عرفان صدیقی کی غزل : ڈسکہ کی دھند
شام ڈھلتے ہی چھا گئی یہ دھند
بیس بندوں کو کھا گئی یہ دھند
کر دیا بند سب کی آنکھوں کو
فون تک میں سما گئی یہ دھند
وارداتی ہواؤں سے مل کر
کیا کرشمے دکھا گئی یہ دھند
کچھ کے ووٹوں کو کر گئی تگنا
اور کچھ کے گھٹا گئی یہ دھند
صبح ہوتے ہی چھٹ گئی لیکن
راز سارے بتا گئی یہ دھند
جو زبانوں پہ آ نہیں پائی
وہ کہانی سنا گئی یہ دھند
کر دیا بے نقاب چہروں کو
سارے پردے اٹھا گئی یہ دھند
حکمرانوں کی بارگاہوں میں
کھلبلی سی مچا گئی یہ دھند
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوئی
قرض اپنا چکا گئی یہ دھند
( بشکریہ : ہم سب لاہور )
فیس بک کمینٹ