عرف عام میں دی جانے والی گالی کیا ہے؟ الفاظ کا وہ غیر مرئی پتھر جو اپنے ہدف کی روح تک کو سنگسار اور چھلنی کردیتا ہے اور اس کی چوٹ بھی سینے کے وار سے زیادہ گہری اور پردرد ہو تی ہے۔یا دوسرے لفظوں میں وہ دشنام بردار کی ذہنیت اور ناآسودہ خواہشات کی وہ ’’مجسم‘‘ صورت ہوتی ہے جو گندگی میں لتھڑے اس کے خیالات کو لفظوں میں ڈھال کر اس کے منہ سے رستی ہے۔علاوہ ازیں اس کی معنویت کو دیکھتے ہوئے کہ جس طرح سے اس میں عورت کی بے حرمتی اور تذلیل کی جاتی ہے اس کے پیش نظر گالی کو زنا بالجبر کی کمترین صورت کہنا بھی بے جا نہ ہوگا۔گالی پر کیونکہ کوئی حد یا دفعہ لاگو نہیں ہوتی اس لیے ہماری سوسائٹی میں اسے قبولیت کا درجہ حاصل ہے۔
بقول شاعر
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بسا اوقات محض زبان کے چٹخارے کیلئے ہی اس کا کھلا استعمال کیا جاتا ہے۔چنانچہ بات بے بات گالی کی آڑ میں خود لذتی اور تسکین حاصل کرکے اپنی نا آسودہ خواہشات کی تکمیل کی جاتی ہے۔گالی کا استعمال غصے اور نفرت میں تو ہوتا ہی ہے مگر دوستی میں بھی لگاوٹ اور بے تکلفی کا اظہار جب تک گالی کے پیرائے میں نہ کیا جائے جگری دوستی میں گویا ایک تکلف اور حجاب مانع ہوتا ہے۔اکثر اوقات گفتگو کو پُر لطف بنانے کے لیے بھی پے در پے گالیوں کا استعمال کیا جانا عام ہے۔
گالی کی زد یا لپیٹ میں کچھ رشتے خوامخواہ ہی آجاتے ہیں جیسے کہ ماں، بہن اور بیٹی وغیرہ۔اگر غور کریں تو ان خونی رشتوں کے علاوہ عورت سے خود استوار کیے جانے والے رشتے محبوبہ یا بیوی کا رشتہ اس زد میں ذرا کم ہی آتا ہے۔پدر سری معاشرے میں عورت کی تحقیر کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ تمام تر گالیوں میں صرف اور صرف عورت ہی کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں یا پھر گفتگو کی فریکونسی آپ کسی بھی موضوع پر کیوں نہ سیٹ کرلیں بینڈ ہمیشہ عورت کا ہی بجایا جاتا ہے۔اس ضمن میں اس کے بعض اعضاء کو بھی بلا جھجک ملوث کرلیا جاتا ہے۔اکثر حضرات تو گفتگو میں اختصار پیدا کرنے کے لیے بھی ایک گالی کا سہارا لے کر گویا دریا کو کوزے میں بند کردیتے ہیں گویا ایک گالی بلا کی بلاغت، رنگینی، چاشنی اور خود لذتی جیسے تمام لوازمات سے مزین ہوتی ہے۔ بہت سی گالیاں تو ضرب المثل کا درجہ حاصل کرکے زبان زد خاص و عام ہیں۔
مرد کی دو رُخی شخصیت دیکھیں ایک طرف تو وہ وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ بھرتا ہے اس کی ٹھوڑی کے تل سے لے کر اس کی آنکھوں کی مستی میں ڈوب ڈوب جاتا ہے تو دوسری طرف گالی کے ذریعے اسی عورت کے وجود کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اس کی عزت نفس کو پامال اور دو کوڑی کا کرکے شرم سے نہیں ڈوب مرتا۔ہمارے معاشرے میں احساس سے عاری عورت کا المیہ دیکھیں کہ اسے اپنی ہتک اور تذلیل کا احساس تک نہیں ہوتا اور وہ اسے مرد کی مردانگی سمجھتے ہوئے۔ اپنے ہونٹوں پر چپ کی مہر لگائے صدیوں سے سب کچھ سہتی چلی آرہی ہے یہ اس وقت بھی زبان نہیں کھولتی جب گالی کا ہدف چاہے مرد ہی کیوں نا ہو تختہ مشق ہمیشہ عورت ہی ہوگی بخیئے ہمیشہ عورت ہی کے ادھیڑے جائیں گے۔گالی کی اختراع یا تخلیق کا سہرا یقیناًمرد کے سر جاتا ہے کیونکہ آج تک کسی بھی گالی میں مرد کے ساتھ زنا یا اس کی بے حرمتی کرکے اس کے تقدس کو پامال نہیں کیا گیا کسی ایک گالی میں بھی باپ، بھائی یا بیٹے کی عزت نفس کو مجروح کرکے اس کی مردانگی کو دو کوڑی کا نہیں کیا گیا۔چنانچہ معاشرے کے انہی رجحانات اور رویوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ گالی اپنی بقاء کیلئے ہمیشہ وجود زن ہی کی مرہون منت رہے گی مگر کیوں؟آج کے ترقی یافتہ دور میں زندگی کے کئی شعبوں میں مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ جانے والی، زندگی کے ہر قدم پر مرد کے شانہ بشانہ چلنے والی اور حقوق نسواں کیلئے نبرد آزما عورت کے ذہن میں شاید آج تک اپنے دیگر کئی حقوق کی طرح یہ خیال ہی پیدا نہیں ہوا کہ وہ گالیوں میں خود کو ملوث کرنے کی پاداش میں مرد کیلئے کسی سزا کا مطالبہ کرسکے آج جہاں وہ بہترین ادب تخلیق کرکے اپنی توقیر میں اضافہ کررہی ہے وہاں وہ اپنے ذہن کی زرخیزی اور اپنی خدا داد صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے مردوں کیلئے نئی نئی گالیوں کی اختراع کیوں نہیں کرسکتی اسے بھی چاہئے کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کیلئے خود کو تیار کرے اور مر د کی ہر گالی کے جواب میں اس سے زیادہ بڑی اور سنگین گالی تیار رکھے اس طرح وہ کم از کم خود کو مظلومیت کا شکار ہونے سے بچاسکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں نا جس تن لاگے سو تن جانے
اس طرح شاید اپنی تذلیل سے مرد کے دل میں عورت کی تذلیل کا احساس بیدار ہوجائے اور وہ عورت کی عصمت اور توقیر کا لحاظ کرنے لگے۔
فیس بک کمینٹ