لکھیم پور میں کسان کشی سانحہ اور حکومتی عہدیداروں کی اشتعال انگیز تقریریں اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ بی جے پی کے اقتدار کے دن پورے ہوگئے ہیں ۔کسانوں کے مطالبات کی اَن دیکھی اور ان کے خلاف سرکار کاغیر منصفانہ رویہ حیرت ناک ہے ۔سرکار لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے وجود میں آتی ہے ،ان کی پریشانیوں اور مسائل میں اضافے کے لیے نہیں ! مگر جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے دن بہ دن بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔خاص طورپر کسانوں کے ساتھ جس طرح ناانصافی کی جارہی ہے اس نے ملک کے عوام پر بی جے پی کی اصلیت ظاہر کردی ہے ۔
سال گذشتہ نومبر کے مہینے میں کسانوں نے نئے زرعی قوانین کے خلاف تحریک شروع کی تھی ۔اس عرصے میں کبھی یہ محسوس نہیں ہواکہ حکومت کسانوں سے مذاکرات کے حق میں ہے ۔وزیر زراعت تو وزیر اعظم کے اشارے کے بغیر اُف بھی نہیں کرسکتے ،لہذا کسانوں کی حق تلفی اور ان پر ہورہے مظالم کی ذمہ داری صرف اور صرف وزیر اعظم پر عائد ہوتی ہے ۔اقتدار پر غلبہ سے پہلے وزیر اعظم اپنی ہر تقریر میں کسانوں کے مفادات کی بات کرتے تھے مگر اقتدار ملنے کے بعد ان کے سُر بد ل گئے ۔اب انہیں کسانوں پر ہورہے ’اتیا چار ‘ نظر نہیں آرہے ہیں ۔وہ کسان جسے وزیر اعظم ملک کا ’ان داتا ‘ کہتے تھے اب ’آندولن جیوی ‘ ہوگیاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم مودی چاہتے تو کسانوں کے مسائل کو حل کیاجاسکتا تھا ۔کیا نئے زرعی قوانین کسانوں کی جانوں سے زیادہ اہم ہیں ؟اگر یہ مان لیا جائے کہ کسان نئے زرعی قوانین کی اہمیت کو نہیں سمجھ پارہے ہیں ،تو کیا انہیں سمجھانے کی کوشش کی گئی ؟افہام و تفہیم کے مختلف طریقے اختیار کیے جاسکتے تھے ،لیکن کسانوں کے خلاف ’گودی میڈیا ‘ کے ذریعے ایسا ماحول تیار کیا گیا کہ اندھ بھکت’ ان داتائوں ‘کو ملک کا دشمن اور غدار کہنے لگے۔خیر یہ کوئی نئی بات نہیں ! جو بھی بی جے پی سرکار کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت کرتاہے اس پر ’دیش دروہ ‘ کا الزام عائد کرنا عام بات ہوگئی ہے۔کسی نے زیادہ مزاحمت اور بغاوت کی کوشش کی تو پھر ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کو اس کے پیچھے لگادیا جاتاہے ۔اس لیے کسانوں کو ’گودی میڈیا ‘ اور ’مودی بھکتوں‘ کے اس طرح کے جملوں سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کسانوں کے قتل میں ملوث افراد کی سیاسی پذیرائی ہورہی ہے ۔پولیس چاہتی تو آشیش مشرا کو موقعہ ٔ واردات سے گرفتار کیا جاسکتا تھا ،مگر وہ گاڑی سے کسانوں کو کچل کر فرار ہوگیا اور پولیس تماشادیکھتی رہی۔پانچ دنوں تک پولیس کو آشیش مشرا کا جرم نظر نہیں آیا ۔گودی میڈیا بھی اس کے بچائو میں پوری طرح متحرک دکھائی دیا ۔اس واقعہ کا سارا الزام کسانوں کے سر تھوپنے کی کوشش کی گئی ۔کہا گیا کہ کسان تشدد پر آمادہ تھے ،انہوں نے گاڑیوں کو جلانے کی کوشش کی ،وغیرہ وغیرہ ۔وزیر مملکت برائے امور داخلہ اجے مشرانے بھی بیٹے کو بچانے کے لیے اپنی سیاسی حیثیت کا بھر پور استعمال کیا ۔انہوں نے میڈیا میں بیان دیا کہ آشیش مشرا جائے موقعہ پر موجود نہیں تھا ۔جس وقت یہ حادثہ پیش آیا اس وقت وہ اپنے گائوں میں دنگل دیکھ رہا تھا ۔اگر کچھ لوگوں نے جائے واردات کا ویڈیو موبائل کے ذریعہ نہ بنایا ہوتا ،تو اب تک لکھیم پور کے کسانوں پر سرکار کے غضب کی بجلی گر چکی ہوتی ۔لیکن موبائل کے ذریعہ شوٹ کیے گئے ویڈیوز سے یہ ثابت ہوگیا کہ کسان تشدد پر آمادہ نہیں تھے ۔ویڈیو میں دکھایا گیاکہ کس طرح کسان پر امن طریقے سے احتجاج کررہے تھے کہ پیچھے سے آتی ہوئی گاڑیاں انہیں روند کر آگے بڑھ گئیں ۔ان ویڈیو ز کے بعد سرکار اور پولیس انتظامیہ کو یہ محسوس ہواکہ حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں ۔دوسری طرف سپریم کورٹ نے واقعہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سماعت کا حکم جاری کردیا ۔مجبوراً پولیس کو آشیش مشرا کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے کوتوالی میں حاضرہونے کے لیے نوٹس جاری کرنا پڑا۔حیرت ہے کہ ہماری پولیس جب کسی کو گرفتار کرنے پر آتی ہے تو وہ دیواروں سے پھاند کر گھر میں گھس جاتی ہے ،خواہ وہ گھر سابق وزیر داخلہ پی۔چدمبرم کا ہی کیوں نا ہو ۔اور جب سیاسی دبائو میں گرفتاری سے باز رکھا جاتاہے توپولیس وزیر مملکت کے گھر پر احترام کے ساتھ نوٹس چسپاں کرکے کوتوالی میں آشیش مشرا کے آنے کا انتظار کرتی ہے ۔
ملک کی سلامتی ایجنسیوں اور پولیس انتظامیہ کا حال تویہ ہے کہ اگر اشتعال انگیز بیان کا فرضی ویڈیو بھی وائرل ہوجائے تو بغیر ابتدائی تحقیقات کےفوراً ملزم کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جاتاہے ۔خواہ مہینوں کے ٹرائل کے بعد عدالت میں وہ مقدمہ فرضی ہی کیوں نا ثابت ہوجائے ۔مگر پولیس جو اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے زیادہ سرکار کی وفاداری نبھانےپرتوجہ دیتی ہے ،فرضی وائرل ویڈیوز کی بنیاد پر حکومت کے مخالفوں کو گرفتار کرکے ان پر فرضی مقدمات درج کرتی ہے اورملزمین پر تھانوں میںتشدد کیا جاتاہے ۔پولیس کے اس رویے سے متاثر لوگوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں ڈاکٹر کفیل خان ،کنہیا کمار اور عمر خالد بھی شامل ہیں ۔عمر خالد پر دہلی میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کا الزام ہے ،جسے پولیس عدالت میں ثابت نہیں کرپارہی ہے ۔اسی طرح کنہیا کمار پر جے۔این۔یو ۔کیمپس میں ملک مخالف نعرے بازی کا مقدمہ درج ہے ،جس کو ثابت کرنے میں پولیس کو پسینے چھوٹ رہے ہیں ۔ڈاکٹر کفیل خان تو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے غصے کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ورنہ ان کے خلاف بھی عدالت میں جرم ثابت نہیں ہوسکا ہے ۔ایسے ہی نہ جانے کتنے افراد ہیں جو حکومت کی تنقید کی بنیاد پر پولیس کے تشدد اور انتظامیہ کی ناانصافیوں کا شکار ہیں ۔مگر حیرت اس بات پر ہے کہ وزیر مملکت اجے مشرا ایک جلسے میں کسانوں کو واضح الفاظ میں دھمکی دے رہے ہیں کہ سدھر جائو ورنہ ہمیں سدھارنا آتاہے ۔لکھیم پور کا واقعہ ان کے اسی متشدد بیان کا نتیجہ ہے لیکن پولیس نے اجے مشرا کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ۔اسی طرح ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کسانوں کو سدھارنےکے لیے بی جے پی کارکنوں کو تشدد پر اکساتے نظر آتے ہیں ،لیکن ان کے خلاف بھی پولیس نے کوئی اقدام نہیں کیا ۔دہلی فسادات سے ٹھیک پہلےبی جے پی رہنما کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر ہر خاص و عام کو یاد ہوگی ،مگر کیا کوئی بتا سکتاہے کہ دہلی پولیس نے کپل مشرا کے خلاف کاروائی کی زحمت کی ؟۔ جب تک ہماری پولیس اور قومی تفتیشی ایجنسیاں سرکار کے دبائو میں کام کریں گی تب تک عام آدمی کو انصاف نہیں مل سکتا ۔یہ الگ بات کہ عدالتیں اور ایجنسیاں ہمیشہ ریاست کے زیر اثر ہوتی ہیں ،کیونکہ مسخ شدہ جمہوری نظام کا یہی طریق کار رہاہے۔اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ لکھیم پور میں کسانوں کے قتل پر وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے تعزیتی پیغام تک جاری نہیں ہوا ۔جبکہ انہی دنوں وہ لکھنؤ تشریف لائے تھے مگر لکھنؤ میں بھی انہوں نے لکھیم پور کے کسانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی تک نہیں کیا ،چہ جائیکہ وہ لکھیم پور جاکر متاثرین سے ملاقات کرتے۔وزیر داخلہ امیت شاہ کی اجے مشرا سے ملاقات بھی ختم ہوتی ہوئی جمہوری قدروں کی آئینہ دار ہے ۔جس کا بیٹا کسانوں کے قتل میں شامل تھا ،وزیر داخلہ اسے عہدے سے برطرف کرنے کے بجائے اس کے ساتھ میٹنگ کررہے تھے ،یہ حیرت ناک ہے ۔
اترپردیش اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے لکھیم کا واقعہ سرکار کے گلے کی ہڈی بن گیاہے ۔وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کاروائی کی یقین دہانی کرائی ہے مگر کیا ابھی تک کوئی مناسب قدم اٹھایا گیاہے ؟۔جبکہ یوگی جی کے مطابق اس واقعہ کے پیچھے کسانوں کی سازش تھی ۔آشیش مشرا کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہواہے لیکن جب تک اس کے والد اجے مشرا عہدے پر رہیں گے ،غیر جانبدارانہ کاروائی کی امید نہیں کی جاسکتی ۔اگر سرکار پر اپوزیشن کا دبائو نہ ہوتا تو شاید آشیش مشرا ابھی تک گرفتار نہ کیا جاتا ۔اس پر یہ کہ سپریم کورٹ نے اس واقعہ کا از خود نوٹس لیا کیونکہ سپریم کورٹ کو معلوم تھا کہ کس طرح مجرموں کو بچانے کے لیے سیاسی اثرورسوخ کااستعمال کیا جارہاہے ۔آشیش مشرا کے والد اجے مشرا کا مجرمانہ بیک گرائونڈ رہاہے ۔اس کی تقریر میں بھی اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ اس کا ماضی کتنا داغدار اور مجرمانہ رہاہے۔اس سے بی جے پی کے اس دعویٰ کی بھی قلعی کھل جاتی ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ان کےیہاں مجرمانہ شبیہ کے لوگ موجود نہیں ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ آیا بی جے پی اجے مشرا کو عہدے سے برطرف کرے گی یا کسانوں کے قاتلوں کی سیاسی پذیرائی جاری رہے گی ۔اجے مشرا کو عہد ے سے برطرف کردینا ہی کافی نہیں ہوگا کیونکہ اجے مشرا جرم کی دنیا کا بادشاہ ہے ۔وہ اچھی طرح جانتاہے کہ بیٹے کو بچانے کے لیے کونسا حربہ کہاں استعمال کرنا چاہیے ۔اس لیے سرکار کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو انصاف دلانے کے لیے پوری کوشش کرے ۔
البتہ کسان مخالف سرکار سے یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے ۔
فیس بک کمینٹ