ہمیں ہمارے وجدان نے یہی بتایا ہے کہ پاکستان کے اچھے دن آنے والے ہیں۔ اہل نظر کو اس کے آثار واضح نظر آنے لگے ہیں۔ ایک مثبت پیش رفت کا آغاز ہو چکا ہے۔ نظر نہ آنے والی تاریکی اندھیرا کاذب ہے جس کا چھٹ جانا لازم اور نئے سورج کے طلوع کا ضامن ہوتا ہے۔ مایوسی، بے بسی اور جبر کی دھند کو تار تار کرتی روشنیاں سفر شروع کر چکی ہیں۔ اگرچہ عمومی افق کے درمیان ابھی تک بے یقینی کی گرد نے ماحول کو مہماں بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے دور تک نہ دیکھنے کی کاوش نہ کرنے والی آنکھیں جب کبھی اس گرد مٹی سے ہی آسمان کی قسمت کا فیصلہ سنانے لگتی ہیں تو عام فرد پر بہت بھاری گزرتا ہے اس لئے کہ اس کی محبت کا مرکز وطن اور اس سے جڑی ترقی ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ممالک سے معاشی، سیاسی اور دفاعی مقابلہ بھی ہے۔ وہ خاص کر دفاعی اور معاشی معاملات میں زیر ہونا پسند نہیں کرتا کیوں کہ یہ پسپائی اس کے قومی مورال کو مجروح کرتی ہے۔
عالمی اور مقامی قوتوں کے درمیان رسہ کشی اور دعویٰ جواب دعویٰ کا سلسلہ ہنوز زور و شور سے جاری ہے اور اس میں بھی پاکستان ابھی تک محفوظ پوزیشن پر ہے۔ اگرچہ اداروں کے درمیان بھرپور تناؤاور عدم اعتماد کی فضا موجود ہے مگر ایک واضح بہتری کے اشارے بھی نمایاں ہیں۔ اس میں دو رائے ہر گز نہیں کہ گزشتہ نصف صدی سے اب تک اداروں کے درمیان باہمی ہم آہنگی سے معاملات کو سلجھانے کی بجائے رسہ کشی اور ایک دوسرے پر غالب ہونے کا رجحان حاوی رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی شدت میں ہر دو طرف سے اضافہ ہی ہوا ہے تاہم معاملات کو درست سمت لے جانے کی بھرپور عملی کاوش بھی جا رہی ہے۔ فاٹا کا پیچ در پیچ اُلجھا ہوا مسئلہ کب سے نظر انداز ہو رہا تھا۔ کئی بار بل پیش ہونے کی خبریں چھپیں، لوگوں کے احتجاج جاری رہے، کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے بار بار اس معاملے کی سنگینی کی طرف توجہ دلائی، ملک میں ایک ایسے علاقے کا ہونا جہاں قانون کا اطلاق نہ ہو آج کل کے دور میں وارا نہیں کھاتا۔ اس علاقے کو باقاعدہ ریاست کا حصہ نہ بنانے کے نقصانات پاکستان بری طرح سہار چکا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کو گزشتہ حکومت نے صوبے کا درجہ تو دےدیا مگر اسے اختیارات، قانون ساز اسمبلی اور نیشنل اسمبلی میں ان کی نمائندگی کا مسئلہ باقی صوبوں کی طرح نہ کیا جا سکا۔ فاٹا اور گلگت بلتستان کے حوالے سے موجود بلز اور اصلاحات میں فوج نے خصوصی کردار ادا کیا ہے
اور اگر یہ کہا جائے کہ تمام اداروں نے سیاسی حکومت کے ساتھ مل کر اسے انجام دیا ہے تو بے جا نہ ہو گا لیکن فیصلہ سازی میں ان معاملات کو اصل طاقت فوج کی طرف سے فراہم کی گئی ہے۔ نصف صدی سے زیادہ لٹکے معاملات کو اس طرح خوش اسلوبی سے طے کرنا عام بات نہیں۔ یہ بڑی خبر اور بہت بڑی خوشخبری ہے۔ دوسرا ملک میں کئی مہینوں سے ایک شور اور افواہ معاملات کو گمبھیر بلکہ انتخابات کو ناممکن بنا رہی تھی کہ وزرائے اعلیٰ خصوصاً پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ اور مرکز میں وزیراعظم کا انتخاب حکومت اور اپوزیشن کی پارٹیوں کے درمیان باہمی دلچسپی سے فیصلہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ پھر یہ الیکشن کمیشن میں جائے گا اور وہاں یہ ہو گا وہ ہو گا مگر یہاں بھی ہم حیران رہ گئے۔ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے اور غیر متنازعہ نام سامنے آئے ہیں جن پر ہر فرد مطمئن نظر آتا ہے۔ اسی سے انتخابات کی شفافیت کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب کی سیاست ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اس لئے سب کی نظریں خصوصاً پنجاب کے انتخابات پر ہوتی ہیں۔ ناصر محمود کھوسہ کو پنجاب سرکار کا انتظام سونپنا اور تمام حلقوں کا ان پر اعتماد یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم عظیم قوم بننے کے اہل ہیں۔ ہمارے ضمیر زندہ ہیں۔ ہمارے وجود میں منفی طاقت کی بجائے مثبت، خیر اور اچھائی کو خوش آمدید کہنے اور انہیں فیصلہ سازی کا اختیار دینے کا حوصلہ باقی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے وزیر اعلیٰ سے بھی قانونی نکات پر اختلاف کر لیتا تھا وہ اس عبوری دور میں کسی کی کیا سنے گا۔ عمر بھر کا تجربہ ان کی دائیں جیب میں ہے اور بائیں میں وہ دل جس کا عزم ان کی کمٹ منٹ سے بندھا ہوا ہے۔ اس وقت مرکز اور پنجاب میں ریٹائرڈ جسٹس ناصر الملک اور ناصر محمود کھوسہ کے نام سامنے آئے ہیں ان میں ان کا اصل نام ناصر نمایاں اور مشترک ہے۔ ناصر کا مطلب فاتح اور مددگار ہے۔ دونوں اک مشن پر زندگی کو استوار کئے ہوئے ہیں اور وہ ہے قانون کی سربلندی قائم کرنا اور نظام کو مستحکم کرنا ہے تا کہ انصاف کا راستہ بحال ہو سکے۔ دونوں پر اکثریت کو اعتماد ہے۔ اس لئے اس بار انتخابات میں عوام کا اعتماد بحال ہو گا، ٹرن آؤن میں اضافہ ہو گا، ہم زیادہ طاقت سے آگے بڑھیں گے اور نقشے بگاڑنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی استقامت ثابت کریں گے۔ سی پیک اور انتخابات کی تکمیل کے بعد پاکستان ترقی کے سفر پر نکلنے والا ہے اور اس کا ڈنکا کل عالم میں بجنے والا ہے۔ سو مایوسی اور اندھیر نگری میں دبے سہمے لوگ قدرت کے پیغام کو سمجھیں اور اردگرد بے شمار مصائب کے اندھیروں میں روشن ہونے والی مثبت تبدیلیوں کی شمعوں کی روشنی پر نظر رکھیں۔
کبھی کبھی ایک ذرا سا موقع انسان کی یادداشت پر زندگی بھر کے لئے تشکر، خوشی اور عقیدت کے احساسات رقم کر کے گزر جاتا ہے۔ دکھ کے وقت میں بھلائی کرنے والا، ایک نرم بول بولنے والا حتیٰ کہ مہربانی کی نگاہ کرنے والا بھی لاشعوری طور پر دعائے خیر میں شامل ہو جاتا ہے۔ شاید 2011ء کی بات ہے۔ زندگی نے اپنے صحن میں میرے لئے کچھ سبق اور ریاضتیں چُن دی تھیں۔ آگ، کانٹوں اور پتھروں سے بچ کر گزرنا شرط تھی اور خود کو آلودہ بھی نہیں ہونے دینا تھا۔ زندگی کے تہہ خانے میں جب انسان پریشان ہوتا ہے اور سچے دل سے اپنے خالق سے مشورہ کرتا ہے تے کوئی نہ کوئی روشن دان ضرور نظر آ جاتا ہے جسے کھول کر سانس بحال کی جا سکے۔ پریشانی کے دنوں میں قدرت نے اصول پسند انسان ناصر محمود کھوسہ جو پنجاب کے چیف سیکرٹری تھے سے ملنے اور اپنا مسئلہ بیان کرنے کا اشارہ دیا۔ ان کی اچھی شہرت نے وقت سے ملنے کا تقاضا کیا۔ ایک دن بعد ہی صبح کا وقت مل گیا۔ انہوں نے پوری توجہ سے میری بات سنی۔ ایک پسماندہ گاؤں سے تعلق کے باوجود میری امتیازی حیثیت کی تعلیمی کاوشوں، ادبی و علمی جستجو اور کچھ کرنے کی لگن سے بہت متاثر ہوئے۔ پھر میرے ساتھ اٹھ کر متعلقہ افسر کے پاس گئے اور کہا ڈاکٹر صاحبہ کو ان کے مطلوبہ پیپرز دے کر بھیجئے گا۔ کتنے دن حیران رہی۔ اب بھی ہوں اس لئے کہ ہم نے ایسے افسر کم کم دیکھے ہیں جو خدمت اور انسانی ہمدردی پر یقین رکھتے ہیں بلکہ افسران سے حکم کو مشروط کر دیا گیا ہے اس لئے ہر ضابطہ بھی ایک آرڈر یعنی حکم کہلاتا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن ناصر محمود کھوسہ کے لئے میں نے ہمیشہ دعائے خیر کی اور آج یہ خبر سن کر مجھے عجیب سی عافیت محسوس ہوئی ہے کہ نگران سیٹ اپ بہت محفوظ اور کمٹڈ لوگوں کے ہاتھ میں دے کر ہماری حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں نے اپنے با شعور ہونےکا اظہار کیا ہے۔ درست افراد کے چناؤسے بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ