کورونا کی وبا اور فضائی حادثے کی وجہ سے اس بار عید بھی سوگوا ر ماحول میں گزری اگرچہ کورونا کی عید کے موقع پر خوب عید رہی بازاروں میں لوگوں کی چہل پہل کی وجہ سے کورونا کے بھرپور وار بھی جار ی رہے۔ عید کے چاند کا معاملہ اس بار بھی مشکوک ٹھہرا اور لوگ فواد چوہدری کے حکومتی چاند اور مفتی منیب الرحمن کے چاند کا موازنہ ہی کرتے رہے۔ بہرحال ”ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں“ کے مصداق اس دفعہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے ساتھ یکجہتی کے طور پر عید ایک ہی روز ہوئی۔ عید نماز کی صورت حال بھی کہیں ہے اور کہیں نہیں ہے والی ہی نظر آئی۔ جن لوگوں نے مساجد میں عید کی نماز ادا کی بھی وہاں بھی فاصلے درمیان رہے اور ”عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملیے“ کی حسرت ناکام ہی نظر آئی۔
کہنے کو تو یہ میٹھی عید ہوتی ہے مگر اس بار اس کے رنگ پھیکے ہی نظر آئے۔ شوخیاں، چنچل ادائیں ، مہندی کے رنگ اور چوڑیوں کی کھنک اور ملبوسات کے دھنک رنگ بھی اس عید پر ماند ہی رہے۔ عید سے قبل پی آئی اے کے طیارے حادثے نے دلوں کو اور رنجیدہ کیا حادثے کے بعد حسب روایت تحقیقات کے ڈول ڈالے جا رہے ہیں جبکہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلے گا۔ سردست تو سارا ملبہ بیچارے پائلٹ پر ڈالنے کی کوشش سامنے آ رہی ہے جبکہ اس حادثے کی شفاف اور منصفانہ تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔ یوں بھی اس حادثے کی ستم ظریفی دیکھیں کہ
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
جو مسافر اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے جا رہے تھے وہ راہی ملک عدم ہوئے اور اپنے پیاروں کیلئے غم ،سسکیاں اور آہیں چھوڑ گئے۔ کاش ہمارے ہاں ٹریفک، ٹرین اور فضائی حادثوں کی روک تھام کا کوئی موثر انتظام ہو تو قوم کو ایسے سانحات سے دو چار نہ ہونا پڑے اور ان کی خوشیوں کے چمکتے دمکتے رنگ پھیکے نہ پڑیں۔
کورونا کی تباہ کاریاں بڑھتی جا رہی ہیں عید کی تعطیلات کے بعد حکومت کی طرف سے سخت لاک ڈاﺅن کی خبریں بھی سرگرم ہیں اگرچہ اب موسم کی گرمی بھی اپنے جوبن پر ہے دیکھیں اب سمارٹ لاک ڈاﺅن کے بعد حکومت کس قسم کے لاک ڈاﺅن کا ارادہ رکھتی ہے۔ کورونا کی کرامات ایسی ہیں کہ لوگ اب فرصت کے لمحات میں بھی ایک دوسرے سے آنکھیں چراتے اور ماسک کے ذریعے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ شادی بیاہ اور عوامی اجتماعات پر پابندی کی وجہ سے جہاں سماجی روابط میں کمی آئی ہے وہاں انسانی رویوں پر بھی اس کا اثر نظر آنے لگا ہے۔
دامن پر کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کے شعر کے مصداق کورونا اپنے مہلک وار جاری رکھے ہوئے ہے اور فضا میں اداسی کی کیفیت بڑھتی جا رہی ہے۔ 1971ءکی جنگ کے بعد کے حالات پر ناصر کاظمی نے کہا تھا کہ
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
تو اس وقت بھی صورتحال کچھ اس طرح کی ہے وبا کے دنوں کی محبت ہو یا وبا کے دنوں کی شاعری انسانی زندگی اور انسانی رویوں پر اپنے گہرے نقوش مرتب کرتی ہیں۔
شاعر حضرات نے تو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے آن لائن مشاعروں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے لیکن اس میں وہ سامعین کی واہ واہ کہاں۔ سنا ہے کہ آن لائن شادیاں اور دیگر تقاریب بھی منعقد ہو رہی ہیں لیکن جو مزہ اور جو حقیقی رنگ اصل شے کا ہوتا ہے وہ نقل کا کہاں سو ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور دست بستہ اور سربسجود ہو کر دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور اپنے آپ کا محاسبہ بھی کرتے رہنا چاہیے کہ کورونا کی خرافات سے جلد نجات ملے۔ ملک کی اقتصادی اور سماجی سرگرمیوں کا پھر سے احیا ہو اور شہروں کی رونقیں پھر سے دوبالا ہوں زندگی کے پھیکے رنگوں میں رنگ بھرتے نظر آئیں اور لوگ ایک دوسرے سے دور ہونے کی بجائے نزدیک آتے نظر آئیں سو کچھ عرصہ پوری طرح کورونا سے بچاﺅ کی احتیاطی تدابیر پر عمل کریں کہ جلد اس وبا کے اثرات سے چھٹکارا ملے اور زندگی صحیح ڈگر پر رواں دواں نظر آئے۔
فیس بک کمینٹ