گزشتہ روز سے اس بات پربہت پریشان ہوں کہ مریم صفدر نے اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو پہچاننے سے انکار کرتے ہوئے کیوں کہا کہ ”تم کون ہو“لیکن میں اس لیے پریشان نہیں کہ مریم صفدر نے اپنے شوہر کو کیو ں کہا کہ تم کون ہو۔ بلکہ اس لیے پریشان ہوں کہ آخر میں بھی ایک بیوی کاشوہرہوں۔اس لیے خوفزدہ ہوں اور وہ وجوہات معلوم کرنا چاہتاہوں کہ کن حالات میں بیوی شوہر کو ”تم کون ہو“کہنے پر مجبور ہوتی ہے اورایسی وجوہات کاعلم ہو جائے تو میں پہلے ہی تدارک کرسکوں اور یہ نوبت ہی نہ آئے ورنہ تو ڈوب مرنے کامقام ہوگا۔پھردل کوتسلی دینے کے لیے سوچا کہ مریم صفدر سیاست دان ہے اور سیاست دان توکسی بھی وقت کسی کوکچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں۔جیسے نہال ہاشمی نے سپریم کورٹ کے ججوں کی اولاد پر زمین تنگ کرنے کی دھمکی دے دی یاپھر جس طرح بے نظیر بھٹو شہید نے مرد حر”آصف زرداری“کوعملی سیاست میں لانے کے لیے نواب شاہ کاصدر بناکرسیاست کے میدان میں اتارا لیکن یہ دلیل میرے خوف کو دور نہ کرسکی کیونکہ سینئر سیاست دان تودھمکی بھی دے سکتا ہے اور کوئی بھی اقدام کرسکتا ہے جبکہ مریم صفدر توابھی سیاست میں نووارد ہیں۔ان کوابھی سیاستدانوں کی طرح کچھ بھی کہنے اور کچھ بھی کرنے کے لیے وقت درکارہے۔پھرسوچا کہ شایدوالد میاں نوازشریف کی وزارت عظمی سے برطرفی اور مقدمات کی ٹینشن (Tention) میں شوہر کوپہچاننے سے انکاری ہوگئیں کیونکہ ٹینشن کی بیماری امراء اور اشرافیہ کولاحق ہے لیکن مراعات یافتہ طبقہ تو اتنابے بس نہیں کہ علاج نہ کرواسکے۔چلیں مانا کہ 70سالوں میں پاکستان میں علاج معالجے کی بہتر سہولیات فراہم نہیں کی جاسکیں تو اشرافیہ کے لیے تو بیرون ملک علاج کروانا بھی ایک فیشن ہے اور پھرڈاکٹروں کے بقول ٹینشن کے مرض میں مبتلا مریض اگرگہری نیند سوئے تو مرض کے اثرات ختم ہوجاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ امراء گہری نیند کے لیے پرسکون ادویات سمیت کئی حربے استعمال کرتے ہیں اورادویات کے سہارے اتنی ہی گہری نیندسوتے ہیں جتنا کہ غریب آدمی تھکن سے چورسوتا ہے۔یہ دلیل بھی ہماراخوف دورنہ کرسکی۔پھرذہن میں خیال آیا کہ شاید خوف انسان کے حافظہ کووقتی طورپر متاثر کرتا ہو کیونکہ مریم صفدر اوران کے والد میاں نوازشریف کے خلاف نیب عدالت میں مقدمات زیرسماعت ہیں اور عدالت کی طرف سے سزا کے امکانات موجودہیں لیکن تمام مسلم لیگ(ن)کے دوستوں نے کہاکہ وہ بہت بہادرخاتون ہے”شیرنی ہے شیرنی“۔دوستوں نے دلیل دی کہ جس طرح مریم صفدر ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا مذاق اڑاتی ہیں یہ کسی بزدل کے بس کی بات نہیں۔ دوستوں کی اس دلیل سے تو میں متفق نہ ہوا لیکن مجھے جوں ہی خیال آیا کہ ملک کے نوجوان آئی لو یو(I Love You)کہنے کے لیے فروری کاانتظار کرتے ہیں اورفروری آنے پر 14فروری آنے کے انتظار کے کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔اوربالآخر 14فروری کو ڈرے ڈرے سہمے سہمے آئی لو یو کہتے ہیں لیکن مریم صفدر واقعی دلیر اور جرات مند خاتون ہیں۔جوانی گزرجانے کے باوجود فروری کاانتظار کیے بغیر ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں کھلے عام آئی لو یو کہتی ہیں۔ایسی بہادرخاتون کبھی خوف زدہ نہیں ہوسکتی۔اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے ایک ڈاکٹرکی کہی ہوئی بات کاسہارا لیا کہ پلاسٹک سرجری سے نظر متاثر ہوتی ہے اورپہچاننے میں دقت ہوسکتی ہے۔لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ ایک دیرینہ عزیز دوست رضی الدین رضی کی نظر کمزورتھی۔انہوں نے سفید پوش ہوتے ہوئے بھی آنکھ میں شیشہ ڈلوایا اوراب ہر ایک کو آئینہ دکھاتاہے نظر6/6ہے۔نظراتنی تیز ہوگئی ہے کہ دوستوں کے عیب تک ڈھونڈنکالتا ہے بلکہ نظر اتنی گہری ہوگئی ہے کہ آج کل محترم دوست ایک دو شاعروں کے گن گانے لگے ہیں۔تمام دلائل بے اثر ہوگئے لیکن خوف بدستور رہا۔آخر دل کی تسلی کے لیے آخری سہارا یہ لیا کہ ان دنوں ایک دو اداروں سے اظہار ناراضی کے لیے شوہر سے کہہ دیا ہو کہ آپ کون ہیں۔ کیونکہ جب کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے اپنا نام صرف صفدربتایا تو محترمہ نے انہیں پہچان لیا۔بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ اگرعام آدمی بھی سمجھنے لگے تو پھراشرافیہ اور عام آدمی میں کیافرق باقی رہے گا۔
فیس بک کمینٹ