زندگی کئی ادوارپرمشتمل ہوتی ہے۔بچپن کادوروالدین اوربھائی بہنوں کے لاڈ پیار اورچھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے پیش نظر سہانااوربے فکری کادورہوتاہے۔دوسرے ادوارمیں طالبعلمی کادورہوتاہے جب والدین اپنے بچے کو افسر کے روپ میں دیکھنے کیلئے اپناپیٹ کاٹ کراس کی ہرخواہش پوری کررہے ہوتے ہیں جبکہ بچے اپنے والدین کی تمام مجبوریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی آنکھوں میں سہانے سپنے سجائے پھرتے ہیں ۔پھرعملی زندگی میں داخل ہوتے ہی وہ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے اپنی جوانی کودیمک کی طرح چاٹتے ہوئے تمام مسائل ومشکلات کاجوانمردی سے سامنا کرتے ہوئے بڑھاپے کی دہلیز پرقدم رکھتے ہیں ۔یہ وہ دہلیز ہوتی ہے جہاں بوجھ کے باوجود کوئی جھکنے کوتیارنہیں ہوتااوراکڑکردہلیزپار کرنے کے بعد خودکوگنبد ظلمات میں محصور پاتاہے ۔ حتیٰ کہ پوتوں پوتیوں ،نواسے نواسیوں تک کی ہرمشکل کو حل کرنے کی جستجو میں بے بس نظر آتاہے ،صبح شام کی چکی میں پستاچلاجاتاہے۔بے بس ہونے کے باوجود وہ اپنوں کیلئے خود کو مسیحا سمجھتاہے حالانکہ ایک دوہفتہ بعد خودمسیحا کے پاس جانااس کی ضرورت بن جاتی ہے۔رابطے محدود ہونے کے بعد منقطع ہونے کی نہج تک جاپہنچتے ہیں ۔جن دوستوں سے روزانہ ملاقات معمول ہوتی ہے ان سے کئی دنوں تک ملاقات ممکن نہیں ہوتی ۔ایسے ہی ایک دوست کوکئی یوم تک ملاقات نہ ہونے کے سبب میں نے فون پررابطہ کیا،سلام دعاکے بعد حال پوچھاتومیرے ہم عمر دوست نے سرائیکی میں کہاکہ ہُن چس کوئی نہیں ،ان کے کہنے کامطلب یہ تھاکہ اب زندگی میں وہ مزہ اوررنگینی نہیں رہی جواباََمیں نے مذاقاََکہاکہ 70سال سے رکھے کھانے کی چیزوں میں مزہ اوررنگین کپڑے کے رنگ اسی حالت میں کیسے رہ سکتے ہیں ۔اس لئے نہ مزہ ڈھونڈیں نہ رنگینی اورنہ ہی چس ۔ زندگی گزارناایک فن ہے ، ایک ہنر ہے ہنرکے تحت بقیہ بونس لائف گزارنے کاڈھنگ سیکھیں،لیکن مرے ہم عمر دوست بہت سنجیدہ تھے ۔انہوں نے کہاکہ یہ بات نہیں ہے کہ بچے کہنا نہیں مانتے ،وسائل کم ہیں لیکن ان کی فرمائشیں ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتی ۔میں بھی اپنے ہم عمر دوست کوسنجیدہ دیکھ کرسنجیدگی اختیار کرنے پرمجبور ہوگیا۔میں نے عرض کی کہ جناب یہ عمروں کے فرق کاتقاضاہے بچوں کایہ کہنا کہ ابو آپ کوسمجھ نہیں آتی یاآپ بھی عجیب باتیں کرتے ہیں یہ سوچ کے ارتقاءاورانتہاکافرق ہے ۔ہم عمردوست آپ جب نوجوان تھے توکمپیوٹر یاموبائل تھا نہ انڈرپاس یافلائی اوور تھے لیکن یہ سب سہولیات ہمارے لئے انتہالیکن ان کے لئے ابتداءہیں ۔عزیزدوست آپ کتنے سال مزیدبچوں کونصحیتں کرسکتے ہیں مشورے دے سکتے ہیں چند سالوں کے بعد بھی توانہوں نے اپنی سوچ وفکر کے مطابق زندگی گزارنی ہے تو آپ خودکوعقل کل کیوں سمجھتے ہیں ۔باقی رہے ان کے مطالبات اورفرمائشیں تویہ ان کاحق ہے پوری کریں یانہ لیکن برداشت ضرور کریں ۔میرے عزیزدوست کی چارج شیٹ طویل ہوتی گئی بدلتے رویئے دوستوں کی طرف سے فون نہ سننے اوراپنے سامنے بچوں کوبرسرروزگار ہونے کی پریشانی سمیت صحت ٹھیک نہ رہنے کاشکوہ بھی لے بیٹھے ۔لیکن میں بھی کہاں ہارماننے والاتھامیں نے انہیں کہاکہ کبھی آپ کے پریشان رہنے سے کوئی پریشانی ختم ہوئی ،کیاآپ ہرچیز کواپنے تابع کرسکتے ہیں ،یاحالات کواپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔اگران باتوں کاجواب نفی میں ہے تو پریشانی کیسی اورپھرمسلمان ہونے کے ناطے کتنابڑا سہارا ہے۔ان تین لفظوں میں کہ ”اللہ دی مرضی “اوراگرآپ کویہ پریشانی لاحق ہے کہ بچے آپ کی زندگی میں تعلیم مکمل کرلیں اورآ پ ان کو ملازمت دلوادیں تویہ آپ کی محدود سوچ ہے،شاید بچہ تعلیم مکمل نہ کرنے کے باوجود ان لوگوں میں شامل ہوجائے جودولت کے انبار پربیٹھے ہیں اورخودلاکھوں روپے تنخواہ پرملازم رکھ رہے ہیں ۔میرے دوست، رویوں کابدلنا بھی معمول کی کاروائی ہے کیاآپ کااپنی اولاد کے ساتھ مختلف وقت میں مختلف رویہ نہیں ہوتا کیا آپ نوجوانی اورجوانی میں پی آرشپ کے لئے نئے نئے دوست بنانے کے خواہاں نہیں تھے اورپھردوستی تو بارٹرسسٹم ہے دوست کو سب سے اہم چیز وقت دیاجاتاہے جبکہ بڑھتی ہوئی عمر کے باعث آپ کی سرگرمیاں محدودہوجاتی ہیں اوردوستوں کوپہلے جتنا وقت نہیں دے سکتے ۔جبکہ آپ کے جوان دوستوں نے نئے دوست بنانے ہیں انہیں بھی وقت دیناہے۔عزیزدوست جب دکان میں اشیاءکم ہوجائیں اورلوگ سمجھنے لگیں کہ دکان ختم ہورہی ہے جلد بندہوجائے گی توگاہک ادھرکارخ کیوں کریں۔اورپیارے دوست کتنی ہی مہنگی ادویات ہوں ،زائدالمعیاد ہونے پرانہیں ضائع ہی کرناپڑتاہے۔لیکن ان باتوں پرمیرے دوست ناراض ہوگئے اوریہ کہتے ہوئے کہ تم بہت ڈھیٹ ہولیکن میں بہت SENSTIVEہوں غصے میں فون بند کردیالیکن میں اپنے دوست کے بقول کیونکہ بہت ڈھیٹ ہوں میں نے دوبارہ فون کال کی اوریہ کہہ کر کہ ” آخرکار لائن کٹ گئی “ ،فون بند کردیا۔
فیس بک کمینٹ