حماس کی طرف سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن معاہدہ کو جزوی طور سے قبول کرنے کے بعد غزہ میں جنگ بندی اور مشرق وسطیٰ میں امن کی امید پیدا ہوئی ہے۔ اگرچہ گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے ایک درشت پیغام میں حماس کو متنبہ کیا تھا کہ اگر اتوار کی شام تک امن معاہدہ منظور نہ کیا گیا تو اسے سخت نتائج کا سامناکرنا پڑے گا۔
اس کے تھوڑی دیر بعد ہی حماس کا یہ اعلان سامنے آگیا تھا کہ وہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے اور غزہ کے انتظام سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہے تاہم ٹرمپ منصوبہ میں حماس کے غیر مسلح ہونے اور تمام عسکری ڈھانچے کو تباہ کرنے کے معاملہ پر حماس کے بیان میں کوئی واضح مؤقف نہیں دیا گیا بلکہ بعض نکات پر مزید بات چیت کا تقاضہ کیا گیا ہے۔ اس بیان کے بعد صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو جنگ بند کرنے کا مشورہ دیا تھا اور حماس کی طرف سے امن کا انتخاب کرنے کی توصیف کی تھی۔ امن معاہدہ کا اعلان کرتے ہوئے اگرچہ یہی تاثر دیا گیا تھا کہ ٹرمپ کی طرف سے یہ ’حرف آخر‘ ہے اور اس میں کسی بات چیت کی گنجائش نہیں ہے لیکن اب ٹرمپ کے خیر مقدمی بیان سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی حکومت اس پیچیدہ صورت حال میں معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے لیے بات چیت کی اہمیت کو تسلیم کررہی ہے۔
اسرائیلی حکومت کی طرف سے بھی ایسے اشارے موصول ہوئے ہیں جہاں نیتن یاہو کی حکومت نے اپنے مذاکراتی وفود کو بات چیت کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ بات چیت کہاں اور کب ہوگی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق حکومت نے جنگی کارروائیاں روکنے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں اور فوج سے کہا گیا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے تیار رہیں۔ تاہم حماس کے اعلان کے باوجود آج رات کے دوران اسرائیلی حملے جاری رہے تھے جن میں درجن بھر کے لگ بھگ فلسطینی جاں بحق ہوئے تھے۔ حماس کے بعد اس کی معاون تنظیم اسلامی جہاد نے بھی مشروط طور سے امن معاہدہ قبول کرنے کا اعلان کیاہے۔ اس وقت حماس کے قبضے میں 48 اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں۔ ان میں سے 20 زندہ ہیں جبکہ 28 فوت ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل نے بھی سینکڑوں فلسطینیوں کو قید میں رکھا ہؤا ہے ۔ اس کے علاوہ اس کے پاس درجنوں لاشیں بھی موجود ہیں جو معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں وارثوں کے حوالے کی جائیں گی۔
غزہ کے خلاف اسرائیل کی جارحانہ جنگ جوئی 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے متعدد حملوں کے بعد شروع ہوئی تھی۔ ان اچانک حملوں میں جو زمینی، بحری اور فضائی راستوں سے بیک وقت کیے گئے تھے، 1200 کے لگ بھگ اسرائیلی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ حملہ آور تین سو سے زائد افراد کو یرغمالیوں کے طور پر ہمراہ لے گئے تھے۔ دو سالہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج غزہ کے کونے کونے میں حملے کرنے اور وہاں پہنچنے والی ہمہ قسم امداد روکنے کے باوجود کسی یرغمالی کو رہا کرانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ بلکہ اس سے پہلے بھی حماس کے ساتھ ایک عبوی جنگ بندی معاہدے کے تحت ہی یرغمالیوں کو رہا کرایا گیا تھا۔ حماس اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے کے لیے باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادہ نہیں تھی جبکہ اسرائیلی حکومت پر ان لوگوں کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔
عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف شدید احتجاج کیاجارہا تھا لیکن امریکہ نے مسلسل اسرائیل کی حمایت جاری رکھی۔ برطانیہ سمیت متعدد مغربی ممالک نے اسرائیلی جارحیت سے عاجز آکر گزشتہ ماہ کے دوران فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کا اعلان کیا تھا ۔البتہ حماس پر بھی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھتا رہا ہے۔ اسرائیل نے دو سالہ جنگ جوئی میں 67 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کیا جن میں بہت بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔ اقوام متحدہ غزہ میں بھوک سے مرنے والوں میں اضافہ کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے ، وہاں کی صورت حال کو نسل کشی قرار دے چکی ہے۔
ٹرمپ معاہدہ کے تحت جنگ بندی کے لیے حماس کو سیاسی و انتظامی اقتدار سے محروم کیا جائے گا اور اس کے سب کارکنوں کو غیر مسلح کرکے انہیں عام معافی دی جائے گی۔ حماس نے اس نکتے پر اتفاق کا اعلان نہیں کیا ۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل کے لیے حماس کو غیر مسلح کرنا اس سارے منصوبے کا بنیادی نکتہ ہے جس میں اب پاکستان سمیت 8 عرب اور مسلمان ممالک بھی ٹرمپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ گزشتہ شام حماس کی طرف سے سامنے آنے والا اعلان درحقیقت اس ساری مدت میں ثالثی کرانے والے ممالک قطر، مصر اور ترکیہ کے دباؤ کی وجہ سے تیار ہؤا ہے۔ حماس کی صفوں میں مستقبل کے بارے میں اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ غزہ سے باہر حماس کے لیڈر معاہدے کو من و عن قبول کرنے پر تیار ہیں لیکن غزہ میں مسلسل ڈٹے ہوئے مسلح کارکن اور ان کے کمانڈر ان میں سے متعدد نکات پر نالاں ہیں۔ لیکن اب شاید ان لوگوں کےپاس مزاحمت کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ حماس کے لیڈروں کی طرف سے غیر مسلح ہونے کے علاوہ اسرائیلی فوجوں کے انخلا کے حوالے سے بھی تحفظات سامنے آئے ہیں۔ حماس اسرائیلی فوجوں کی مکمل اور فوری واپسی کا مطالبہ کررہی ہے جبکہ ٹرمپ منصوبہ کے تحت سرائیلی فوجیں بتدریج واپس جائیں گی۔ لیکن انخلا کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔
حماس کے لیڈروں کو یہ اندیشہ بھی ہے کہ معاہدہ ہونے کے باوجود اسرائیلی ایجنٹ انہیں قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے حماس کی طرف سے یہ گارنٹی مانگی جارہی ہے کہ غزہ یا دوسرے ملکوں میں حماس کے لیڈروں پر حملے کرکے انہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہ ممکن ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اعتماد کا ماحول پیدا ہو اور اسرائیل و امریکہ غزہ سے اسرائیلی فوجوں کی واپسی کے کسی ٹائم ٹیبل پر متفق ہوجائیں۔ اور حماس کے لیڈروں کو زندگی کی ضمانت بھی دی جائے۔ البتہ اس کے بدلے حماس کو ہر صورت میں ہتھیار پھینکنا پڑیں گے۔ گو کہ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا عمل کیسے اور کتنی دیر میں مکمل ہوگا۔ یہ گروہ مختلف ٹکروں میں بٹا ہؤا ہے اور دو سالہ اسرائیلی جنگ جوئی کے دوران ان گروہوں میں مواصلت و رابطہ بھی شدید متاثر ہؤا ہے۔ حماس کے جنگ جوؤں کی بعض ٹکڑیاں معاہدہ ہونے اور لیڈروں کے اعلان کے باوجود ہتھیار ڈالنے سے انکار کرسکتی ہیں۔ معاہدے کے تحت غزہ کی سکیورٹی مسلمان ممالک کی فراہم کردہ فوج کے ذمہ ہوگی ۔ اس لیے حماس کے کچھ حصوں کی مزاحمت جاری رہنے کی صورت میں انہیں ’ختم‘ کرنے کا ناگوار کام اسی فوج کو مکمل کرنا ہوگا۔
حماس نے اپنے بیان میں جنگ بندی کے لیےعرب و اسلامی ملکوں کے تعاون اور بین الاقوامی کوششوں کی توصیف کرنے کے علاوہ صدر ٹرمپ کی طرف سے امن کے لیے کاوشوں کو سراہا ہے۔ حماس کے بیان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی توصیف اور امن کی کوششوں کا ذکر کسی ستم ظریفی سے کم نہیں ہے۔ کیوں کہ ٹرمپ نے کبھی حماس کے بارے میں کوئی خوشگوار الفاظ استعمال نہیں کیے بلکہ گزشتہ روز کے بیان میں بھی اسے ناقابل یقین تباہی کی دھمکی دی تھی۔ اس حوالے بی بی سی کی چیف بین الاقوامی نامہ نگار لیز ڈوسیتھ کا تجزیہ قابل غور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت کوئی بھی امریکی صدر ٹرمپ کو انکار نہیں کرنا چاہتا ، چاہے وہ حماس ہی کیوں نہ ہو۔ بہت احتیاط سے لکھا گیا حماس کا بیان قطر، مصر اور ترکیہ جیسے ثالثوں کے بے حد دباؤ کے بعد جاری کیا گیا ہے لیکن یہ ایک مشروط اور نامکمل بیان ہے۔اس میں صرف چند اہم مسائل پر بات کی گئی ہے جس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی، جنگ کا خاتمہ، اور غزہ پر ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے قیام کو تسلیم کرنا شامل ہے‘۔
طرفین کی طرف سے جنگ بندی کی طرف پیش رفت پر آمادگی کے بعد غزہ میں جاری انسانوں کی ہلاکت خیزی ختم ہونے کا امکان پیدا ہؤا ہے۔ پاکستانی وزیرا عظم شہباز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ ’اب امن کے لیے اس کھڑکی کو بند نہیں ہونا چاہئے‘۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ جنگ بندی اور انسانوں کی ہلاکت کو روکنا اگرچہ پہلی ترجیح ہے لیکن اس کے فوری بعد غزہ کے غیرجانبدار انتظام اور پائدار امن یقینی بنانے کے لیے سب فریقین کو سخت محنت کرنا پڑے گی۔ اسرائیل اگر فلسطینی ریاست کے قیام پر متفق نہیں ہوتا اور اس حوالے سے جلد ہی کوئی اہم پیش رفت دیکھنے میں نہیں آتی تو بصد مشکل قائم کیا جانے والا امن ایک بار پھر نئے تصادم کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
اسرائیل نے غزہ کے خلاف جنگ جوئی کرتے ہوئے جس بے دردی سے لوگوں کو قتل کیا ہے اور انہیں بار بار دربدر ہونے پر مجبور کیا گیا، اس سے غزہ کا ہر گھرانہ متاثر ہؤا ہے۔ وہاں جوان ہونے والا ہر بچہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں یا کسی دوسرے عزیزسے محروم ہؤا ہے۔ ہر گھر نے ظلم و استبداد اور اسرائیلی سفاکی کا سامنا کیا ہے۔ ان لوگوں میں دبے ہوئے غصہ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ علاقے میں وسیع المدت مفاہمتی عمل کا آغاز ہو اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ

