ڈاکٹر مزمل حسین نے اپنی اس تالیف میں ڈاکٹر مہر عبدالحق مرحوم سے کئی مماثلتیں بیان کی ہیں کہ
1۔مزمل بھی اردو میں پی ایچ ڈی کرکے قواعد زبان اور لسانیات میں مہارت حاصل کر چکے ہیں ۔
2۔ دونوں کا تعلق لیہ سے ہے ۔
3۔مزمل بھی سرائیکی زبان میں تراجم ، تالیفات کے سبب کم و بیش بابائے سرائیکی بن چکے ہیں مگر روزانہ شیو اور زور دار خضاب سے ان کی شباہت مع وجاہت ابھی اس رتبے پر فائز نہیں ہونے دے رہی
4۔سرائیکی اہل قلم کی اپنے ہی ‘سرخیل’ پر ٹوٹ پڑنے کی عادت یا صلاحیت سے نمٹنے کے لئے انہیں مسند نشینوں اور اپنے اثر رسوخ کو مہر صاحب کی طرح استعمال کرنا آتا ہے ۔
بہر طور ڈاکٹر مزمل حسین اور اکادمی ادبیات کی خوش قسمتی ہے کہ جب ڈاکٹر وحید قریشی جنرل ضیاءالحق کے قریب ہوئے اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے بعد مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشیں ہوئے تو انہوں نے نامور مصنفوں سے متعلق "کتابیات ” کے عنوان سے علمی پمفلٹوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جسے بعد میں شاید افتخار عارف یا پروفیسر فتح ملک نے بھی جاری رکھا اس میں بھی مہر عبدالحق پر شفیق انجم نے ایک اچھا کام کیا تھا ( خود مہر صاحب کے تعاون سے ) پھر ہماری ایک شاگرد ام کلثوم نے 1986 میں مہر عبدالحق پر ایم اے کا مقالہ لکھا اور پھر مہر صاحب کی تفصیلی آپ بیتی ان کے ایک بیٹے نے شائع کر دی یوں ڈاکٹر مزمل حسین کی اس رسمی تالیف کی دمک اور بڑ ھ گئی ۔
اب ماجرا یہ تھا کہ ڈاکٹر مہر عبدالحق کے کرسٹوفر شیکل ، اے کے بروہی سے تعلقات تھے اور وہ ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر ، ڈاکٹر روبینہ ترین اور ڈاکٹر شہزاد قیصر کے پی ایچ ڈی کے مقالات کے نگران بھی تھے ڈاکٹر مزمل حسین کو اپنے شاگردوں میں اس پائے کے شاگرد ابھی پروڈیوس کرنے ہیں ۔
بے شک مہر صاحب اپنے مذہبی امیج کو راسخ کرنے کے لئے کافی کوشش’کرتے تھے پھر حاسدوں اور کچھ بیماریوں سے محفوظ رہنے کےلئےقصیدہ بردہ کے اردو سرائیکی تراجم کو دیدہ زیب طباعت کے ساتھ "تحائف” کی صورت مریدین میں تقسیم کرتےتھے لیکن کبھی کبھار سچ بولنے یا تھل کی شہزادگی کے باوجود معاشی مشکلات سے متعلق اپنے مراسلات اور مکتوبات کا جواز پیدا کرنے کے لئے یہ تک لکھ دیتے تھے
” اپنوں میں کوئی حاسد اٹھا دادا جان سے دوستی گانٹھی انہیں چرس اور گانجے کا عادی بنایا اور پھر زمینیں ہتھیانی شروع کردیں ”
بہر طور 162 صفحات کی اس کتاب سے ڈاکٹر مزمل حسین سے تجدید تعلق ہو گیا وگرنہ میں ان کی ایک دو خوبیوں سے پریشان بھی ہو جاتا تھا ایک مرتبہ انہوں نے لیہ کے ایک سادہ دل نوجوان کو میرے پیچھے لگا دیا جس کا دعوی تھا کہ اس کے والد ڈاکٹر گوپی نارنگ کے استاد تھے جب وہ لیہ کے سکول میں پڑھتے تھے اس لئے ساہتیہ اکادمی کے صدر نشیں کے طور پر ڈاکٹر نارنگ کا فرض’ہے کہ اس نوجوان کو بھارت کے دورے کی دعوت دیں یا اس’کی مالی مدد کے لئے حکومت پاکستان سے اپیل کریں ۔ میں نے اس پر سرائیکی میں ایک افسانہ بھی لکھا تھا
” میں لیہ توں بولیندا پیاں ”
فیس بک کمینٹ