وہ اس کے جنازے میں بیٹھی زاروقطار رورہی تھی اورنہ جانے کیاکیا بول رہی تھی ۔سب لوگ اُس کی دردبھری چیخ وپکار سے اوربھی زیادہ دکھی ہورہے تھے مگرساتھ میں اُس کی بہت قریبی سہیلی کھڑی اُس کی اس آہ وزاری پرحیران وپریشان تھی ۔اسے حیرت تھی کہ یہ وہ ہی مائرہ ہے جس نے اِسی شخص کی زندگی جہنم بنارکھی تھی اورجس کاارادہ خلع لینے کاتھااوراس کااظہار وہ برملا کئی باراُس کے سامنے کرچکی تھی ۔اوروہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس نے خلع لینے کاپختہ ارادہ کرلیاہے ۔
مائرہ ایک چھوٹے سے شہر کی ایک زمیندار گھرانے کی بیٹی تھی ،یہ دوہی بہنیں تھیں ۔دوبہنوں کی عمروں میں کافی فرق تھا ۔بڑی بہن شادی شدہ اوربچوں کی ماں تھی ۔یہ اپنی بڑی بھانجی کی ہم عمر تھی ۔جب اس کی پیدائش ہوئی تو اس کی ماں چل بسی اورانہی دنوں میں بڑی بہن جو شادی شدہ تھی اس کے ہاں پہلی بیٹی پیدا ہوئی ۔مائرہ کی والدہ کی وفات کے دوسال بعد باپ بھی چل بسا۔یوں وہ بے سہارا وربے آسرا ہوکر بہن کے درپرآگئی اوراپنے بھانجیوں اور بھانجوں کے ساتھ بڑی ہوئی ۔بڑی بہن نے اس کوناز ونعم سے اولاد کی طرح پالا ۔لیکن اس کی تعلیم وتربیت کی طرف صحیح توجہ نہ کرسکی ۔اس کے تعلیم صرف مڈل تک ہوسکی اورضدی بھی وہ انتہا کی تھی ۔
اُس کی فطرت کوجانتے ہوئے رشتہ داروں میں کوئی بھی اس کارشتہ لینے کوراضی نہیں تھا حالانکہ باپ کی طرف سے وراثت میں دونوں بہنوں کوبہت جائیداد ملی تھی ۔اس لیے اُس کی بہن نے رشتہ کرانے والی خواتین کوذمہ لگایا کہ اُس کے لیے رشتہ ڈھونڈدیں ۔اسی دوران عمیر حسن کارشتہ آیا تواُس کی بہن نے فوراََ ہاں کردی ۔عمیر ایک شریف اورپڑھا لکھا نوجوان تھا اورشکل وصورت میں بھی اچھا تھا۔یوں دونوں میں اچھے طریقے سے نبھاہ ہونے لگا ۔عمیر اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اورماں باپ کی اُمیدتھا ۔کچھ عرصے بعد جب عمیر کاوالد فوت ہوگیا تو مائرہ نے نندوں اوردیوروں سے بدسلوکی شروع کردی اورعمیر کو مجمور کیا کہ اُسے دوسرے شہر میں علیحدہ گھر چاہیے ۔عمیر اُس کی محبت اوربچوں کی وجہ سے ماں باپ کاگھر چھوڑنے پرمجبور ہوگیاپھروہ اپنی ماں اورچھوٹے بہن بھائیوں کی طرف سے لاپرواہ بھی ہوگیا۔یہاں تک کہ جب ساس اورنندیں اس کے گھر اُس کی محبت میں مجبور ہوکر ملنے کے لیے آتیں تو وہ ان کو منہ بھی نہ لگاتی اوروہ بے چاری اُس کی بدسلوکی کی وجہ سے چلی جاتیں ۔
عمیر کی اچھی جاب تھی اوراُس نے مائرہ کو بڑے عیش وعشرت میں رکھا ہواتھا۔مائرہ کو اپنے والدین سے جوزمین ملی تھی اس پراس کے رشتہ داروں نے قبضہ کیا ہوا تھا۔سواسے اپنے گھر سے مالی مدد نہیں تھی مگر عمیر نے اُسے ہر طرح کی آسائش دی ہوئی تھی اورساتھ ساتھ اچھے وکیل کرکے اُس کی جائیداد رشتہ داروں سے واگزارکرانے کاذمہ اپنے اوپر فرض کرلیاتھاتاکہ مائرہ کو ہرخوشی دے سکے ۔وہ اس کی محبت میں اپنی ماں اوربہن بھائیوں کو یکسر بھُلاچکاتھا۔
وقت گزرتارہا اورایک دن عمیر کوپتہ چلا کہ اسے جگر کاکینسر ہوچکاہے ۔مائرہ جواس کی بیوی تھی اورجسے رب نے حکم دیاہواتھا کہ اپنے شوہر کے دکھ سکھ میں ہر طرح ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی بیماری میں اُس سے لاپرواہی برتنے لگی ۔قدرت کی ستم ظریفی کہ اس دوران مائرہ کی جائیداد کافیصلہ بھی ہوگیا اوراچھی خاصی جائیداد مائرہ کومل گئی ۔پھر تواسے اپنے سواکوئی نظر نہیں آتاتھا اس نے پہلے عمیر سے بے رخی اختیارکی اوراس کے بعد آہستہ آہستہ بدتمیزی شروع کردی ۔گھر کے نوکروں تک کو اس کاکام کرنے سے منع کردیا اورخود سارا دن شاپنگ اورسیر سپاٹے میں گزارنا شروع کردیا ۔اور جب عمیر کوئی اخلاقی بات بتانے کی کوشش کرتا تو انتہائی بدتمیزی کرتی ۔تب عمیر کو اپنی ماں بہنیں بھائی بہت یادآئے مگر وہ ان کو آواز نہ دیتا کیونکہ اس کو اپنی لاپرواہی یادتھی ۔انہی دنوں میں ان کے گھر مائرہ کے ایک کزن کاآناجاناہوگیا جودبئی رہتاتھااورکچھ عرصہ کے لئے اپنے کاروبار کی وجہ سے آیا ہواتھا۔مائرہ کی اس سے بڑھتی بے تکلفی اورعمیر سے بے حد بے رخی عمیر کوخون کے آنسو رلارہی تھی ۔انیسہ جو کہ مائرہ کی بچپن کی دوست تھی اس کے تما م حالات وواقعات سے واقف تھی ۔وہ مائرہ کوسمجھانے کی کوشش کرتی مگر مائرہ کچھ اورہی سوچوں میں گم تھی اس کو اپنے بیمار خاوند اورجوان ہوتے بچوں کی بجائے صرف اپنی عارضی خوشیوں سے لگاﺅتھا ۔وہ انیسہ کے بار بار سمجھانے پراس سے بھی بے رخی برتنے لگی ۔ایک دن جب انیسہ عمیر کی طبیعت کاپوچھنے آئی ہوئی تھی توماہرہ نے بہت بدتمیزی سے زور سے کہاکہ کتا مرتابھی نہیں ۔دوسرے کمرے میں بیمار ولاچار ولاغر نے جب یہ الفاظ سنے تو برداشت نہ کرپایا اوربے ہوش ہوگیا ۔وہاں اس کا گیارہ سالہ بیٹا موجودتھاجس نے دونوں کو خبر دی اوریوں عمیر کوہسپتال لے جایاگیامگر وہاں پہنچنے تک عمیر سارے گلے شکوے اورمحبتیں چھوڑ کر اس دنیا کوکھلی ہوئی عجیب نظروں سے دیکھتا ہوا جاچکاتھا۔اورانیسہ اسی مائرہ کو اس کے جنازے پر اس قدر زاروقطار آہ وزاری کرتے دیکھ کر حیران تھی ۔مگر کچھ ہی دیر میں اس کی یہ حیرت بھی ختم ہوگئی جب اس کے کانو ں میں مائرہ اورا س کی بہن کی سرگوشی پڑی کہ مرنے والا بہت اثاثہ چھوڑ کے جارہاہے اورخلع کے لئے بھی عدالت نہیں جانا پڑا خود ہی خلع بھی مل گئی اوراثاثہ بھی ۔اورانیسہ کے کانوں میں بار بار یہی لفظ گونج رہے تھے ”کتا مرتابھی نہیں “
فیس بک کمینٹ