھیوری اور پریکٹیکل میں نمبروں کا توازن بگڑ جاتا ہے وہی صورت یہاں بھی موجود رہی ہے اور موجود رہے گی۔
یونیورسٹی کے مقابلے میں ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈز کے امتحانات بدرجہا بہتر ہیں اس کی وجہ اس کا صحت مند نظام ہے۔ وہاں پرچہ سازی کا سسٹم ایسا ہے کہ اس کے قبل از امتحانات افشاءہونے کے اقدامات معدوم ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرچہ کسی ایک پرچہ ساز کا نہیں بنا ہوتا بلکہ تمام بورڈز کے ایک ایک نمائندے کے ایک ایک یا دو سوالوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ان پرچوں کی تعداد بورڈز کی تعداد سے تین گنا ہوتی ہے اور ہر بورڈ کو ان میں تین تین پرچے دیئے جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک یا دو کو کھولنا ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں سمسٹر سسٹم جہاں جہاں بھی رائج ہے اس کی صورت حال کم و بیش یہی ہے۔ بات صرف اساتذہ ہی کی نہیں طلباءوطالبات خود بھی دام تحریص پھیلاتے ہیں۔ ہمارے استاد میں اتنی ہمت نہیں رہی کہ وہ اس فریب میں نہ آسکے بلکہ یہاں تو بعض اساتذہ خود ایسے ایسے جال بچھاتے ہیں کہ اچھے کردار و اخلاق کے طلباءمحرومیوں کا شکار رہتے ہیں۔ پھر کوئی یہاں ایسا نظام بھی نہیں جو اصلاح اور بہتری کرنے کی ہمیت رکھتا ہو۔ یوں ہماری حالت ”نئے ہاتھ باگ پر ہے ‘نہ پا ہے رکاب میں“والی بن گئی ہے۔
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں جو سسٹم بھی فول پروف بنایا جاتا ہے ہم اسے کامیاب کرنے میں اپنی کاوشیں صرف نہیں کرتے۔ اسے توڑنے اور کمزور کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں اور اس کیلئے بھرپور اقدامات بھی کرتے ہیں۔ جب تک ان لوگوں کی مدد شامل نہ ہو جن کے لیے یہ سسٹم بنایا جاتا ہے وہ کیسے کامیاب رہ سکتا ہے۔ مگر بایں ہمہ یونیورسٹی کے امتحانی نظام کو اوور ہال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نظام جس میں نہ اساتذہ براہ راست مداخلت کر سکیں اور نہ طلبائ۔ عزت مآب وائس چانسلر کو جائزہ لینا چاہیے کہ اس یونیورسٹی نے اپنے آغاز میں جو BAکے امتحانات لیے تھے اس کی ستائش BBCسے کیوں کر ہوئی تھی۔ راستے بہت ہیں مگر اس کے لیے گہرا وژن اور غیر جانبدارانہ عمل کی ضرورت ہے اور پبلک کے تعاون کی بھی طلب ہے۔
فیس بک کمینٹ