اس کائنات میں بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں جو زندگی کو کسی خاص مقصد کے لئے وقف کر کے انسانیت کی فلاح میں کردار ادا کرتے ہیں۔ انہی کے دم سے زندگی کی مثبت قدریں قائم رہتی ہیں۔ 2004 ء کی بات ہے میری والدہ کو شدید برین ہیمبرج کا سامنا کرنا پڑا۔ گجرات کے ایک معتبراسپتال کے ایک نیک نام ڈاکٹر نے کچھ گھنٹوں کے معائنے کے بعد ہاتھ کھڑے کر دئیے اور مریضہ کو گھر لے جانے کا حکم صادر کر دیا ایک ایسا لمحہ جب والدین شدید اذیت میں ہوں اور اولاد کی بے بسی صرف محسوس کی جاسکتی ہے بیان نہیں۔ بہر حال ہم انھیں گھر لے جانے کی بجائے لاہور کے ایک بڑے پرائیویٹ اسپتال کے سوالی بن کر تین روز کھڑے رہے۔ ٹیسٹ اور پیسے جمع ہوتے رہے مگر درد میں افاقہ ہوا نہ آپریشن کا اہتمام ۔ والدہ بات نہیں کر سکتی تھیں صرف اشارے سے کنپٹی پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرتی تھیں کہ یہاں سے سَر پھٹ گیا ہے۔ اِسی بے بسی کے عالم میں نیلما ناہید درانی نے مشورہ دیا کہ انھیں جنرل اسپتال کے ڈاکٹر انور چوہدری کو دکھائیں۔ جمعہ کا دن تھا بغیر کسی سفارش، رقعہ یا ریفرنس کے میں ان کے پاس گئی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور صبح سے چار آپریشن کر چکے تھے۔ انھوں نے سلام پھیرا تو میرے آنسوؤں سے لبریز لفظ سنے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر انھیں فوراً جنرل اسپتال لانے کو کہا ساتھ ہی گیٹ پر فون کر دیا کہ رسمی کارروائی میں وقت ضائع کئے بغیر مریض کو فوراً نیورو وارڈ بھیج دیا جائے۔ اس سارے عمل میں ایک گھنٹہ لگا اور ان کا آپریشن شروع ہوگیا جو تقریباً چار گھنٹے جاری رہا۔ وہ باہر نکلے تو چہرہ پر سکون تھا۔ اگلے دن ماں کو ہوش بھی آگیا اور یاد داشت بھی متاثر نہ ہوئی۔ پھر 2011ء میں میرے بیس سالہ بھتیجے کا ایکسیڈنٹ میں ریڑھ کا مہرہ شدید متاثر ہوگیا۔ علاج کے باوجود دن بدن اس کا جسم ساکن ہونے لگا۔ آپریشن میں ٹھیک ہونے کے چانسز کم اور ہمیشہ کے لئے مفلوج ہونے کے زیادہ تھے۔ مگر کوئی چارہ نہ تھا۔ دوسرا مہرہ بھی متاثر ہونے لگا۔ ایک بار پھر ڈاکٹر انور چوہدری نے سرکاری اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں آدھا دِن گزا را۔ مریض کے ہوش آنے پر اُسے پاؤں کی انگلی ہلانے کو کہا اور پھر مبارکباد۔ اِن دو واقعات کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب ہمارے لئے ایک ہمدرد دوست اور نیک فرشتے کی صورت اختیار کر گئے پھر ان کے رفاہی کاموں کا علم ہوا تو ہر لمحے دعاؤں میں شامل ہوگئے۔ ضلع گوجرانوالہ کے چھوٹے سے گاؤں مجّو چک کا ایک سیلف میڈ اِنسان جس نے اپنی محنت اور لگن سے تعلیم مکمل کی تو کالج سے ڈاکٹر نہیں ایک مسیحا نکلا۔ مسیحائی کا لمبا سلسلہ ہے آج برسوں بعد بھی اس گاؤں سے ناطہ نہیں توڑا بلکہ آر اینڈ آر سوسائٹی کے تحت وہاں اتوار کو فری میڈیکل کیمپ لگاتے ہیں۔ ایک دفعہ میں بھی یہ سارا عمل دیکھنے مجّو چک گئی۔ پورے صوبے سے ہزاروں لوگ ایک بڑے احاطے میں جمع تھے۔ تمام دن ڈاکٹر صاحب سر جھکائے نسخے لکھنے میں مصروف رہے۔ مفت دواؤں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک اور پھر شدید بیماروں کو پرائیویٹ کلینک کی بجائے سرکاری اسپتال کا وقت دے کر رخصت ہوئے۔ سیلاب، زلزلے اور کسی بھی آفت میں ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کروڑوں روپوں کی امداد اور دوائیں لئے دشوار گزار علاقوں میں پہنچے۔ واحد ڈاکٹر ہیں جو اپنی منشا سے صبح آٹھ بجے سے لے کر رات 11 بجے تک سرکاری اسپتال میں آپریشن کرتے ہیں۔ جنرل اسپتال میں ایک سال کے دوران انھوں نے ستر لاکھ روپے چیریٹی سے اکٹھے کر کے نیورو وارڈ کی شکل ہی تبدیل کر دی۔ 4 وینٹی لیٹر خرید کر ICU میں چلائے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ پرائیویٹ کمروں سے 41 لاکھ کا ریونیو ہسپتال میں جمع کرایا جبکہ سابقہ ریکارڈ 9 لاکھ ہے۔ یو کے کریش اسٹڈی جس کا آغاز یو کے میں ہوا کے مطابق سر پر چوٹ لگنے والے مریضوں کو فوری طور پر ایک انجکشن لگایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ برین ہیمبرج سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر انور چوہدری اور جنرل اسپتال کے دیگر پروفیسروں کی وجہ سے پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک ہزار سے زائد مریضوں کو انجکشن لگا چکے ہیں لہٰذا انفرادی حوالے سے بھی پہلے نمبر پر ہیں۔ بہت سے ڈاکٹروں کا مؤقف ہے کہ PINS کو PIC کی طرح علیحدہ انسٹیٹیوٹ بنا دیا جائے تو یہ زیادہ فعالیت سے کام کر سکتا ہے۔ یہ ایک مشترکہ مطالبہ تھا جس کے لئے ایک جامع Presentation دی گئی لیکن اس پاداش میں ڈاکٹر صاحب گزشتہ کئی مہینوں سے او۔ ایس۔ ڈی ہیں۔ اس دوران مریضوں اور پاکستان سمیت نیپال، افغانستان اور دیگر ملکوں کے نوجوان ڈاکٹر ٹریننگ کے لئے آتے ہیں کا جو نقصان ہوا وہ نا قابل تلافی ہے۔ اُمید ہے وہ اس مسئلے کو سلجھائیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ ایک کام کرنے والے ڈاکٹر کو کام کرنے دیں۔ ان کو گیٹ کے پاس میز لگا کر مریضوں کو دیکھنے کو کہہ دیں مگر کام سے نہ روکیں۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ