مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے وقت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ محترمہ کی موت طبعی طریقے سے نہیں ہوئی بلکہ انہیں قتل کیا گیا تھا۔ جنوری 1972 میں غلام سرور نامی ایک شخص نے محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے عدالت میں ایک درخواست سماعت کے لیے دائر کی۔ اس درخواست کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ ممتاز محمد بیگ نے ایک شخص غلام سرور ملک کی دفعہ 176 ضابطہ فوجداری کے تحت درخواست کی سماعت کے لیے 17جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے۔
غلام سرور ملک نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ میں پاکستان کا ایک معزز شہری ہوں اور محترمہ فاطمہ جناح سے مجھے بے انتہا عقیدت ہے، مرحومہ قوم کی معمار اور عظیم قائد تھیں۔ انہوں نے تمام زندگی جمہوریت اور قانون کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی۔ 1964 میں جب انہوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تو وہ عوام کی امیدوں کا مرکزبن گئیں۔ وہ اس ٹولے کی راہ میں جو ہر صورت اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا تھا، زبردست رکاوٹ تھیں اور یہ ٹولہ ہر قیمت پر ان سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔
7 جولائی 1964 کو محترمہ فاطمہ جناح رات کے گیارہ بجے تک ایک شادی میں شریک تھیں اور وہ ہشاش بشاش تھیں جبکہ 9 جولائی کو اچانک یہ اعلان کر دیا گیا کہ وہ انتقال کر گئیں ہیں۔ ان کی تجہیز و تکفین کے وقت عوام کو جنازے کے قریب نہیں جانے دیا گیا اور یہاں تک کہ انہیں سپرد خاک کرنے تک ان کے آخری دیدار کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ اس دوران جو آخری دیدار کرنا چاہتے تھے ان پر لاٹھی چارج کیا گیا اور آنسو گیس پھینکی گئی۔ اس وقت بھی یہ افواہیں عام تھیں کہ محترمہ فاطمہ جناح کے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں لیکن ان افواہوں کو دبا دیا گیا۔ غلام سرور ملک نے اپنی درخواست میں کہا کہ مجھے یہ تشویش رہی کہ محترمہ فاطمہ جناح کو کہیں قتل نہ کیا گیا ہو۔ بعد ازاں حسن اے شیخ اور دیگر معزز ہستیوں نے اس سلسلے میں اپنے شک و شبہ کا اظہار بھی کیا تھا اور یہ معاملہ اخبارات میں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا اور اداریے بھی لکھے گئے۔
2 اگست 1971 میں ایک مقامی اردو روزنامے میں یہ خبر شائع ہوئی کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا ہے۔ اس خبر میں غسل دینے والوں کے بیانات بھی شائع ہوئے، جس میں ہدایت علی عرف کلو غسال نے یہ کہا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے جسم پر زخموں کے گہرے نشانات تھے اور ان کے پیٹ میں سوراخ بھی تھا جس سے خون اور پیپ بہہ رہی تھی۔ غسال نے کہا تھا کہ محترمہ کے خون آلود کپڑے اس کے پاس موجود ہیں، لیکن اس وقت کی حکومت نے نہ تو اس کی تردید کی اور نہ ہی اس معاملے میں انکوائری کی ہدایت کی گئی۔ اس کے علاوہ اس معاملے کی دیگر غسالوں نے بھی تصدیق کی تھی۔
غلام سرور ملک نے اس سلسلے میں اخبارات کی کاپیاں بھی ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کی ہیں انہوں نے اپنی درخواست کے آخر میں عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے خصوصی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں عدالتی تحقیقات کرے، اس مقدمہ میں اختر علی محمود ایڈووکیٹ پیروی کر رہے ہیں۔
فاطمہ جناح مادرِ ملت ہیں، اور ان کے جنازے اور تدفین میں ہونے والی یہ بدمزگی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے، اس لیے ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ اسے اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پڑھنے والوں کی خدمت میں مکمل تحقیق کے بعد تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کریں، تاکہ کوئی سقم باقی نہ رہ جائے۔
اس مضمون سے ہمارا مقصد کسی بھی شخص، فرد، یا ادارے پر انگلی اٹھانا نہیں۔ ہم نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ خدانخواستہ انہیں قتل کیا گیا، اور نہ ہی یہ کہ اس ساری بدمزگی سے کسی نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ہمارا مقصد صرف ان حقائق کو سامنے لانا تھا جن سے آج کے نوجوانوں کی بڑی تعداد لاعلم ہے۔ ہاں ایک اور سوالیہ نشان یہ ہے کہ جن تحقیقات کے وعدے کیے گئے تھے، وہ وعدے کیا ہوئے؟
(بشکریہ : ڈان اردو)