غالب نے کہا تھا:
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
غالب نے یہ شعر شاید پاکستان کی معاصر سیاسی،سماجی اور معاشی صورت حال کے پس منظر میں کہا تھا۔
بد قسمتی یہ ہوئی کہ آ غاز ہی سے ملک کے داخلہ اور خارجہ امور صحیح سمت میں نہ چل سکے ،نتیجے میں 24 برسوں ہی میں ملک دولخت ہو گیا۔باربار کے مارشل لاء اور آ ئین کی پامالی،عقیدے کی غلط تشریح ، شدت پسندی،مکالمے کی معدومیت اور غیر یقینی صورت حال نے ایک ایسے مخمصے کو جنم دیا جس سے ہماری قومی تاریخ بے چہرہ بن کر رہ گئی۔ملک کے تمام ادارے تباہ ہو گئے،لوگوں کا عدلیہ،قانون ساز اداروں ،سکیورٹی فورسز اور سماجی اداروں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے ۔باہمی اعتماد اور تکریم کی تو اب یہ صورت ہے کہ ایک صوبہ دوسرے صوبے سے داخلہ حوالے سے کہیں پر بھی مماثلت نہیں رکھتا۔ ڈمی میڈیا نے بے بنیاد پراپیگنڈے سے سندھ اور بلوچستان کو علاقہ غیر ڈیکلیر کر رکھا ہے اور بطور خاص ان صوبوں کو پنجاب کے مقابلے میں غیر محب وطن ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اب عام بندہ (پنجاب کا) مذکورہ صوبوں کو شاید پاکستان کا حصہ ہی نہیں سمجھتا۔ایک عجیب سی بے گانگی ہے جس کا لوگ شکار ہیں،یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ایسی بیگانگی ریاستوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہو تی ہے ،اور یہ رویہ اس وقت زیادہ خطرناک بن جاتا ہے جب لوگوں کا اعتماد اداروں بطورخاص عدلیہ اور محافظین پر متزلزل ہو جائے۔اس وقت لوگ افواج پاکستان پر کئی طرح کے سوال اٹھانے لگے ہیں یہ تشویش ناک کیفیت ہے ۔یقینا اس کیفیت کو پیدا کرنے میں بھی افواج پاکستان یا ریاستی پالیسیوں کا اپنا کردار ہے ۔1965 کی جنگ میں پاکستانیوں کے جو جذبات اور وابستگی تھی وہ آ ج عنقا ھے،ایسی صورتحال میں ملکی دفاع میں کمزوری کا سوال جنم لیتا ہے ۔فوجیں دشمن کا اسی وقت دشمن کے ارادوں کو پامال کرتی ہیں جب انھیں اپنے ہم وطنوں کی محبت اور اعتماد حاصل ہو۔موجودہ صورتحال میں مقتدرہ کو ہر حوالے سے اپنا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔
اس بحالی کے لیے مقتدرہ کو پیشہ ور بننا ہو گا۔سیاسی اداروں کو خودمختار کرنا ہوگا اور اداروں میں بے جا مداخلت سے گریز کرنا ہوگا۔اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ریاست کے وجود کو کئی طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اب ملک میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی روش عام ہے ،عدم تحفظ کا احساس ہے اور ہر طرف مایوسی کے ڈیرے ہیں۔معاشی حوالے سے ایک معروضی یا مصنوعی خوشحالی دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت میں وہ عناصر معدوم ہونے کے قریب ہیں جو کسی بھی ریاست کی بقا کے لیے لازم ہوتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ