شاعروں کے امام غالب نے کہا تھا
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال سے
غالب صریرِخامہ نوائے سروش ہے
ثابت ہوا کہ وہی شعر عظیم اور ہمیشہ رہنے والا ہوتا ہے جس کا باطن غیب اور ظاہر علم،مشاہدے و تجربے پر استوار ہوتا ہے۔ شاعری کو اسی لئے پیغمبری سے تعبیر کیا گیا کہ شاعر کا تخیل لا محدود اور آنکھوں سے اوجھل جہانوں کی خبر گیری کرتا ہے۔ اسے خاص صلاحیت ودیعت ہوتی ہے۔اسلئے اُس کے سوچنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کی شدت اور کیفیات دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں۔ تخیل کی جوُلانی اور روحانی روشنی میسر نہ ہو تو سامنے موجود چیزیں، حادثات اور واقعات بھی توجہ میں جگہ نہیں پاتے۔صباحت عاصم واسطی کی تخلیقی اُپج کی جھلک اُن کے شعری مجموعے ، توسط،کی تقریب رونمائی میں دکھائی دی۔ مقررین کی طرف سے حوالے کے طور پر پڑھے گئے شعر دل میں گھر کر گئے تو اس کتاب سے راہ و رسم بڑھانے کا اشتیاق جاگا، کتاب منگوائی اور کئی دن اسے ساتھ لئے لئے پھرتی رہی کہ اچھے شعر کا لطف نہ لینا اس کی تعظیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔درِ دل پر دستک دینے اور روح کے نہاں خانوں میں اُتر جانے والے اشعار ڈائری میں درج ہوتے رہے۔ رومانی اور وجدانی کیفیات سے پھوٹنے والی سرشاری اور جمالیاتی کیف نے عجب سحر میں مبتلا کئے رکھا۔ خبر ہوئی جگمگ کرتا اور دل ودماغ پر طاری ہوتا منفرد رنگ ان کے باطن میں جلنے والے الہامی دئیے کی سحرزدہ لَو کا سیک ہے۔یہ کتاب پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسے خاموش چاندنی رات میں مدھم سُر بکھرے ہیں اور شاعر پورے خلوص کے ساتھ اپنے وجود سے ہم کلام ہے۔ اس شاعری کے توسط مجھے بھی اپنے آپ سے ہم کلام ہونے کا موقع عطاء ہوا کہ اس میں میری پسند کے رنگ اور ذائقے بھرے تھے۔ میں نے جب اشعار کے پس منظر میں جھانکا تو ہر لفظ مجھے کوڈ ورڈ اور علامت کی طرح لگا۔ جس کے اندر ایک بڑی حقیقت پوشیدہ تھی۔
عاصم صباحت واسطی تخیل اور گمان سے اگلی منزل عرفان پر رو بہ سفر ہے اور مسلسل ارتقاء کے مراحل طے کرنے کی مشق کر رہا ہے۔وہ ایسا باکمال ہنرمند ہے کہ تخلیقی اوقات میں جب جسم اور زمین کی کشش کو منجمد کرکے الگ رکھ دیتا ہے تو پھر روحِ کائنات سے یوں اِک مِک ہو جاتا ہے کہ آئینے کے سامنے اپنی ذات سے جڑا علیحدہ تشخص کا حامل عکس بھی اوجھل ہوجاتا ہے اور وہاں اس واحد کا جلوہ اور جمال نئے نئے رنگوں میں ابھرتا دکھائی دیتا ہے جو ہر منظر میں ظاہر ہے۔ توسط بھی وحدت کا وہی سفر ہے جسے نو فلاطینوس نے ایک ہستی کے تصور سے آغاز کیا،افلاطون، ابنِ عربی اوررومی کے بنائے ٹریک سے ہوتا ہوا ہماری دھرتی کی دانش بھری زبانوں میں زیادہ شدت کے ساتھ اس طرح اُبھرا کہ وجود ھو کی تال پر رقصاں ہو گئے۔
قدیمی روح کے عشق کی وہی پرانی روداد ہے مگر لہجہ مختلف، اثرات جداگانہ اور مضامین منفر د ۔ پرانے منظروں سے نئے منظر اور نقش ابھرتے ہوئے۔ کیہ جاناں میں کون؟ والے تمام سوالات زیادہ توانائی کے ساتھ شعوری سطح پر موجود ہیں۔ظاہریت اور وجدانیت کے درمیان دلائل کے ساتھ سرد جنگ جاری مگر کڑواہٹ اور شور نہیں۔ بلھے شاہ پر جب بُکل کے چور کا معمہ کھلا تو اس کے لئے کائنات میں تفریق، تعصب اور فریب باقی نہ رہا۔ عاصم واسطی کا بھی جب غیب سے رابطہ استوار ہوتا ہے تو ارد گرد کی دیواریںپاش پاش ہونے لگتی ہیں اور وسیع جہان میں اُسے دور تک دکھائی دینے لگتا ہے۔ خود شناسی عطا نہیں۔ خود کو تلاشنے کے لئے ریاضت کا لمبا کشٹ کرنا پڑتا ہے،دل اور دماغ کو دشتِ جنوں کے نامہربان راستوں پر صدیوں کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے تب عشق کی راحت طلب بنتی ہے۔خیال و خواب کے ہر پڑاؤ پر قیام کر کے، من پسند صورتوں کو توجہ میں رکھنااور چشمِ شوق سے نکلے قطرہء نہال کو دریا بنانے کی جستجو اصل مقصد ہے مگر یہ خیال و خواب کے بس کی بات نہیں۔یہ ظاہر اور باطن یعنی شریعت اور طریقت سے اگلی منزل عرفانِ حقیقت کے معاملے ہیں۔جہاں عبادات کے ساتھ محبت کو مشروط کر دیا جاتا ہے۔صوفیا نے جس محبت پر زور دیا ہے عاصم واسطی اسی پر ایمان رکھتا ہے اور اسی کے وسیلے خدا تک پہنچنے کا متمنی ہے۔ توسط اسی سلسلے کی کڑی ہے۔جہاں حرف گویائی میں کائنات کی خامشی بھی شامل ہوتی ہے۔عشق نے شاعر کے جذبوں،لفظوں،دل،آنکھ اور وجود کو جو سرشاری بخشی ہے وہ اس میں پوری طرح شرابور اور نہال ہے۔نہال ہونے کی ادا پھولوں،پانی کے قطروں،گزرتے لمحات اور فطرت کے دیگر مظاہر میں بھی رچ گئی ہے اور اسی کیفیت کے ساتھ وہ شہرِ اعتبار میں داخل ہو چکا ہے۔آخر میں کچھ اشعار سنئے۔
جب تک خیال و خواب سے دل بھر نہیں گیا
میں شہرِ اعتبار کے اندر نہیں گیا
عادت خود اپنا بوجھ اٹھانے کی ہے مجھے
اس واسطے خلا کے سفر پر نہیں گیا
دینے لگا ہوں جنت و دوزخ کے حکم بھی
پروردگار روک، خُدا ہو رہا ہوں میں
ہمارا طرز تکلف بھی والہانہ ہے
ہم اہلِ دل ہیں محبت زیادہ کرتے ہیں
لگی ہے آنکھ ترے خواب کے تعاقب میں
تھکا نہیں ہوں ترا انتظار کرتے ہوئے
وہ یوں ہوا کہ مرے ہاتھ لگ گیا سورج
سیاہ شب میں ستارہ تلاش کرتے ہوئے
زمیں پر ایک مکمل جزو لایا جا چکا تھا
مجھے مجھ سے بہت پہلے بنایا جا چکا تھا
وقت نکال کر توسط کی شاعری پڑھئے اور سر دھنیے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ