• مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • تجزیے
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • اختصارئے
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • سیالکوٹ
      • گوجرانوالا
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
Facebook Twitter
اتوار, مئی 28, 2023
  • پالیسی
  • رابطہ
Facebook Twitter YouTube
GirdopeshGirdopesh
تازہ خبریں:
  • سید زاہد حسین گردیزی کی یادیں : میر غوث بخش بزنجو ، قسور گردیزی اور نیپ
  • آج سورج خانہ کعبہ کے عین اوپر ہوگا
  • اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں 6 شدت کا زلزلہ
  • ایجنسیوں نے دو طرح کی منصوبہ بندی کی گفتگو پکڑلی، اس پر آج رات عمل ہونا تھا: وزیر داخلہ
  • پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے پچیس برس مکمل۔۔قوم کا اتحاد ہی پاکستان کی اصل جوہری قوت ہے: وزیراعظم شہباز شریف
  • خالد مسعود خان کا کالم:ویسپا سکوٹر‘ تاریخی عمارات اور تجاوزات
  • رؤف کلاسراکا کالم:ظفرالطاف سے پی ٹی آئی تک
  • سید مجاہد علی کا تجزیہ:ملکی معیشت، سیاسی استحکام اور مقام عبرت
  • عطا ء الحق قاسمی کا کالم:میں اور میرے ’’مسائل‘‘
  • امتیاز عالم کا کالم:چراغ سب کے بجھیں گے؟
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • تجزیے
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • اختصارئے
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • سیالکوٹ
      • گوجرانوالا
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
GirdopeshGirdopesh
You are at:Home»کالم»میں کہاں پھنس گیا تھا ؟ ۔۔ ڈاکٹر سلمان حیدر
کالم

میں کہاں پھنس گیا تھا ؟ ۔۔ ڈاکٹر سلمان حیدر

رضی الدین رضیجنوری 6, 20180 Views
Facebook Twitter WhatsApp Email
Share
Facebook Twitter WhatsApp Email

تم یہاں کہاں پھنس گئے؟ مجھ سے یہ سوال ڈاکٹری ماسک کے پیچھے چہرہ چھپائے اس شخص نے پوچھا جس کی آنکھیں میں اپنی آنکھوں کے پانچ یا چھ دن مسلسل ایک سیاہ تھیلے کے نیچے ایک اسی قدر سیاہ پٹی سے ڈھکے رہنے کے بعد پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
اس سوال سے پہلے وہ میرے بازوؤں اور ماتھے پر ای سی جی جیسی ٹونٹیاں چپکا چکا تھا اور میرے پیٹ اور سینے کو دو سٹریپس میں جکڑ چکا تھا۔ میرے پاس جھوٹ پکڑنے والے اس ٹیسٹ سے پہلے پوچھے جانے والے اس سوال کے کئی جوابات تھے لیکن میں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا کیونکہ کوئی آدھ گھنٹا پہلے میں ہتھکڑیوں میں بندھے ہاتھوں اور منہ پر چڑھے کپڑے کے ساتھ گھنٹے بھر کا ایک ایسا انٹرویو دے کر آیا تھا جس کے سوالوں کا جواب غلط یا صحیح ہونے سے قطع نظر جواب ملتے ہی اور کبھی کبھی اس سے بھی پہلے مجھ پر تھپڑوں، مکوں، ڈنڈوں، پائپوں کی ایک بارش سی ہوتی تھی، جس کے دوران وقفے وقفے سے مجھے کرنٹ لگا کر شاید بجلی چمکنے کی کسر پوری کی جاتی تھی۔گرجنے والوں کی تعداد میرا اندازہ ہے کہ پانچ سے چھ رہی ہو گی۔ اس انٹرویو کا آخری سوال یہ تھا کہ تمہاری لاش کہاں پھینکیں چنیوٹ یا فیصل آباد۔ مجھے یاد ہے میں نے جواب میں چنیوٹ کہا تھا۔ سوچا تھا چھوٹا سا شہر ہے مجھے اور میرے خاندان کو لوگ جانتے ہیں سو وہاں لاپتہ لاش کے طور پر دفنائے جانے کے امکانات کم ہوں گے۔میں مرنے سے پہلے اپنی ماں کی اذیت کو اتنا کم تو کر ہی سکتا تھا کہ تشدد زدہ ہی سہی میرا چہرہ تو وہ دیکھ لیتی اور زاہد بلوچ کی ماں کی طرح اسے یہ نہ سوچنا پڑتا کہ پتہ نہیں میں زندہ بھی ہوں یا نہیں اور ہوں تو کس حال میں۔ وہی زاہد بلوچ کی ماں جس کا ذکر میں نے اپنے ایک بلاگ میں کیا تھا۔ وہی بلاگ جس پر سوال کرتے ہوئے مجھ پر تشدد کرنے والے پوچھ رہے تھے کہ تمہیں بلوچوں کا درد بہت محسوس ہوتا ہے ہمارا درد محسوس نہیں ہوتا اور میں سوال کا جواب سوچنے کے بجائے یہ سوچ رہا تھا کہ ہاتھوں میں ہتھکڑی اور دماغ میں پروفیسر، تھیٹر آرٹسٹ، شاعر وغیرہ جیسی لغو چیز ہونے کا زعم ہو تو منہ پر تھپڑ کھا کر درد زیادہ محسوس ہوتا ہے یا ذلت۔میں کہاں پھنس گیا ہوں، اس کا احساس کسی حد تک ان 21 دنوں کے اختتام پر ہوا جب باہر نکل کر ویب اور برقی میڈیا کے محاذ پر دفاع وطن کے فرائض انجام دینے والے پیجز اور چینلز پر اپنے خلاف چلنے والی توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات کی مہم دیکھی لیکن اس الزام سے بچ نکلنے کا راستہ بھی میں ایک بلاگ میں لکھ چکا تھا جو ’ایک توہین آمیز بلاگ‘ کے نام سے تنقید نامی رسالے میں چھپا تھا جس کی ادارت کرنے کا الزام بھی الزامات کی اس لمبی فہرست میں سے ایک تھا جو مجھ پر عائد کیے گئے۔اسی بلاگ کو پڑھ کر شاید مجھ سے تفتیش کرنے والوں نے چلتے چلتے آخری پٹی بندھی ملاقات میں وارننگ یہ دی تھی کہ دیکھو باہر جا کر مولوی نہ بن جانا لیکن مذہب کا کاروبار کرنے میں جو ذلت ہم جیسوں کو محسوس ہوتی ہے وہ منہ پر تھپڑ کھانے سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔تھپڑ کھانے سے یاد آیا کہ ذلت کا تو ایک تسلسل تھا لیکن تشدد کے علاوہ جو چیز سیشنز میں ہوتی تھی وہ تفتیش تھی۔ مسئلہ تفتیش کا یہ ہے کہ تفتیش اس وقت تشدد سے بھی زیادہ اذیت ناک ہوا کرتی ہے جب آپ کے پاس ماننے کے لیے کچھ نہ ہو۔ سو تفتیش کے سیشنز نظموں کی تشریح کرتے یہ سمجھانے میں گزرا کرتے تھے کہ جو میں نے کہا وہ آپ نے سمجھا نہیں اور جو آپ سمجھے وہ میں نے کہا نہیں۔خدا بھلا کرے ہمارے کالے خان کا کہ کم از کم ایک تفتیش کار ایسا بھی متعین کیا گیا تھا جس کا فرض یا پھر شوق لیکچر دینا تھا۔ ممکن ہے ان صاحب نے سمجھا ہو کہ پروفیسر صاحب کی تربیت میں جو کمی رہ گئی تھی وہ تو پٹائی کے ذریعے پوری ہو رہی ہے تعلیم میں جو کسر ہے وہ اسے اپنے لیکچرز کے ذریعے پورا کر ڈالیں۔سو سیاست دانوں کی بدکاریوں سے جمہوریت کے نقائص اور شاعروں کی بے راہ روی سے لبرل ازم کے نقصانات اور 18ویں ترمیم سے ڈان لیکس تک کم سے کم میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔ اذیت کے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے میں اب بھی کسی وقت مسکرا دیتا ہوں تو یہی سوچ کر کہ سلمان حیدر تو کہاں پھنس گیا تھا۔
٭ آج سے ٹھیک ایک برس قبل پاکستان میں حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم چند سماجی کارکن اور بلاگرز لاپتہ ہوئے تھے۔ ان افراد کی گمشدگی کا الزام ملک کے خفیہ اداروں پر لگایا گیا جس سے وہ انکار کرتے رہے۔ ان افراد کو تقریباً تین ہفتے تک قید رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ ڈاکٹر سلمان حیدر بھی ان افراد میں شامل تھے۔ اس واقعے کا ایک برس مکمل ہونے پر انھوں نے بی بی سی اردو کے لیے یہ تحریر لکھی ہے۔

( بشکریہ : بی بی سی اردو )

فیس بک کمینٹ

Share. Facebook Twitter WhatsApp Email
Previous Articleایک عہد کا خاتمہ : نام ور شاعر رسا چغتائی انتقال کر گئے
Next Article اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے ۔۔ وجاہت مسعود
رضی الدین رضی
  • Website

Related Posts

سید زاہد حسین گردیزی کی یادیں : میر غوث بخش بزنجو ، قسور گردیزی اور نیپ

مئی 28, 2023

خالد مسعود خان کا کالم:ویسپا سکوٹر‘ تاریخی عمارات اور تجاوزات

مئی 28, 2023

رؤف کلاسراکا کالم:ظفرالطاف سے پی ٹی آئی تک

مئی 28, 2023

Leave A Reply

حالیہ پوسٹس
  • سید زاہد حسین گردیزی کی یادیں : میر غوث بخش بزنجو ، قسور گردیزی اور نیپ مئی 28, 2023
  • آج سورج خانہ کعبہ کے عین اوپر ہوگا مئی 28, 2023
  • اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں 6 شدت کا زلزلہ مئی 28, 2023
  • ایجنسیوں نے دو طرح کی منصوبہ بندی کی گفتگو پکڑلی، اس پر آج رات عمل ہونا تھا: وزیر داخلہ مئی 28, 2023
  • پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے پچیس برس مکمل۔۔قوم کا اتحاد ہی پاکستان کی اصل جوہری قوت ہے: وزیراعظم شہباز شریف مئی 28, 2023
زمرے
  • جہان نسواں / فنون لطیفہ
  • اختصارئے
  • ادب
  • کالم
  • کتب نما
  • کھیل
  • علاقائی رنگ
  • اہم خبریں
  • مزاح
  • صنعت / تجارت / زراعت

kutab books english urdu girdopesh.com



kutab books english urdu girdopesh.com
کم قیمت میں انگریزی اور اردو کتب خریدنے کے لیے کلک کریں
Girdopesh
Facebook Twitter YouTube
© 2023 جملہ حقوق بحق گردوپیش محفوظ ہیں

Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.