کٹی ہے عمر کھلے آسماں کے نیچے
ہمیں خبر ہے رتیں کس طرح بدلتی ہیں
اس شعر کے خالق جناب خادم رزمی کی آج تیرھویں برسی ہے. وہ ٢٠٠٦ میں دو جنوری کی شام آسمان ادب سے غروب ہوئے مگر ان کا نام اور کلام آج بھی ادبی منظر نامے کو روشن کئے ہوئے ہے ان کی شاعری انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی
ہمیں یہ فخر حاصل ہے کہ خادم رزمی صاحب کا تعلق کبیروالا سے ہے وہ اس سرزمین کے بیٹے اور فخر ہیں انہوں نے اپنے وسیب سے ہمیشہ اپنا رشتہ جوڑ کر رکھا اور کبھی وسیب سے غداری کرنے والوں سے سمجھوتہ نہیں کیا
جنہاں وستی گروی رکھ کے اچیاں پگاں بنیاں نے
اناں لوکاں نال اساڈا مرنا پرنا کوئی نیئں
خادم رزمی کبیروالا کے نواحی گاؤں محمودے والے میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی. بطور استاد محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی اور کافی عرصہ تلمبہ میں پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتے رہے بعد ازاں گورنمنٹ مڈل سکول دارالعلوم عید گاہ کبیروالا میں آگئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے .
اردو ادب سے انہیں شروع سے لگاؤ تھا اور پھر دوران معلمی وہ شعر کہنے لگے تلمبہ کی ادبی فضا اور شاعروں کے حلقہ دوستاں میں شعر گوئی اور ادبی ذوق پروان چڑھتا چلا گیا جناب خادم رزمی کی شاعری ہمیشہ زندہ رہنے والی شاعری ہے . آپ کے کلام میں جہاں محبت کے سب رنگ ملیں گے وہاں وسیب کی.محرومیوں کا نوحہ اور دکھوں کا ذکر بھی ملے گا اپنی ماں دھرتی سے حقیقی ماں کی طرح محبت کرتے تھے اور اسی عشق میں اس پر تحقیق کرتے رہے یہاں کے آثار قدیمہ اور ٹیلوں پر ان کا گراں قدر کام موجود ہے اور جب کبھی ہم ان سے اس موضوع پر بات کرتے تو پھر معلومات کے خزانے کا منہ کھل جاتا اور ہم اس سے فیض یاب ہوتے رہتے .
خادم رزمی صاحب ایک روایت پسند,وضع دار اور دوستی اور تعلقات کو اہمیت دینے والے انسان تھے جن افراد یا گھرانوں سے تعلق بنا اپنی وفات تک اسے نبھاتے رہے میرے خالو مرحوم سید راحت حسین راحت جو خود بھی ایک قادرالکلام شاعر تھے سے ان کی دوستی بنی تو ان کی وفات کے بعد بھی ان کے بچوں کے ساتھ تعلق باقی رکھا اور اپنی موت تک مسلسل نبھایا ہمارے گھر سے بھی ایک محبت بھرا تعلق تھا میرے بڑے بھائی جان قمر رضا شہزاد کے ساتھ عمر کے فرق کے باوجود دوستی کا رشتہ تھا اور شعر گوئی تو دونوں میں مشترک تھی مگر مجھ سے بھی خاص انس رکھتے اور اکثر اوقات مجھ بلاتے اور گفتگو کرتے تھے
ان کا کلام کافی زیادہ غیر مطبوعہ ہے تاہم ان کی زندگی میں 1991میں اردو شاعری پر مشتمل "زرخواب” اور 1994میں پنجابی شاعری پر مشتمل "من ورتی” شائع ہوا جسے وارث شاہ ہجرہ ایوارڈ 1994اور خواجہ فرید ایوارڈ 1998مل چکا ہے
خادم رزمی صاحب ہر مشاعرے کی زینت ہوتے اور تمام ادبی جرائد میں ان کا کلام شائع ہوتا
وہ ظلم و جبر سے نفرت کرتے تھے اور کربلا اور حسینیت کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے تھے ان کی شاعری میں بھی اس کے حوالے ملتے ہیں کبیروالا کے ادبی منظر نامہ پر وہ اپنی تمام تر ادبی وجاہت اور جاندار شاعری کے ساتھ موجود رہے نثار ساجد سےان کی محبت بہت زیادہ تھی اور اتفاق ایسا دیکھیئے کہ دونوں ایک ہی دن دنیا سے رخصت ہوئے
نمو نہ کلام
میں اکیلے پن کا مارا گھر سے نکلا تھا مگر
رونقِ بازار تو نے اور تنہا کر دیا
شکریہ ! اے تلخیؑ حالات ‘ اے موجِ بلا
تو نے ھر اپنے پرائے سے شناسا کر دیا
جب بھی دیکھا دوستوں کو ھاتھ میں پتھر لئیے
ھم نے رزمی ! اُن کے آگے اپنا چہرہ کر دیا
سمجھا ھے جسے تُو ‘ مری زنجیر سے اٹھا
یہ حشر تو انصاف میں تاخیر سے اٹھا
ھمارے سر سے کڑی دھوپ اور جائے کہاں
اسے خبر ھے کہ ھم سائباں نہیں رکھتے
غلط نہ سوچ کہ جسموں پہ چیتھڑوں کے ساتھ
ھم ایسے لوگ کوئی داستاں نہیں رکھتے
ھمارا ظرف ھمیں بولنے نہیں دیتا
وہ کم نگاہ کہے ھم زباں نہیں رکھتے
چلیں زمین پہ کچھ لوگ اس طرح جیسے
سروں پہ اپنے کوئی آسماں نہیں رکھتے
عطا ھوا ھے سفر گہرے پانیوں کا انہیں
جو لوگ خواب میں بھی کشتیاں نہیں رکھتے
وہ سب چراغ جلائے ھوئے ھمارے ھیں
جو شعلہ رکھتے ھیں لیکن دھواں نہیں رکھتے
بس ایک خواب بکھرنے کے انتظار میں ھیں
طویل ھم کوئی کارِ جہاں نہیں رکھتے
تمام دیس ھی اپنا ھے اس لئے رزمیؔ
کسی بھی شہر میں اپنا مکاں نہیں رکھتے