یوں تو آج بھی جنرل ضیاء الحق اپنی بہت سی پالیسیوں کی صورت میں زندہ ہیں۔ احترامِ رمضان آرڈیننس ہو یا توہینِ رسالت کے قوانین، سائبر کرئم بِل ہو یا مِلِٹری عدالتیں، ایم کیو ایم لندن گروپ کے ساتھ ہوتے ہوئے انصاف کو دیکھیے یا بلوچِستان میں گمشدگیوں کو، سہمی ہوئی اقلیتوں کی جانِب نگاہ کیجیئے یا پارہ چنار کے اہلِ تشیع کے ماتمِ مستقل کودیکھیؓں ، ہر جگہ آپ کو جنرل ضیا الحق ہی جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ مگر یہ فقرہ ہمارے اس دورِ سب ایڈیٹری کا ہے جب ہمارے باس و ریزیڈنٹ ایڈیٹر و استاد ہمیں اکثر کہا کرتے کہ ’پلیز ڈونٹ برنگ آرٹیکلز آن سٹیل ٹوپکس بیفور می‘، (Please don‘t bring articles on stale topics before me) یعنی میرے سامنے باسی موضوعات پرمضامین لِکھ کر مت لایا کرو۔ ہمیں افسوس اِس صحافتی اصول پر نہیں بلکہ خود پر ہے کہ ہمیں اعدادوشمار اکٹھا کرنے، ان میں مقصدیت بھرنے جِسے انگریزی میں آبجیکٹیویٹی (Objectivity) کہا جاتا ہے اور مضمون کی تراش خراش یعنی کرافٹنگ (crafting) میں اتنا وقت لگ جاتا کہ وہ موضوع یا حادثہ پرانا ہو جاتا اور اس کی جگہ تازہ حادثات لے لیتے۔
مگر آج ہمارے موضوع بلکہ موضوعات کے سٹیل یعنی باسی ہو جانے میں ہماری ازلی سستی کا عمل دخل نہیں۔ بلکہ اس مرتبہ جو ہمارا قلم تیشہء فرہاد نہ بن سکا اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم سانحہء بہاولپور کے صدمے سے ہی تاحال باہر نہیں آ سکے، دوئم ہمیں نہیں لگتا کہ پاراچِنار میں ہونے والی شیعہ نسل کشی، اس نسل کشی کے خِلاف احتجاج میں باہر نکلنے والوں پر فائرنگ اور ظاہری بیچ بچاؤ کروانے کے لیئے حکومت کا ایم ڈبلیو ایم کے منافق ملاؤں سے مدد طلب کرنا کبھی وطنِ عزیز میں باسی بھی ہو سکتا ہے۔ مادرِوطن میں یہ دکھ توہر دم تازہ رہتا ہے۔
ہاں اس حوالے سے یہ سوال تو سبھی صحافی اٹھا رہے ہیں کہ کیا رد الفساد صرف ایم کیو ایم لندن کے دہشت گردوں کے لیئے رہ گیا ہے یا پارہ چنار کے لوگوں پر بار بار حملے کرنے والے بھی فسادیوں کی فہرست میں شامِل ہیں؟ مگر میرا سوال یہ نہیں ہے۔ میرے ذہنِ نارسا میں محض ایک ہی سوچ پنپ رہی ہے کہ وہ بار بار نہتے عوام پر فائرنگ کروا کر نہتے پاکستانی عوام کو مروا دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اہلِ تشیع دھماکوں میں مرتے ہیں تو احتجاج بھی اہلِ تشیع ہی کرتے ہوں گے، جو بہر حال پاکستانی بھی ہیں اور نہتے بھی۔ جب دیگر جگہوں پر دھماکوں میں مرنے والوں کو عوضانہ ادا کیا جاتا ہے تو پارہ چنار کے شہدا میں ایسا کیا ہے کہ ان کو لاشوں کا معاوضہ گولیوں کی صورت میں مِلتا ہے؟
ایک دِن پہلے خبر آتی ہے کہ ہمارے ملک پاکستان کی افواج کے سربراہ پارہ چِنار تشریف لے جا رہے ہیں، پھِر خبر آتی ہے کہ موسم خراب ہونے کے باعث ہمارے سپہ سالار نے اپنا دورہ معطل کر دیا ہے۔ اس سے اہلیانِ پارہ چنار کے دل میں یہ وسوہ بھی تو پیدا ہو سکتا ہے کہ موسم تو کشمیر کی سرحدوں پر بھی غیر موافِق ہی رہتا ہے اگر ادھر دشمن نے کوئی کارروائی کر دی تو کیا انہیں یہ پیغام بھِجوایا جائے گا کہ عزیز پڑوسیو، ’ذرا موسم بدلنے دو‘۔ ہاں، دی نیوز میں ہم نے ایک سرخی پڑھی کہ چیف آف آرمی سٹاف نے راولپنڈی میں بیٹھ کر یہ کہا ہے کہ دشمن کو وطنِ عزیز میں مذہبی تفرقہ بازی نہیں پھیلانے دی جائے گی۔ اگر اس فقرے پر غور کریں تو سجھائی دیتا ہے کہ تفرقہ بازی پھیلانے والے ملک و قوم کے دشمن ہیں لہٰذہ قوم پر یہ ثابت کرنا بھی واجب ہو جاتا ہے کہ دو مرتبہ احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے کا حکم دینے والے کو صفِ دشمناں میں شامِل رکھا جائے یا وطن کے سجیلے جوانوں میں۔
یہاں عہدِ سب ایڈیٹری کے دوران اپنے باس کا نصیحت نما حکم یاد آ گیا کہ جو کچھ چاہے لِکھو مگر فوج کے خلاف کچھ مت لِکھو، سو ہم واضح کر دیں کہ فوج کے ایک افسر کی کارروائی پر تنقید پورے ادارے کی تضحیک ہرگز نہیں۔ ہم تو صرف یہ سامنے لانا چاہتے ہیں کہ اسے افسر کو پارہ چنار میں اختیار دینا بجائے خود تفرقے کو ہوا دینا ہے اور یہی ماضی کی دو کارروایوں سے ثابت ہوتا ہے۔ سو، امید ہے کہ ہمارے سابِق باس جو ہمارے استاد بھی ہیں ہمیں نافرمان نہیں سمجھیں گے اور نہ ہم لاپتہ ہوں گے نہ ملک و قوم کے غدار سمجھے جائیں گے اور اہلِ تشیع تو ہم یوں بھی نہیں اور نہ ایم ڈبلیو ایم کے ملّاؤں کو اہلِ تشیع سمجھتے ہیں۔
یوں بھی سانحہء بہاولپور میں فوج نے جو مدد کی اس کے لیئے اہلیانِ علاقہ فوج کے بے حد شکر گزار ہیں۔ مگر بہاولپور کی سول انتظامیہ نے جو کچھ بھی کیا تخت لاہور کی کاسہ لیسی میں کیا۔ جب تک شہباز شریف یہاں رہے کام خاصی تندہی سے ہوا۔ سرد خانے نہ ہونے باعث لاشوں کی شناخت کے لیئے فوراً ٹیمیں بھی پہنچ گئیں، پنجاب کے بیشتر اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہو گئی اور قبرستان بھی فٹافٹ آباد ہو گیا مگر جب چیک تقسیم کرنے کی باری آئی تو اِس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ جنوبی پنجاب کے زعماء میں سے کوئی رہ نہ جائے جِس کی چیک دیتے ہوئے تصویر نہ آسکے۔ خود ہمارے رپورٹر کوان سیاسی قائدین کے چمچوں نے اس ضمن میں زچ کر کے رکھ دیا۔ ان خاصانِ زمیں میں وزیرِ مملکت میاں بلیغ الرحمان تھے جِن کی بلاغت کا تذکرہ میں کبھی ضرور کروں گا۔ ان کے علاوہ سینیٹرسعود مجید صاحب، یہاں کے رکن پنجاب اسمبلی اقبال خان چنڑ، رکن قومی اسمبلی علی حسن گیلانی اور رکن پنجاب اسمبلی عدنان فرید صاحب بھی ’تقریبِ تقسیمِ چیکِ عوضانہء ذندگی‘ میں شریک تھے۔
اس حوالے سے میرا ایک ہی سوال ہے کہ کیا یہ چیک خاموشی سے، کسی اسسنٹ کمشنریا کسی ٹی ایم او یا علاقہ ایس ایچ او کے ذریعے گھر گھر جا کر تقسیم نہیں کیئے جا سکتے تھے؟ کیا ضرورت تھی کہ حادثے میں جل مرنے والوں کے لواحقین کو ریاستی طاقت دِکھانے کے لیئے کوسٹروں میں بھر بھر کے سرکٹ ہاؤس لایا جاتا، بذریعہ پولیس قطاریں بنوائی جاتیں، ان کے لرزتے ہاتھوں میں تھامے شناختی کارڈ چیک کیئے جاتے اور پھِر مائیک میں اعلانات کیئے جاتے کہ اب مسمی اللہ دِتہ کو چیک دینے کے لیئے اسٹیج پر فلاں حضرتِ حکمران تشریف لائیں گے!!!
مائیک پر اعلان سے یاد آیا کہ اہلِ علاقہ کے بقول موضع رمضان پورہ کی مسجد میں اعلان کیا گیا تھا کہ اے مسلمانو، جاگو، گاؤں کے قریب پیٹرول کا ٹینکر الٹا پڑا ہے، جاؤ اور جتنا ممکن ہو، مالِ غنیمت سمیٹ لو۔ آپ خود ہی سوچیئے کہ اگر یہ اعلان نہ ہوا ہوتا کتنی جانیں بچ سکتی تھیں۔ مگر صاحب، ہم نے کہا نا کہ جنرل ضیا الحق آج بھی کئی مظاہر کی صورت میں زندہ ہے۔ دیکھ لیجیئے اس مرتبہ بھی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے موت کے بٹنے کا اعلان ہوا۔
ایک ضلعی سطح کے افسر نے تو خیر پورکے حادثے کو فقط عوام کی جہالت قرار دیا۔ غالباً وہ بھول گیا تھا عوام کوجہالت کے اندھرے سے نکالنا اس حکومت کا فرض تھا جو پچھلی کئی دہایئوں سے حکومت میں ہے۔ صوبے میں جہالت کے ذمہ داران تو وہی آقا ہیں جنہوں نے تعلیم کو محض لیپ ٹاپوں کی تقسیم اور دانش اسکولوں تک محدود کر دیا۔ وہی مقدس مالک جِن کے بارے میں میں نے ایک مرتبہ پہلے بھی لکھا تھا۔ اس وقت جب احمد پور روڈ پر ہی ایک ٹریفک حادثے میں چالیس افراد ہلاک ہوئے اور ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر طلبہ و طالبات تھے۔ وہ معصوم تھے ’جو بھول پن میں وہاں اپنے ننھے چِراغوں میں لؤکی لگن لے کے پہنچے‘ جہاں سڑک پر موت ان کی منتظر تھی۔ جی، ہاں اس وقت مذکورہ حکومتی آقا اپنے منطورِ نظر برجیس طاہر کے علاقے میں کسی موٹروے انٹر چینج کا افتتاح کر رہے تھے۔ بیشک ہم نے یہ سب لِکھا تھا، اس پر ہمیں کچھ لائکس ملے اور ہم اس پر ہی کئی دن اتراتے پھرے۔۔۔اب بھی شائد یہی ہو گا ہمارے بے مایہ لفظوں کے ساتھ۔
ہ