( گذشتہ سے پیوستہ)
یہ وہ ساری وجوہات ہیں، جِن کے باعث آزاد خیال عناصِر کی توجہ ان کی کمیوں، خامیوں اور کوتاہیوں پر رہتی ہے۔ وہ طلبہ کو پیٹی بورثوازی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی انقلابی جدوجہد کو مہم جوئی ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کئی تو آپ کو مایوس کرنے کیلیئے یہاں تک کہیں گے کہ طلبہ تو بے فِکرے ہوتے ہیں، اُن کا انقلابی طبقات سے کیا تعلق۔ ان کے اِس طرح کے بیان محض طلبہ، مزدور اور کِسان اتحاد کو پامال کرنے کے لیئے ہوتے ہیں۔
اِس کا جواب انقلابی نوجوان صرف اپنے عمل سے ہی نہیں دیتے بلکہ اِس طرح کی تمام حوصلہ شِکن باتوں کو اپنی اپنی تنظیم کی مجلسِ عاملہ کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ ان کی باتوں کا نوٹِس لیا جا سکے۔
جدید تجزیاتی طریقوں سے انکار کرنا:
مارکسزم روایت سے چِپکے رہنے کا نام نہیں۔ جب بھی انسانی عقل مادی یا فِکری سطح پر کوئی نئی چیز یا طریقہء کار ایجاد کرتی ہے تو مارکسزم اُس کو خوش آمدید کہتا ہے اور اُسے اپناتا ہے مگر آزاد خیالی اُسے ردّ کرتی ہے۔ مِثال کے طور پر اپنے کام کے طریقے کا تجزیہ کرنے کے لیئے SWOT ANALYSIS اور SIX SIGMA ایک عرصے سے رائج ہیں مگر آزاد خیالی انہیں کارپوریٹ طریقہ کہہ کر یا غیر انقلابی قرار دے کر ردّ کر دیتی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مارکسزم میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ایک طریقہ کار اگر کارپوریٹ سیکٹر میں استعمال ہوتا ہے تو انقلابی اس سے استفادہ حاصِل نہ کریں۔
اب یہ SWOT ANALYSIS کیا ہے؟ یہ محض اپنی طاقت، کمزوریوں، مواقع اور خطرات کا تخمینہ لگانے کا ایک طریقہ کار ہے۔ اِسی طرح SIX SIGMA تنظیم کے کام کا تجزیہ کرنے کا ایک سادہ سا طریقہ ہے جِس میں اعداد و شمار کی بنیاد پر نظم و ضبط، عمل، احکامات کی پیروی، پیمائش، پِچھلے کام کا تجزیہ اور اُس کو بہتر بنانے کی تجاویزکو ایک ضابطے میں لایا جاتا ہے جو کِسی بھی طرح تنظیمی کام کے لیئے معاون اور مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک انقلابی تنظیم کا فرض ہے کہ ہر جدید طریقہء کار پر گہری نظر رکھے اور اُسے انقلابی کاموں کیلیئے اپنے استعمال میں لائے۔
آیئے، اب ہم ماؤ زے تنگ کے سات ستمبر انیس سو سینتیس کو لکھے گئے پمفلٹ کے نفسِ مضمون پر آتے ہیں اور ماؤ کی بیان کردہ آذاد خیالی کی گیارہ قِسموں کو سمجھنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آزاد خیالی کی پہلی قِسم:
’کِسی شخص سے واضح غلطی ہونے کے باوجود محض صلح جوئی اور دوستی کی خاطر جو ہوتا ہے ہونے دینا اور اس سے محض اِس بنا پر با اصول بحث سے گریز کرنا کہ وہ پرانا شناسا ہے، ہم وطن ہے، ہم سبق ہے، جگری دوست ہے، عزیز ہے، پرانا رفیقِ کار ہےیا پرانا ماتحت ہے۔ یا معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی بجائے اِس کا ذکر سرسری طور پر کرنا تاکہ اچھے تعلقات قائم رہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تنظیم اور فرد دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ ہے آزاد خیالی کی پہلی قِسم‘۔
حل:
پارٹی میں نظم و ضبط کا پیمانہ اجلاسوں کی باقاعدگی ہے۔ اِن اجلاسوں میں اگر کوئی انقلابی شرکت نہ بھی کر سکے تو بذریعہ تحریر ایجنڈے پر اپنا مؤقف ضرور دیتا ہے۔ اگر پارٹی میں ہر سطح پر باقاعدگی سے رسمی اجلاس (FORMAL MEETINGS) منعقد نہیں ہو رہے یا ان اجلاسوں کا تحریری ریکارڈ نہیں رکھا جا رہا تو اِسے ایک انقلابی پارٹی کی بجائے ایک سوشل کلب کہنا مناسب ہو گا جہاں چند ہم خیال دوست غیر رسمی گپ شپ کے لیئے کبھی کبھار اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ لہٰذہ آزاد خیالی کی اِس قِسم کا جواب ہر سطح پر رسمی اجلاسوں کا قیام، اُن میں باقائدگی اور ان کا تحریری ریکارڈ رکھنا ہے۔
آزاد خیالی کی دوسری قِسم:
’تنظیم کے سامنے سرگرمی کے ساتھ مشورے پیش کرنے کی بجائے پیٹھ پیچھے غیر ذمہ دارانہ تنقید کرنا۔ لوگوں کہ منہ پر تو کُچھ نہ کہنا مگر اُن کے پیچھے گپ بازی کرنا یا میٹنگ میں تو کُچھ نہ کہنا مگر بعد میں گپ بازی کرنا۔ اجتماعی ذندگی کے اصولوں کا ذرا بھی خیال نہ رکھنا بلکہ اپنے رُجحانِ طبع کے مطابق چلتے رہنا۔ یہ ہے آزاد خیالی کی دوسری قِسم‘۔
آزاد خیالی کی تیسری قِسم:
’ایسی چیزوں سے لاپرواہی برتنا جو اپنی ذات پر اثرانداز نہ ہوتی ہوں۔ اچھی طرح جانتے ہوئے بھی کہ فلاں چیز غلط ہے، اس کے بارے میں کم سے کم بولنے کی کوشش کرنا، زمانہ ساز ہونا اور محتاط ہونا اور محض یہ کوشش کرنا کہ اپنے اوپر الزام نہ آئے۔ یہ آزاد خیالی کی تیسری قِسم ہے‘۔
آزاد خیالی کی چوتھی قِسم:
’احکامات کا نہ ماننا بلکہ اپنی رائے کو اعلیٰ اور برتر سمجھنا۔ تنظیم سے خصوصی مراعات کا مطالبہ کرنا مگر اِس کے نظم و ضبط کی پابندی نہ کرنا۔ یہ آذاد خیالی کی چوتھی قِسم ہے‘۔
آزاد خیالی کی پانچویں قِسم:
’اتحاد یا ترقّی کے لیئے یا کام کو مناسب طریقے سے انجام دینے کے لیئے یا غلط خیالات کے خِلاف جدوجہد کرنے کے لیئے اور دلیل پیش کرنے کی بجائے ذاتی حملے کرنا، جھگڑے کھڑے کرنا، ذاتی دشمنی نکالنا یا انتقام لینے کی کوشش کرنا۔ یہ ہےآزاد خیالی کی پانچویں قِسم‘۔
سائینس کہتی ہے کہ نفسیاتی پیچیدگیاں (PSYCHOLOGICAL COMPLEXES) ہر فرد کو درپیش ہوتی ہیں۔ مگر اِن پیچیدگیوں (COMPLEXES) کے اِظہار کا طریقہ فرد کو انقلابی یا آزاد خیال بناتا ہے۔ ہر فرد بڑا بننا چاہتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے مگر کِسی کو نیچا دِکھا کر بڑا بننے کی کوشش کرنا آذاد خیالی ہے جو اجتماعی جدوجہد کو نقصان پہنچاتا ہے۔
ماؤ نے آذاد خیالی کی پانچویں قِسم میں ایسے ہی عناصِر کا ذکر کیا ہے جو بظاہر تو مارکسی فِکر رکھتے ہیں مگر کہیں نہ کہیں ان کے اندر پائے جانے والی پیچیدگیاں ان کو آذاد خیالی کی اِس قِسم کی طرف مائل کر لیتی ہیں۔
اِس رویئے کی بیخ کنی سختی سے کی جانی چاہیئے ورنہ ایک انقلابی پارٹی اور جاگیرداروں کے گروہ میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا جو اپنی سرشت میں بے حد آمرانہ ہوتے ہیں۔ اِن عناصِر سے نمٹنے کے دو ممکنہ حل ہیں ۔۔۔
اوّل یہ کہ ان کو پارٹی کے انقلابی کلچر کو اپنانے پر مجبور کر دیا جائے
دوئم یہ کہ ان کی بنیادی رکنیّت خارج کردی جائے تاکہ ان کی آذاد خیال فِکر اور جاگیردارانہ طرزِعمل پارٹی کے دیگر انقلابی رجحانات رکھنے والے ساتھیوں پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
(جاری ہے)