میں پنجاب میں پیدا ہونے والا ایک عام پاکستانی ہوں۔ میں نے ایک مرتبہ پاکستان کے پہلے وزیرِ قانون جوگندر ناتھ منڈل کا لیاقت علی خان کو لکھا گیا استفعی پڑھا تو تبھی معلوم ہو گیا کہ مشرقی پاکستان علیحدہ کیوں ہوا۔ جرنیلوں کی لکھی ہوئی مختلف کتابیں تو محض اسی مفروضے کے لئیے ایک سند ثابت ہوئیں۔
میں، ایک عام پاکستانی جو جوانی کی سرحد میں داخل ہوا تو جنرل ضیاءالحق کا جبر دیکھا، ذرا بڑا ہوا تو نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی محلاتی سازشوں کو جمہوریت کہنے پر مجبور ہوا، بڑھاپے میں قدم رکھنے لگا تو جنرل مشرف کا مارشل لاء دیکھا، زرداری دور دیکھا، نواز دور دیکھا اور اب عمران دور دیکھ رہا ہوں۔
میں، ایک عام پاکستانی۔
میں ایک عام پاکستانی ہوں جس نے پڑھا کہ اگر افغان جنگ نہ ہوتی اور چارلی ولسن امریکہ سے امداد لے کر نہ دیتا تو پاکستان دیوالیہ ہو جاتا۔
میں، ایک عام پاکستانی، جس نے یہ بھی پڑھا کہ فوج کو کاروباری ادارہ بنانے میں جنرل ایوب خان کا مرکزی اور بنیادی کردار ہے اور پھر میں نے فوج کے کاروبار بھی دیکھے اور اپنی غربت کا خراج آج بھی ادا کر رہا ہوں۔
پھر ایک دن پتہ چلا کہ کراچی میں کسی نوجوان نقیب اللہ محسود کو قتل کر دیا گیا ہے اور اس کا الزام جس ایس ایس پی راؤ انوار پر لگا ہے اسے سابق صدر زرداری نے اپنا "بہادر بچہ” قرار دیا ہے۔
میں ایک عام پاکستانی، جس نے ایک پرانے نعرے کو مقبول ہوتے دیکھا، جس میں پکار پکار کر کہا گیا کہ۔۔
یہ جو دہشت گردی ہے
اس کے پیچھے وردی ہے
میں نے یعنی پنجاب میں پیدا ہونے والے ایک پاکستانی نے اس نعرے کو اپنا نعرہ بوجوہ سمجھا۔
22 اپریل 2018 ء کو پی ٹی ایم کا لاہور میں جلسہ منعقد ہوا تو اپنی پرانی طلبہ تنظیم این ایس ایف کو پی ٹی ایم کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے پایا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ لوگ تو بس اتنا چاہتے ہیں کہ
لاپتہ افراد کو عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے
رہائشی علاقوں سے بارودی سرنگیں ختم کی جائیں
راؤ انوار کو قانون کے مطابق سزا ملے
ناکوں پر ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک بند کیا جائے
تو یہ مطالبات صرف پشتونوں کے تو نہیں بلکہ میرے جیسے کروڑوں پاکستانیوں کےبھی ہیں۔ پسِ پردہ اگر کچھ اور ہے تو اس کی تصدیق کسی ادارے نے کی ہی نہیں۔
پھر میں نے دیکھا کہ پاکستان کے غلام پارلیمانی کلب کے لوگوں نے میرے اور میرے پشتون بھائی بہنوں کے درمیان پنجابی ، پشتون کی دیوار کھڑی کرنے کی کوششیں شروع کردیں ، پشتونوں کو بتایا جانے لگا کہ میرے جیسا ایک عام پاکستانی جو پنجاب میں پیدا ہوا اور پنجابی بولتا ہے اس عسکری ریاست کا نمائندہ ہے۔
دکھ ہوا۔ ایک عام پاکستانی رویا بالکل اسی طرح رویا جیسے مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے پر رویا تھا۔
آج یہ پنجاب میں پیدا ہونے والا، پنجابی زبان بولنے والا ایک پاکستانی پھر رو پڑا۔ اسے پتہ چلا کہ وزیرستان میں کرفیو کی وجہ سے تین معصوم بچے اور دو خواتین موت کی گھاٹ اتر چکی ہیں۔ تین بچے خوراک نہ ہونے کے باعث دم توڑ گئے، ایک حاملہ خاتون بروقت اسپتال نہ پپہنچنے کی وجہ سے راہیء ملکِ عدم ہوئی اور ایک عورت جسے کرنٹ لگا اسے کرفیو کی وجہ سے ابتدائی طبی امداد نہ ملی اور اسے موت کو گلے لگانا پڑا۔ اور رونے کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جب میں نے ان اطلاعات کی تصدیق کرنا چاہی تو مجھے جواب ملا کہ
"تم تو پاکستانی ہو، تمہارا اِن غداروں سے کیا لینا دینا”.
جی ہاں، میں، ایک عام پاکستانی، میرا غداروں سے کیا لینا دینا..!
فیس بک کمینٹ