شاہ حسین درد کی دہلیز پر کھڑی زمانے کی بدلتی قدروں اور ظلم و ستم کی کہانیاں رقم ہوتے دیکھتی سولہویں صدی کا صوفی شاعر ہے۔ سولہویں صدی نے انسان کے کئی روپ دیکھے اور انسان نے وقت کے ایسے جبر جھیلے جنہیں رقم کرتے ہوئے دل کی آہیں اور قلم کے آنسو بھی شاملِ تحریر ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ذرائع ابلاغ کی کوئی صورت نہ تھی۔ ریڈیو تک ایجاد نہیں ہوا تھا۔ پیغام رسانی کا سب سے بڑا ذریعہ گھڑ سوار ایلچی تھے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ کبوتر بھی یہ فریضہ سرانجام دینے میں پیش پیش تھے مگر ان کی خدمات وسیع پیمانے پر میسر نہ تھیں۔ اگرچہ نقل و حرکت کے وسائل بہت محدود تھے مگر شاہ سے اختلاف کرنے والوں کی آواز ہزاروں میل دور بھی سنائی دے جاتی تھی اور اس پر ردعمل بھی فوری آ جاتا تھا۔ اختلاف برداشت کرنے کا چلن نہ تب تھا نہ اب ہے بس سزا کے زاویے بدل گئے ہیں۔ اختلاف سے مراد مخالفت نہیں تھا بلکہ اپنی رائے کا اظہار بھی ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ دُلّا بھٹی نے بھی اپنی فطری آزادی کے حق کو استعمال کیا جسے وقت کے شہنشاہ نے بغاوت شمار کرتے ہوئے زندگی کی لکیر پر کراس لگایا اور ایک بڑے مجمع کے سامنے اسے پھانسی پر لٹکایا۔ سزا کا یہ طریقہ دوسروں کو ڈرانے اور باز رکھنے کا اشارہ بھی ہوتا تھا۔ شاہ حسین بھی اسی مجمع میں کھڑے تھے جہاں جبرکی حقیقی داستان فلمائی جا رہی تھی لیکن یہ ڈرامہ نہیں تھا۔ پلک جھپکتے ایک انسان نے اذیت سے لوگوں کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ ان آنکھوں میں بھی ایک داستان تھی جو دل والوں نے پڑھی، ذہن میں محفوظ کی اور خود سے ایک عہد کیا کہ ایسے نظام کے خلاف آواز بلند کریں گے جو انسانوں سے جینے کا حق چھین لیتا ہے، ان کے وقار کو بیچ چوراہے پر مجروح کر دیتا ہے، ان کی انا کو پائوں تلے روند کر ان کے ماتھے پر غلامی کی مہریں لگاتا ہے۔ شاہ حسین نے آزادی کے متوالے دُلّا بھٹی کو اپنی آنکھوں کے سامنے پھانسی چڑھتے دیکھ کر شدید ردعمل کا اظہار کیا تو ان کے خلاف بھی آئینی ہاتھ سرگرمِ عمل ہوئے مگر خدا کے کرم سے وہ محفوظ رہے جب کہ ان کا فیصلہ لکھنے والے اپنے انجام کو پہنچے۔ اردگرد پھیلی بے انصافی نے شاہ حسین کی سوچ کو روایت سے بغاوت کی طرف چلنے پر اُکسایا۔ انہوں نے صوفیانہ طرزِ بود و باش ترک کی اور ’میں نہ مانوں‘ کا ورد کرتے ہوئے زمانے سے الگ راستے پر سفر کا آغاز کیا۔ انہوں نے اس پرآشوب دور کا نوحہ لکھتے ہوئے درد کو تجسیم کیا، ظلم کی تصویر کشی کی اور تقریر و تحریر کے علاوہ عملی طور پر بھی اختلاف درج کیا۔ مادھو لعل حسین سے دوستی بھی زمانے کی اسی روش کے خلاف ردعمل تھا۔
ان کا دل غمگین تھا، روح شکایت کنندہ تھی۔ ان سب کا اظہار بہت ضروری تھا۔ وہ قلم کو ہتھیار بنا کر زمانے کے سامنے ڈٹ گئے۔ وقت کے دریچوں سے جھانکتے کرداروں کے چہرے پڑھ کر بے انصافی، جبر، ظلم اور تفریق کی کہانی لکھنی شروع کر دی لیکن کہانی لکھتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی آڑے آ گئی، زندگی کا مفہوم سامنے آ کھڑا ہوا، طاقتوروں کی چند روزہ راج کے لئے بھاگ دوڑ ایک سوال بن گئی، بغاوت نے نیا روپ دھارا تو انہوں نے ’’بندے آپ نوں پچھان‘‘ میں چند مصرعوں میں حیات و کائنات کی حقیقت عیاں کر دی۔
’’خود کو پہچان لیا تو سائیں سے ملنا آسان ہو جائے گا۔ سونے کے قلعے، چاندی کے چھجے سب بھسم ہو جائیں گے۔ تجھے خبر کیوں نہیں ملک الموت ترے خلاف سازش میں مصروف ہے۔ تیری ملکیت تو صرف دو گز کی ہے کیوں بڑے بڑے منصوبے بنا رہا ہے۔ مال، خزانہ سب آنا جانا ہے اس لئے عاجز اور فقیر شاہ حسین کہتا ہے کہ انا اور گمان چھوڑ دے۔‘‘
اس طرح نفی ٔ ذات شاہ حسین کے سفر کا پہلا مرحلہ ہے جہاں وہ اپنے وجود سے ’’میں‘‘ کو بے دخل کر کے اک ایسا روپ اختیار کرتے ہیں جو ان کے محبوب کو پسند ہے۔ شاہ حسین نے جابر قوتوں کو للکارنے کی بجائے دلیل سے بات کرنے کو ترجیح دی اور خون خرابے کی بجائے لفظوں اور علامتوں کا سہارا لیا۔ جب دنیا ہی فانی ہے تو پھر میری تیری کیسی؟ جگ میں مختصر قیام کو وجہ بنا کر لایعنی رنجشوں میں الجھنے سے گریز کو زندگی کا حسن قرار دیا۔ اسی طرح آپسی محبتوں کے لئے ان کی کافی کا ایک مصرعہ جو عنوان بھی ہے:
دنیا جیون چار دیہاڑے کون کسے نال رُسے
شاہ حسین کو تمام عمر گہری ندی کا سفر درپیش رہا۔ وہ اس پار جانے کی تدبیریں کرتے رہے جہاں رانجھن کا قیام تھا، جہاں آسودگی تھی، محبت تھی، تن من کا ہیر پھیر تھا نہ روح اور بدن کا جھگڑا، نام و نسب اور ذات پات کے معاملات بھی درپیش نہ تھے، ٹھیکے داروں کی تعمیر کردہ کوئی حد بندی بھی نہ تھی۔ ہر طرف رانجھن کا جلوہ، کھیڑوں کی کوئی سازش نہ دخل اندازی، صرف وصلِ کامل میسر تھا۔ وہ خیال میں ’’سجن دے ہتھ بانہہ اساڈی، کیونکر آکھاں چھڈ وے اڑیا‘‘ (میرا بازو توں میرے ساجن کے ہاتھ میں ہے، بھلا میں اس سے کیسے کہوں کہ میرا بازو چھوڑ دے) کی کیفیت میں ہوتے ہیں لیکن جب آنکھ کھلتی ہے تو درمیان میں بادل اور آندھی میں گھری ندی رکاوٹ بن کر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ یوں تو شاہ حسین کی کئی کافیوں میں محبوب کی جھوک کے درمیان حائل ندی کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک علامتی بیان ہے۔ شاہ حسین کو ازلی جدائی کا سامنا ہے۔ وہی جدائی جس کا ذکر مولانا روم کی بانسری اپنے نالے میں کرتی ہے۔ یہ کسی ایک فرد کا دکھ نہیں بلکہ ہر روح کا احساس ہے کیوں کہ روح ہمیشہ اپنے حقیقی محبوب سے ملنے کے لئے برقرار رہتی ہے۔ ’’مائے نی میں کیہنوں آکھاں‘‘ میں بھی یہی درد سمویا ہوا ہے۔ تاہم ’’میں وی جھوک رانجھن دی جانا، نال میرے کوئی چلے‘‘ ایک ایسی کافی ہے جو ایک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف سفر پر مشتمل ہے۔ دراصل یہ وجود کی کثافت سے نجات حاصل کر کے لطافت کے حصول کی خواہش، جستجو اور کوشش کی طرف سفر ہے۔ شاہ حسین اس کافی میں کہتے ہیں کہ میں نے جھوک رانجھن میں پہنچنے کے لئے بڑے لوگوں کی منتیں کیں، پاؤں پکڑے مگر کوئی بھی میرے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوا اور آخر کار مجھے اکیلے جانا پڑا۔ اب یہ عالم ہے کہ ندی گہری ہے، کشتی ٹوٹی پھوٹی ہے اور گھاٹ پر شیروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ان حالات میں میرا وہاں پہنچتا تو بہت دشوار محسوس ہو رہا ہے۔ اگر کوئی میرے محبوب کی خبر لا دے تو میں اسے ہاتھ کے چھلّے دینے کو تیار ہوں۔ دل کا یہ حال ہے کہ رات درد سے کراہتے ہوئے گزرتی ہے اور دن بے چینی میں۔ محبت کے تمام زخم رِسنے لگے ہیں۔ سنا ہے کہ رانجھن بہت بڑا طبیب ہے کوئی اسے میرے حال کے بارے میں بتائے کہ میرے تن کو کتنے عجیب روگ لگے ہیں۔ شاید وہ میرا علاج کرنے پر راضی ہو جائے۔ یہ دنیا ایک تجربہ گاہ ہے، ایک سرائے ہے جہاں انسان تھوڑے دنوں کے لئے ٹھہرتا ہے، مختلف امتحانوں سے گزرتا ہے، کبھی سوال بنتا ہے اور کبھی جواب، پھر ایک دن اُسے سب چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے ندی پار جانا پڑتا ہے اور یہ سفر بھی اکیلے ہی طے کرنا پڑتا ہے۔ طوفانی ندی میں سہولت سے گزرنے کے لئے اعمال کی نئی کشتی بنانی پڑتی ہے۔ پھر رانجھن یار ہر دکھ کا مداوا کر دیتا ہے۔
رانجھن یار طبیب سُنیندا، میں تن درد اولّے
کہے حسین فقیر نمانا، سائیں سنیہوڑے گھلّے
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ