عید کے سب ذائقے پھیکے اور سارے رنگ مدھم ہونے تھے مگر مزید سوگوار کرنے کےلئے ہماری اجتماعی غیرذمہ داری نے اسے سوگ میں بدل دیا۔ایک سو سے زائد تابوت عید مبارک کی صداؤ ں کو ایک جرم کی آواز میں بدل گئے۔ عید پر گلے ملنے کی روایت تو مدتوں پہلے دم توڑ چکی تھی مگر اب ہاتھ ملانے پر بھی وبائی پہرے بیٹھے ہیں۔اک خوف مسلط ہے جو مستقل آزار بنتا جارہا ہے۔
بہت دن بیت چکے جب کوئی خیر کی خبر آتی تھی اب ایک سو اموات میں سے جو تین افراد بچ جاتے ہیں ان کے زندہ رہنے کے معجزے سے ہم خوشیاں کشید کرتے ہیں یعنی ہماری ہر خوشی پر دکھوں کے سیاہ غلاف چڑھے ہیں۔
یہ عید بھی سمارٹ لاک ڈاؤن سے ہسپتالوں میں کم پڑتے بستروں تک کی ایک داستان ہے۔معیشت بچانے کے لئے موت کی قربت کا مشکل فیصلہ کیا گیا۔اسی لچکدار رویے نے عوام میں شک کا بیج بویا کہ کرونا ہے بھی یا صرف عالمی ڈرامے کی تیسری قسط ہے جو بلا تفریق رنگ ونسل دکھائی جارہی ہے۔پہلے ایک ماہ کے بعد ہر طرف غیر سنجیدگی نظر آئی ،فیصلہ کن بات سامنے نہ آئی کہ دوٹوک موقف کا مسلسل فقدان ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔وہ باب جسے ریاستی چھتری تلے لکھا جاتا ہے،اور دربار میں پڑھا جاتا،تخت شاہی پر بیٹھ کر سنا جاتا ہے۔
ہم تاریخی غلام گردشوں میں بھٹکنے والے نہیں کہ ہماری عید اپنے سلو گن “رسم دنیا بھی ہے،موقع بھی ہے ،دستور بھی ہے” کے مدھم رنگوں میں جاری ہے۔عید گاہ کے روایتی ماحول سے بازاروں کی رونق تک کچھ بھی تو نہیں رہا۔سب چھن چکا،سب بدل چکا۔اب رسم دنیا اور موقع و دستور سب کچھ وبا کے سامنے بے بس ہے،دم توڑ چکا ہے کہ یہی دم توڑتی کہانی ہمارے ریاستی سفر کا حاصل ہے۔
عید تو عید ہے ہم اپنے جنازوں پر ڈھنگ سے رو بھی نہیں سکتے کہ سالوں سے بیمار ہم جب مرتے ہیں تو کرونا کا سٹیکر ہمارے ماتھے کا جھومر بنتا ہے۔سفید وردی میں ملبوس گورکن ہمیں میت سے دور رکھ کر اپنی جان بچانے کی تلقین کرتے ہوئے رخصت کرتے ہیں۔عید ہی نہیں ہماری بیٹھکیں بھی تو برباد ہوچکی ہیں،ہماری نشت و برخاست اور باہمی میل جوک بھی تو وبا کی نذر ہو چکا ہے۔اب ایسے ماحول میں عید کا چاند کوئی نوید لے کر نہیں آیا بلکہ ہمارے مقدر پر ماتم کرنے آیا ہے۔
دوستوں اور رشتہ داروں سے ملاقاتیں احتیاط میں بدل چکی ہیں کہ اب حکم عالمی حاکم آتا ہے کہ آئیندہ اسی وبا میں جینا ہوگا اور اسی وبا سے ، صرف اسی وبا سے مرنا ہوگا۔اس کے علاوہ تمام اموات منع ہیں۔اس حکم کی ایک کاپی برائے اطلاع ملک الموت کے دفتر بھی بھجوا دی گئی ہے۔شائد اب ہر عید اسی رنگ میں بے رنگ ہو کر گزرے گی،شائد زندگی اب کرونا پروف سفید لباس والے چوکیداروں کو دیکھتے بیت جائے گی۔اس عید پر ہم نے خود کو عادی بنانا ہے کہ بس اب یہی آئیندہ نسل کو روایت بنانا ہے کہ رسم دنیا پہلے والی رہی اور نہ ہی موقع و دستور وہ پہلے جیسا رہا۔
عیدی تو شائد لینے دینے کا دستور اب بھی رہے مگر عیدی کو خرچ کرنے کے اصول پہلے جیسے نہیں ہونگے۔لوگ ملیں گے اور فاصلہ ضروری ہوگا۔ہاتھ ملانے کے بجائے اب آنکھیں ملانے تک گزارا کرنا ہوگا۔ہمیں دلوں کی طرح اب جسموں کو بھی دور کرنا ہوگا کہ یہی اب جینے کی ضمانت ہے۔بہرحال وبا کے سائے میں آنے والی عید مبارک ہو کہ عید تو عید ہی ہوتی ہے۔
فیس بک کمینٹ