بہت گہری سطح پرتنازعات کہ تہہ میں متنوع طبقاتی مفادات کارفرماہوتے ہیں لیکن محکوم معاشروں اورملکوں میں ان کے اظہار کے جو پیمانے ہیں ان میں مذہبی منافرت ،سماجی نظریات وافکار کوکم تر سمجھنا اوراقلیتوں کے حقوق وزندگی کے قرینے کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھنے کی عام روش نظر آتی ہے ۔
جناب سیمسن جاوید نے پاکستان کی اس صورتحال کواپنی فکر انگیر تحریروں میں موضوع بنایاہے اوراہل نظر کو اس سنگین صورتحال کی جانب متوجہ کرنے کی سعی کی ہے اوراب تک اس حوالے سے جورپورٹیں وکاوشیں منظر عام پر آئی ہیں مثلاََجبراََ تبدیلی مذہب کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ اورایسی ہی دستاویزات کے ناطے انہوں نے جرات مندی اورسادہ وموثر اسلوب سے اقلیتوں کے ناموافق حالات اورروز مرہ کی زندگی میں ان کے سماجی مسائل کی نشاندہی کی ان کے پیش نظر اس حوالے سے پاکستان کے آئین کی پامالی کی روداد ،ضیاءالحق دورمیں ریاست کومارشل لاءکے ضابطوں سے اسلامی ریاست بنانے کی حکمت عملی ،نرگسیت مآب چوہدراہٹ ایسے امور ہیں جن کاجائزہ لیتے ہوئے سیمسن جاوید نے ایک سنگین اورپیچیدہ صورتحال کی نشاندہی کی ہے اوراس کے ماخذ وں کی تلاش،جستجو میں انہوں نے کرپشن مفاد پرستی اوراقلیتوں کے بعض نمائندوں کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی بھی نشاندہی کی ہے ۔
سیمسن جاوید نے مختلف ادوار میں اقلیتوں پرہونے والے حملوں مثلاََشانتی نگر ،سانگلہ ہل ،کوٹ رادھا کشن وغیرہ کے واقعات کاجائزہ لیتے ہوئے آگاہ کیا ہے کہ اس خطے میں اقلیتوں کومساوی حقوق حاصل نہیں اور انتظامی مشینری یعنی پولیس جو کہ عوام کی محافظ ہے کمزور سمجھ کرانہیں تشدد کانشانہ بناتی ہے ۔اس میں شبہ نہیں کہ جنگی جنون میں مبتلا یہ کلچر گھروں میں بھی اس طرح سرایت کرآیاہے کہ کوئی ”عورت بھی گھرمیں محفوظ نہیں “جس کادوسرا مطلب یہ ہے کہ سماجی تعلیم کی کوئی راہ عمل موجود نہیں ۔سیمسن جاوید صاحب کے کالموں سے معاشی زندگی کے وسیع وعریض دلدل کو سمجھنے کی تحریک تو ملتی ہے لیکن جب قدم بڑھاتے ہیں توپاﺅں اورکچیڑ میں دھنستے چلے جاتے ہیں ،تاہم امید کی ایک کرن ہے جو مصنف کوحالات کی تقسیم کازوایہ نظر مہیا کرتی ہے اوریہ کرن بھی اس حقیقت حال کے ادارک سے ابھرتی ہے کہ اقلیتوں کے مساوی حقوق کاچرچہ ’‘محض ایک خواب بن گیاہے “۔۔۔۔
ایک کالم بعنوان ”صادق خاں کالندن کامیئر منتخب ہونا “ایسا واقعہ ہے جوانہیں اپنے ملک میں سماجی پسماندگی جس کااظہار فرقہ پرستی اورمذہبی پسندی کی شکل میں سامنے آتاہے ان کے ردعمل کے مشاہدے اورجائزے کوروبرولاتاہے لیکن محکوم معاشرے میں بہت سے پس پردہ عوامل بھی ہیں جن تک عام آدمی کورسائی میسر نہیں اوران حالات میں مشروط زرعی معاشروں کی انا پرستی ،حقیقی صورتحال سے ماورا اقلیتوں اوردوسروں کو برداشت کرنے کے رویوں کے خلاف محاذ قائم کرلیتی ہے ۔سیمسن جاوید صاحب ایک طویل عرصہ (2011سے بحوالہ جاویدیاد صاحب )برطانیہ میں مقیم ہیں لیکن بطور ادیب وصحافی پاکستان کے حالات سے کبھی لاتعلق نہیں رہے ۔انہوں نے پوسٹ گریجویشن اے اے ہملٹن کالج لند ن سے کی اورکوئٹہ کے سینٹ میخائل سکول میں سائنسی مضامین کی تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ۔سیالکوٹ میں قیام کے دوران انہوں نے روزنامہ” سفیر“ کی ادارت کے فرائض سرانجام دیئے اورکوئٹہ میں قیام کے دوران” کندن“ اخبار کے مدیر کی حیثیت سے اقلیتوں کے مسائل کی جانب متوجہ کرنے کے لیے مضامین وکالم تحریر کرتے رہے اورکوئٹہ قیام کے دوران ہی انہوں نے ریڈیو ٹیلی ویژن کے لیے کئی ڈرامے وسکرپٹ تحریر کیے ۔(فیس بک پران کے بارے میں ابتدائی معلومات مل جاتی ہیں )ان کی تحریر وں کایہ مجموعہ اقلیتوں کے مسائل وحقوق کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ہے ۔
فیس بک کمینٹ