ہم نہیں جانتے کہ فیض احمد فیض نے کیونکر بہار کے تناظر میں کہہ دیا کہ ’کھُل گئے ہیں نئے سِرے سے حِساب سارے‘ کہ ہمارے تو تمام مخفی حساباتِ دوستاں ایک خبر سے کھُلے کہ پھِر سے چند دوستوں نے ایک نئی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈیریشن قائم کر لی ہے جِس کا نام نیشنل اسٹودنٹس فیڈیریشن (آزاد) رکھا گیا ہے۔ ہم بائیں بازو کے لوگ، فتویٰ فروش مُلّا تو ہونے سے رہے کہ صابِر علی حیدر کو یا آزاد گروپ کے نوذائدہ انقلابیوں کو دائرہء مارکسزم سے نکال باہر کریں۔ ہم تو آج محض ایک اعتراف کرنا چاہتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈیریشن کےنو آزاد یا فریقِ دوئم سبھی ساتھیوں کے کام آ سکے۔
تو دوستو، قِصہ کُچھ یہاں سے آغاز ہوتا ہے کہ ۱۹۸۵ میں جب ضیا الحق کے تحت، جونیجو برانڈ جمہوریت کی داغ بیل ڈالی گئی تو ہم نے سمجھا کہ یہ وہ سحر تو نہیں، جِس کی آرزو لے کر چلے تھے یار کہ مِل جائے گی کہیں نہ کہیں، فلک کے دشت پہ تاروں کی آخری منزِل۔ سو جو ہم سمجھتے تھے اُس کا پرچار بھی شروع کر دیا۔ اللہ جنت نصیب کرے کہ خانیوال ڈگری کالج کے اُس وقت کے پرنسپل، حافِظ جمال جِن کی ہمدردیاں جماعتِ اسلامی سے تھیں انہوں نے اُس وقت کے خانیوال کے ڈپٹی کمشنر سے مِل کر ہمیں کالج بدر کر دیا۔
کُچھ عرصہ در بدر رہے، پھِر پرائیویٹ امتحان اور بلآخر ہمیں اوپن میریٹ پر ایمرسن کالج مُلتان میں داخلہ مِلا۔ اہلِ خانہ کے پُرزور اصرار پر ہم نے مصمّم اِرادہ کر لیا تھا کہ اب کُچھ بھی ہو طلبہ سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مگر این اسی ایف کا ایک اسٹکر ہم نے اپنی سُرخ جِلد والی کالِج ڈائری پر اِس نیئت سے رہنے دیا کہ کعبے سے اِس بُتِ ناپئدار کو فقط نِسبت کیا بلکہ ایک گونا رغبت بھی تھی۔ بس یہی اسٹکر ایمرسن کالج میں وجہء تنازعہ بن گیا اور اِسلامی جمعیت طلبہ سے ایک معمولی سر پھٹول کے بعد ہم دوبارہ این ایس ایف میں تھے۔
یہ وہ دور تھا، جب جنرل ضیاء نئے نئے فِضا میں پھٹے تھے اور ایسٹیبلشمنٹ کی پروردہ حکومتوں کو این ایس ایف کے نام سے ہی خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ اسی دوران عاصِم علی شاہ، جو کہ اسوقت این ایس ایف پاکِستان کے مرکزی جوائینٹ سیکرٹری،تھے ایمرسن کالِج مُلتان میں تنظیم کی طرف سے کُل وقتی ورکر کے طور پر بھیجے گئے۔ عاصِم علی شاہ ایک نظریاتی کارکُن تھے اور ہر معاملہ کو سائینسی بنیادوں پر پرکھتے اور فیصلے کیا کرتے تھے۔ اُن کے کیئے گئے خیالات اور حکمت عملی کو چیلینج بھی کیا جاتا، مگر اُس وقت کی تنظیم میں سب کو اندر سے معلوم تھا کہ عاصِم شاہ ہم سب کی نسبت نظریاتی سطح پر سب سے ذیادہ تعلیم یافتہ اور مستعد کارکن ہیں۔ لہٰذہ احترام و دوستی کا ایک شاندار رشتہ بھی تھا۔
ایمرسن کالج میں سٹڈی سر کل کا قیام بھی عاصِم علی شاہ نے ہی کیا۔ بنیادی تنظیم میں ہم، مسعود سرور گوندل، ندیم پاشا، عمار حسن اور دیگر دوست شامِل تھے۔ اِسلامی جمعیت طلبہ کی بھاری اسلحہ بردار نفری کے سامنے ہم چند دوستوں کا ٹِکے رہنا بظاہِر نا ممکن تھا مگر یہ عاصِم علی شاہ کی نظریاتی تربیّت کا شاخسانہ ہی تھا کہ نہ صِرف ہم میدان میں کھڑے رہے بلکہ این ایس ایف کی بنیادی رکنیئت میں بھی روز بروز اِضافہ ہوتا گیا۔ سال بھر سے بھی کم عرصہ میں این ایس ایف کے ملتان کے تمام کا لجوں میں یونٹ قائیم ہو گئے۔ ایک طویل عرصہ کےبعد ملتان میں این ایس ایف کا کونسل سیشن منعقدد ہوا اور مسعود سرور گوندل کو ملتان کا صدر چنا گیا۔ نئے دوستوں کو آگے بڑھانے میں عاصم علی شاہ ہمیشہ پیش پیش رہتے۔
یادِش بخیر، اُس وقت کے این ایس ایف کے مرکزی صدر صفدر رشید بھی عاصِم علی شاہ کی دعوت پر ہی مُلتان تشریف لائے اورایمرسن کالِج سے ساتھ گول باغ میں جب انہوں نے ہم نو آموزوں کے ساتھ اسٹدی سرکل لیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ کِس طرح ماضی میں ملتان ہی میں اسوقت کے تنظیم کے مرکزی صدر صلاح الدین گنڈاپور نے تنظیم میں گِروہ بندی کی کوشِش کی اور کِس طرح این ایس ایف بہ حثیت تنظیم اُن کی کوشِش کو ناکام بنایا۔ صلاح الدین گنڈاپور کی سازِش کے ناکام ہونے میں ایک بنیادی نکتہ یہ تھا اُس نے خود ہی اپنا تعلُق مرکزی تنظیم سے توڑ دیا۔ اِس کا انجام تاریخ نے دیکھ لیا۔ یعنی آج جب ہمارے قلم قبیلے میں بھی بائیں بازو کے کارکنان کا ذِکر ہوتا ہے تو کوئی جانتا بھی نہیں کہ کبھی کوئی صلاح الدین گنڈاپور نامی کوئی کارکُن ہوا بھی کرتا تھا یا نہیں۔ دوسرے، اُن کا زِکر اگر آج ہم کر بھی رہے ہیں تو این ایس ایف میں گروہ بندی کے حوالے سے۔
خیر اِس دوران ہمارا تعارف مُلتان کے دو وکلاء قمرالزماں بٹ اور محمود نواز بابر سے بھی کروایا گیا۔
اِن اصحاب کی تفصیل بھی آگے بیان کی جائے گی مگر فی الوقت یہ تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ جنوبی پنجاب میں عاصِم علی شاہ کی رہنمائی میں چلنے والی این ایس ایف، جِس کا آغاز مذکورہ دو چار لوگوں سے ہوا، وہ کہاں تک پہنچی۔ تو صاحبو، اِس ضمن میں چند واقعات جو تاریخ میں درج ہیں، اُن سے بھی ذرا چھیڑ چھاڑ کر لی جائے۔
اوّلین واقعہ یہ تھا کہ ایک پروفیسر صاحب، ازراہِ عادت اکثر طلبہ سے ناروا سلوک کیا کرتے تھے۔ نام لینے میں بھی کوئی حرج نہیں، اُن کا نام جاوید پراچہ تھا۔ اُس دِن اسلامی جمیعت طلبہ نے جب بنگلہ دیش کے قیام سے متعلق پوسٹر لگائے تو عاصم شاہ نے ایک مقامی اخبار کے چھاپہ خانہ سے نیوز ریل کے کاغذ کا انتظام کر کے البدر اور الشمس کی کارروایئوں کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ جمعیت کے کارکنوں نے پوسٹرپھاڑنے کی کوشش کی اور عاصم علی شاہ اور دیگر ساتھیوں کی مزاحمت پر جماعتیوں نے زکریا یونیورسٹی سے کمک منگوا لی اور صورتحال سنگین ہو گئی۔ معاملہ طلبا امور کے انچاج جاوید پراچہ تک پہنچا تو اُس نے عاصم شاہ کو تھانہ گلگشت میں قید کروا دیا۔ اگلے دِن ہی کالج انتظامیہ نے عاصِم علی شاہ کو کالج سے خارج کر دیا۔ ساتھیوں کو اِس کا پتہ چلا تو انہوں نے فی الفور این ایس ایف کی ایک میٹنگ سنٹرل لایئبریری میں بلائی اور تجویز دی گئی کہ ہمیں اِس ناانصافی کے خِلاف احتجاج کرنا چاہیئے اور عاصم شاہ کی بحالی تک کلاسوں کا بئیکاٹ کرنا چاہئیے ۔ ہماری رائے میں یہ ایک حماقت تھی، جِس کی توجیہہ ہم نے یہ دی کہ ہم مٹھی بھر کارکُن، جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے کا لِج میں اپنی ہڑتال کو کیونکر کامیاب کر سکتے ہیں۔ جبکہ عاصِم علی شاہ کی دلیل یہ تھی کہ اگر چند طلبہ بھی متحد اور نظریاتی اسلحے سے لیس ہوں تو ہماری ہڑتال ضرور کامیاب ہو گی۔
تو صاحِبو، ہڑتال ہوئی اور کامیاب ہوئی۔ جب دیگر غیر سیاسی طلبہ نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا تو کالِج انتظامیہ ہمارا مطالبہ ماننے پر مجبور ہو گئی۔ عاصم شاہ کا کالج میں داخلہ بحال ہو گیا۔ یہ ہڑتال، ہم دوستوں میں ایک نئے جوش و جذبہ کی لہر بن کر دوڑ گئی اور ہمیں اِس بات کی سمجھ آئی کہ اگر چند لوگ بھی درست نظریئے پر چلتے ہوئے استحکام کا مُظاہرہ کریں تو جیت یقینی ہوتی ہے۔
دوئم واقعہ کُچھ یوں ہے کہ جب غلام حیدر وائیں پنجاب کے چیف منسٹر تھے اور سیّد فخر اِمام وزیرِتعلیم تھے تو تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اِضافہ کر دیا گیا۔ اُس وقت عاصِم علی شاہ نجانے کہاں تھے مگر مُلتان کے ہر طالبِعلم کی ذبان پراُن کے دیئے ہوئے وہی الفاظ تھے کہ ’جبر کا مقابلہ کرو ۔ جیت تُمہاری ہو گی‘۔ راتوں رات یہ الفاظ خاکی پوسٹروں پر ہاتھ سے لِکھے گئے اور مُلتان بھر کے تعلیمی اداروں میں تقسیم کر دیئے گئے۔
چیف مِنِسٹر اور وزیرِتعلیم دونوں کا تعلق خانیوال سے تھا اور فیسوں میں اضافے کے خِلاف تحریک میں کہیں یہ نعرہ بھی بلند کر دیا گیا کہ اگر فیسوں میں اِضافہ واپِس نہ لیا گیا تو دونوں عمائدین کو خانیوال میں گھُسنے بھی نہیں دیا جائے گا۔ یہ نومبر کے اوائل تھے اور ۱۳ نومبر کو حسبِ تاریخ این ایس ایف کو ’یومِ حسن ناصر‘ بھی منانا تھا۔ سو، ۱۳ نومبر کو صِرف مُلتان ڈیویژن سے ہزاروں طلبہ کو زیرِحراست لے لیا گیا اور اِن طلبہ میں ہم بھی شامِل تھے۔ جب تھانوں اور ہنگامی طور پر بنائے گئے جزوقتی قید خانوں میں جگہ نہ رہی اور طلبہ کی شورِش بڑھتی گئی تو حکومت نے سرکٹ ہاؤس خانیوال میں مذاکرات کی دعوت دے ڈالی۔ خانیوال سے تعلق ہونے کی بِنا پر اُن سے مذاکرات ہماری ذمہ داری ٹھہرے۔
ہم باہر کیسے آئے۔۔۔ یہ کہانی پھِر سہی مگر مذاکرات فقط اِتنے ہوئے کہ خانیوال کے ڈی سی نے آفر کیا کہ حکومت فیسوں میں سے آدھا اضافہ واپِس لینے کو تیّار ہے اور ہمارا جواب یہ تھا، طلبہ اپنے مطالبات سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی اِن عمائدین کو خانیوال سرکٹ ہاؤس سے باہر نکلے دیں گے۔
دوستو، یہ مطالبہ ادا بیشک، ہماری ذبان سے ہوا تھا، مگر اِس کی تخلیق ہمارے ذہن میں عاصِم شاہ کی تربیئت کے باعث ہی ہوئی۔ لہٰذہ عزم اور لہجہ بھی عاصِم علی شاہ کا ہی غالِب رہا اور اُس کا نتیجہ یہ نِکلا کہ ہم یہ جواب دے کر ابھی گھر بھی نہیں پہنچے تھے کہ ایک حکومتی نمائندے نے ہمیں راستے میں ہی روک کراطلاع دی کہ حکومت نے ہمارے مطالبات مان لیئے ہیں۔
ہم نے اوپر لِکھا کہ عاصِم علی شاہ اس موقع پر نجانے کہاں تھے تو یہ بات محاورۃ نہیں کہی گئی۔ عاصِم علی شاہ واقعی شخصی طور پران دنوں ہمارےساتھ نہ تھے، بس اُن کا بتایا ہوا صرف ایک فقرہ تھا جو اُن طلبہ کے لیئے بھی مِشعلِ راہ ثابِت ہوا جِن کا دُور دُور سے بھی این ایس ایف سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اُن کا اِس موقع پر نہ ہونا ہی وہ حِسابِ دوستاں ہے جو ہمارا آج کے مضمون کا موضوع بھی ہے اور ہمارا ایک اعترافِ جُرم بھی۔
صاحبو، بات صِرف اتنی سی ہے کہ بعض اوقات ہماری سوچیں، ہماری انانییئت کے اِتنا تابع ہو جاتی ہیں کہ ہم اُس کے سحر میں کُچھ ایسے کام کر جاتے ہیں، جِن پر بعد میں سوائے افسوس کے کُچھ اور نہیں کیا جاتا۔ بات کیا تھی، فقط یہ کہ این ایس ایف کا کام بڑھ رہا تھا۔عاصم علی شاہ کی قیادت میں ملتان کے علاوہ ڈیرہ غازیخان، راجن پور، بورےوالا، جہانیاں اور خانیوال سمیت کئی دوسرے شہروں اور قصبوں میں این ایس ایف کے یونٹ کھل رہے تھے۔ طلبہ نے مزدوروں اور کِسانوں میں مارکسی نظریات کا پرچار شروع کر دیا تھا، لیکن کُچھ مفاد پرست عناصِر کو تنظیم کا یہ پھیلاؤ ہضم نہیں ہو رہا تھا اور ہمارا جُرم یہ ہے کہ ہماری کوتاہ بینی کے باعث، ہمیں اُن مُفاد پرست عناصِر کا ادراک ہی نہ ہو پایا تھا۔
ہم نے اوپر دو وکلاء کا ذکر کیا۔ اُن کے بارے میں مزید کیا کہیں کہ ایک دور میں وہ سُرخ انقلاب سے نیچے کوئی بات بھی نہ کرتے تھے مگر آج وہ بذریعہ ہٰذا مِن فضلِ ربّی اُسی طبقے میں شامِل میں ہیں، جِن کے خلاف ہماری ساری جِدوجہد ہے۔ خیر، محمود نوازبابر تو پہلے بھی سرمایہ دار تھے مگر دروغ بہ گردنِ راوی، قمر الزماں بٹ صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ نون لیگ میں چلے گئے اور دو مرتبہ ہائیکورٹ بار کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ لڑکپن اور کچی عمر کے اُس دور میں، ان دونوں اصحاب کی شخصیت کا کچھ دوستوں پر خاصا اثر تھا۔
1990 میں داؤد انجیئرنگ کالج کراچی میں مرکزی کونسل سیشن کا منعقد ہونا تھا۔ اِس کونسل سیشن میں اطلاع تھی کی عاصِم علی شاہ مرکزی جنرل سیکریٹری کے لیئے تجویز کیئے گئے ہیں۔ میں ذاتی سطح پر بہت خوش تھا۔ ہم مندوبین زکریا ایکسپریس کے ذریعے، مسعود سرور گوندل کی قیادت میں کراچی پہنچے۔ قمر الزماں بٹ بھی ہمارے ہمراہ تھے۔عاصم علی شاہ کونسل سیشن کی تیاریوں کے سلسلہ میں کچھ دن پہلے ہی ملتان سے کراچی روانہ ہو چکے تھے۔
این ایس ایف کے کارکنان جانتے ہیں کہ اوپن سیشن سے پہلےمرکزی کمیٹی کا اجلاس اور اگلے دن ایک کلوزڈ سیشن ہوا کرتا ہے۔ قمر زمان بٹ اور مسعود سرور گوندل نے مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ واپسی پر انکے اترے جہرے دیکھ کر ھم سمجھے شائد کئی گھنٹے جاری رہنے والے اس اجلاس کی تھکاوٹ ہو گی۔ لیکن کلوزڈ سیشن سے پہلےکی رات کوقمر زمان بٹ اور مسعود سرور گوندل نےہمیں سوئے ہوؤں کو اُٹھا کر بتلایا گیا کہ عاصِم علی شاہ امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں، لہٰذہ کل ہم کلوزڈسیشن کا بائیکاٹ کریں گے۔ بدقسمتی سے ہم میں کِسی نے بھی یہ سوال نہ اُٹھایا کہ اچانک یہ خبر اُن کو کیسے مِلی اور اِس کے سچے ہونے کے کیا شواہِد ہیں؟؟ بَس، ہم نے اگلے دِن کونسل سیشن کابایئکاٹ کیا اور مسعود سرور گوندل ہمیں اور دیگر کوایک اور سستے ہوٹل میں لے گئے۔ ہم نے یہ سوال بھی نہ اُٹھایا کہ اگلے ہفتے ہمارا کراچی میں رہنے کا، کھانے پینے اور گھومنے پھرنے کا خرچ کِس نے اُٹھایا کہ مسعود گوندل یا ہم سب تو یہ اخراجات برداشت کرنے کے قابِل ہی نہ تھے۔ یہ تفصیل ذائد از ضرورت ہو گی کہ اخراجات صرف قمر الزماں بٹ ہی کر سکتے تھے۔ گوندل اور بٹ صاحب کی، تنظیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی، تنطیم کی رکنیت سے معطلی اور بعد ازں ہونیوالی بر طرفی کا قِصہ ہم بعد میں تفصیلاً لِکھیں گے۔
سو، دوستو، ہم واپِس آگئے اور بنیادی تنظیم سے کٹ گئے۔ مگر کام جاری رکھا۔ ہماری نظریاتی رہنمائی اب قمر الزماں بٹ کر رہے تھے۔ پہلے پہل ہمارا کام مزدوروں میں بند ہو گیا۔ بعد ازاں طلبہ میں ہماری مقبولیئت رفتہ رفتہ گِرتی گئی۔ اِسلامی جمعیت طلبہ نے اِس کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور ہم پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کر دیا گیا۔ مسعود گوندل اور ہم پر اُن کی خاص نظرِکرم تھی۔
پھِر ایک دِن پتہ چلا کہ مسعود گوندل کو کسی غیر قانونی اور ممنوعہ سرگرمیوں میں، جو کہ سیاسی نہیں تھیں، ملوث ہونے کے شبہ میں ایجنسیوں نے اُٹھا لیا ہے۔ میں اُس وقت ہر روز کی مار کھانے سے بے دم ہو کر ایک پرایئویٹ ادارے میں کام کر رہا تھا۔ شام کو میرے دفتر میں بھی ایک آئی بی کے افسر تشریف لائے اور اپنا نام غالباً اشتیاق بتایا۔ اُس افسر نے مُجھ سے مسعود گوندل کا پوچھا اور میرا اوُپر سے نیِچے تک بغور مطالعہ کرنے کے بعد گویا ہوا کہ۔۔۔۔
You seem to be a gentleman. So, I am not arresting you. But you have to appear in my office by tomorrow. 10.00 A.M, sharp
ہم نے حسبِ حکم ۱۰ بجے حاضری دی اور اُن اپنے جنٹلمین ہونے کا ثبوت دیا اور گرفتاری سے بچ گئے۔
اِس کے بعد مُلتان میں این ایس ایف گوندل گروپ ختم ہو گئی۔
صاحِبو، اُس دِن کے بعد ہم نے نہیں سُنا کہ کبھی مُلتان میں این ایس ایف کا قیام ہؤا ہو۔ وہی این ایس ایف جو کبھی عاصم شاہ کی رہنمائی میں ڈیرہ غازی خان اور پوری ملتان ڈویژن میں پھیل چُکی تھی معدوم ہوتی چلی گئی۔
مگر اب بھی کہیں نہ کہیں کُچھ لوگ تھے، جو اب بھی اپنے حِصے کی شمع جلا کر جانا چاہتے تھے۔ مگر ہمارا اُن سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ہم نے صحافت چھوڑ دی اور سرمایہ داروں کے ہاں نوکری کرنے لگا۔ اب کوئی گروپ تو تھا نہیں، سو ہم نے شادی کر لی اور ایک میکنِکل ذندگی گزارنا شروع کر دی۔
پھِر یوں ہوا کہ ۳۰ نومبر2004 کو ہماری بیٹی کی وفات ہوگئی اور ہم نے لاہور چھوڑ دیا۔ کُچھ دیر مُلتان میں کام کیا مگر بہت مہارت رکھنے، ایوارڈز وصول کرنے اور بہت نام اور روپیہ کمانے کے باوجود ہم سے کام نہیں ہو پا رہا تھا۔ ہم ایک تذبذب میں تھے کہ ہم آخِر اِس دنیا میں کیوں پھینکے گئے۔ پھِر قدرت نے ہماری وجہء پیدایش ہم پر منکشف کر ہی دی۔
وہ خانیوال کی ایک شام تھی اور نومبر کا مہینہ تھا۔ تلخیء مے میں ذرا تلخیء دِل گھُلی ہوئی تھی اور دو دِن بعد یومِ حسن ناصِر تھا۔ ہم اکیلے تھے ۔۔۔ صاحِبو، ایک دم اکیلے جب ہم نے فیصلہ کیا کہ خانیوال میں یومِ حسن ناصِر منایا جائے گا۔ دو دِن کے اندر اندر اپنے کُچھ مزدور دوستوں سے رابطہ کیا گیا اور ہم نے اپنے گھر کے لان میں یومِ حسن ناصِر برپا کیا۔ اِس پروگرام کی ویڈیو اب بھی ہمارے فیس بُک پر موجود ہے۔ آپ کے پاس چند مِنٹ ہوں تو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
جب اِس ویڈیو کو فیس بُک پر شیئر کیا تو تقریباً تمام دوستوں سے رابطہ بحال ہو گیا۔ مگر اُن دوستوں میں کوئی قمر الزماں بٹ، کوئی صلاح الدین گنڈاپوریا کوئی محمود نواز بابر نہ تھا۔ اگر کوئی تھا تو عاصم علی شاہ یا پھر وہی لوگ جو اُس وقت بھی ڈاکٹر رشید حسن خان اور اپنی بنیادی تنظیم سے جڑے رہے تھے اور آج بھی جُڑے ہوئے ہیں۔
ہم اِس حوالے سے این ایس ایف ۔ آذاد بنانے والوں کو یہی کہنا بتانا چاہتے ہیں کہ بنیادی تنظیم سے علیحدہ ہو کر ایسا ہی کام کیا جا سکتا ہے جیسا ہم نے کیا۔ یعنی کُچھ نہیں کیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اگر کُچھ نوجوان، آج اپنی ہی بنیادی تنظیم سے علیحدہ ہوئے ہیں تو اِس میں دوسرے گروپ کے کارکنان کی کوئی کوتاہی نہیں ہو گی۔ یقیناً ہو گی۔ مگر جو لوگ علیحدہ ہو رہے ہیں یا ہو چُکے ہیں، اُن سے گذارِش ہے کہ تاریخ سے سیکھیں۔ اگر کوئی منفی رویّہ اُن کو درپیش ہے تو اُس کا مقابلہ تنظیم کے اندر رہ کر کریں۔ ہمیں ذاتی سطح پر یقین ہے کہ این ایس ایف آذاد کے ساتھی بھی ڈاکٹر رشید حسن اور حسن ناصِر کے افکار پر چلنے والے لوگ ہیں اور اِسی لیئے ہمیں دُکھ ہے کہ اِن انقلابی ساتھیوں کی تمام جِدوجہد رائگاں جائے گی، ایک ایسے شجر کی طرح کہ جو تناور ہوا تو اُس نے اپنی جڑ سے ہی اپنا رابطہ منقطع کر دیا۔ ہمیں افسوس ہو گا اِس طرح تاریخ اِن جیالوں کا نام بھی صلاح الدین گنڈاپور، قمر الزماں بٹ، محمود نواز بابر اور مسعود سرور گوندل اور ان جیسے لوگوں کے ساتھ لِکھے گی۔ یعنی جب کبھی پاکِستان کی انقلابی تاریخ لِکھی گئی تو ہمارے اِن دوستوں نام بھی نہ ہو گا داستانوں میں۔
اور اِس ضمن میں تنظیم سے میری یہی توقع ہے کہ وہ جمہوری مرکزیت پر مبنی اپنا ڈسپلن قطعی نہ چھوڑے مگر، جو لوگ خود تنقیدی کی جُرآت کریں، انہیں مکمّل موقع دیا جائے کہ وہ ترقی پسند تحریک میں اپنا کِردار ادا سکیں۔ تاکہ اُن کا تزکرہ بھی یونہی کیا جائے جیسے آج ہم نے بطور ایک لِکھاری عاصِم علی شاہ کا ذکر کیا ہے، وہی عاصِم علی شاہ جو ہم سے بِچھڑنے کے بعد بھی تنظیم میں وہ اعتماد رکھتے تھے کہ اب تک وہ این ایس ایف تاریخ میں واحِد ہیں جو این ایس ایف پاکستان کے دو مرتبہ مرکزی جنرل سیکرٹری بنے۔
ہم اِس حوالے سے این ایس ایف ۔ آذاد بنانے والوں کو یہی کہنا بتانا چاہتے ہیں کہ بنیادی تنظیم سے علیحدہ ہو کر ایسا ہی کام کیا جا سکتا ہے جیسا ہم نے کیا۔ یعنی کُچھ نہیں کیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اگر کُچھ نوجوان، آج اپنی ہی بنیادی تنظیم سے علیحدہ ہوئے ہیں تو اِس میں دوسرے گروپ کے کارکنان کی کوئی کوتاہی نہیں ہو گی۔ یقیناً ہو گی۔ مگر جو لوگ علیحدہ ہو رہے ہیں یا ہو چُکے ہیں، اُن سے گذارِش ہے کہ تاریخ سے سیکھیں۔ اگر کوئی منفی رویّہ اُن کو درپیش ہے تو اُس کا مقابلہ تنظیم کے اندر رہ کر کریں۔ مُجھے ذاتی سطح پر یقین ہے کہ این ایس ایف آذاد کے ساتھی بھی ڈاکٹر رشید حسن اور حسن ناصِر کے افکار پر چلنے والے لوگ ہیں۔ اور اِسی لیئے ہمیں دُکھ ہے کہ اِن انقلابی ساتھیوں کی تمام جِدوجہد رائگاں جائے گی، ایک ایسے شجر کی طرح کہ جو تناور ہوا تو اُس نے اپنی جڑ سے ہی اپنا رابطہ منقطع کر دیا۔ ہمیں افسوس ہو گا اِس طرح تاریخ اِن جیالوں کا نام بھی صلاح الدین گنڈاپور، قمر الزماں بٹ، محمود نواز بابر اور مسعود سرور گوندل جیسے لوگوں کے ساتھ لِکھے گی۔ یعنی جب کبھی پاکِستان کی انقلابی تاریخ لِکھی گئی تو ہمارے اِن دوستوں نام بھی نہ ہو گا داستانوں میں۔
اور اِس ضمن میں تنظیم سے میری یہی توقع ہے کہ وہ اپنا ڈسپلن قطعی نہ چھوڑے مگر، جو لوگ خود تنقیدی کی جُرآت کریں، انہیں مکمّل موقع دیا جائے کہ وہ تاریخ میں اپنا کِردار ادا سکیں۔ اُن کا تزکرہ بھی یونہی کیا جائے جیسے آج ہم نے بطور ایک لِکھاری عاصِم علی شاہ کا ذکر کیا ہے، وہی عاصِم علی شاہ جو این ایس ایف تاریخ میں واحِد ہیں جو دو مرتبہ این ایس ایف پاکستان کے دو مرتبہ مرکزی جنرل سیکرٹری بنے۔ وگرنہ اِن ساتھیوں کی اناپرستی کا فائدہ ہمیشہ کی طرح رجعت پسندوں کو ہی ہو گا اور ہماری طرح بیس برس بعد وہ بھی کچھ ایسسا ہی اعترافی نوٹ لکھ رہے ہونگے۔
فیس بک کمینٹ