گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ غازی خان میں میرے ایک انتہائی قابل احترام استاد محمد نوازخان تھے جن کی تین بار نماز جنازہ پڑھی گئی۔دوبار نمازجنازہ کے بعد وہ گھر لوٹ آئے اورآکر اپنی والدہ کے قدموں کو چھوا۔لیکن تیسری بار دنیا سے رخصت ہوگئے۔وہ کہا کرتے تھے کہ ہمیشہ بڑے بڑے خواب دیکھو اورپھر خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خوب محنت کرو۔ان کی یہ بات میرے دل کواتنی لگی کہ زمانہ طالب علمی میں ہمیشہ بڑے بڑے خواب دیکھے۔لیکن ان کی دوسری بات کہ خوب محنت کروپر عمل نہ کیا۔اسی طرح ہم خواب سجاتے رہے لیکن تعبیر یں الٹی نکلیں۔
عملی زندگی میں قدم رکھا توخوابوں کی دنیا سے نکل آ ئے۔خواب بہت کم نظرآئے تھے اوراگر کبھی نظر آتے تو جاگنے کے بعدبھول چکے ہوتے ۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ شعبہ صحافت سے وابستہ ہونے کے بعد ڈراؤنے خواب ہی آتے تھے اورانہیں بھول جانے میں ہی بھلائی ہوتی تھی۔لیکن سانحہ قصور کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر زینب سے زیادتی اوراذیت ناک موت کی خبروں نے بے چین کردیا ۔کئی روز سکون کی نیند نہ آئی۔ایک رات نیند آئی ہی تھی تو ایک بھیانک اوردل دہلا دینے والا خواب دیکھا۔جوذہن پر نقش ہوگیا اور بھلانے کے باوجود بھولتا ہی نہیں۔خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک انتہائی خوبصورت باغ ہے جس میں پھلوں کے د رخت اور پھولوں کے پودے ہیں ۔پھول اتنے دلکش رنگوں میں کہ پھولوں کی خوبصورتی کااحاطہ لفظوں میں نہیں کیاجاسکتا۔پھل پھول اور نہروں کی خوبصورتی جنت نظیر تھی ۔میں اس خوبصورتی میں مگن تھا کہ ایک خوبصورت بچی درختوں کی اوٹ سے نمودارہوئی۔میرے قریب پہنچتے ہی مجھے سے مخاطب ہوئی ۔بابا میرا نام ایمان فاطمہ ہے ۔مجھے یہاں رہتے تقریباً ایک سال ہوگیا ہے۔یہاں بسنے والے تمام لوگ بہت اچھے ہیں لیکن میرا سب سے زیادہ خیال انکل مدثر رکھتے ہیں۔صبح اٹھتے ہی میرا منہ ہاتھ دھلواتے ہیں ۔طرح طرح کے پھل اوردودھ سے ناشتہ کرواتے ہیں۔پھرمیں سارا دن جھولنے اچھلنے کودنے میں مصروف رہتی ہوں لیکن انکل مدثر کو میرے تھک جانے کی فکرہوتی ہے۔وہ میرے لیے دوپہر کے کھانے کاانتظام کرتے ہیں۔یہ نئی دنیا میرے لیے اجنبی تھی لیکن چندروزبعد ہی انکل مدثر کے آنے کے بعد اجنبیت ختم ہوگئی۔میں انکل مدثر کی شفقت کے سہارے زندہ ہوں لیکن بابا دکھ یہ ہے کہ مجھ سے بات نہیں کرتے۔ایک سال گزرگیا۔انکل مدثر نے کبھی مجھے ایمان فاطمہ کہہ کرنہیں پکارا۔میں ان سے جتنی باتیں کروں وہ صرف شفقت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہتے ہیں۔لیکن کبھی لب کشائی نہیں کی۔ایمان فاطمہ نے مجھے التجا بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ بابا آپ میری انکل مدثر سے صلح کروادیں۔میں انکل سے معافی مانگنے کو تیارہوں۔میں معصوم ننھی پری کی بات کیسے ٹال سکتاتھا۔فوری حافظ مدثر کی تلاش شروع کی جوچند گز کے فاصلے پر براجمان تھے۔تعارف کے بعد میں نے مدثر سے معصوم پری ایمان فاطمہ سے نہ بولنے کی وجہ پوچھی۔ناراضگی کاسبب دریافت کیا۔تو مدثر خلاؤں میں گھورنے لگے۔دوبارہ مخاطب کرنے پر پھٹ پڑے۔اور کہنے لگے مجھے ناکردہ گناہ میں پولیس نے گرفتارکیا لیکن میری بیٹی ایمان فاطمہ خاموش رہی۔پولیس نے دوروز تک مجھ پر بہیمانہ تشدد کیا۔تشدد کی اس قدرانتہاکی گئی کہ میں اللہ تعالی سے موت مانگتا رہا۔لیکن ایمان فاطمہ نے میری صفائی میں ایک لفظ نہیں کہا۔پھرپولیس نے مجھے دھمکی دی کہ بپھرے عوام کے غیض وغضب کوٹھنڈا کرنے کے لیے جرم کا اقرارکرلو ورنہ تشدد سے تمہاری ہلاکت تمہارا مقدرہوگا۔میرا سارا بدن زخم کی طرح دکھ رہاتھا۔اورپھر پولیس افسران نے وعدہ کیا کہ اقرارکرلو ۔آپ کومقدمہ سے بری کروادیں گے۔بے بس تھا،لاچارتھا،مرتا کیا نہ کرتا۔میں نے اپنے بھائی کے سامنے اقرارکرلیا کہ میں ہی وہ بھیٹریا تھا جس نے فرشتوں جیسی معصوم بیٹی ایمان فاطمہ کی عزت تارتار کی اوراسے موت کے گھاٹ اتارا۔لیکن ایمان فاطمہ کومعلوم تھا کہ میں نہیں تھا۔لیکن ایمان فاطمہ خاموش رہی ۔بعد میں پولیس نے اپنی حراست میں رکھتے ہوئے مجھ پر اورمیرے بھائی پر ڈکیتی کا مقدمہ قائم کیا۔اورمجھے پولیس مقابلے میں ماردیا۔پھربھی ایمان فاطمہ خاموش رہی۔قصور کے لوگوں نے میرے گھروالوں کو دھتکارنا شروع کردیا۔مولوی حضرات میرا جنازہ پڑھانے کو تیارنہیں تھے۔کئی ماہ تک محلہ داروں نے میرے گھروالوں کابائیکاٹ کیا۔ہمارا حقہ پانی بند رکھا، لیکن ایمان فاطمہ نے پھربھی زبان نہیں کھولی۔مجھ پر میرے خاندان پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے لیکن ایمان فاطمہ نہ بولی۔توپھراب میں کیوں بولوں اور میرے پاس اب کہنے کوہے ہی کیا۔حافظ مدثر کی یہ باتیں سن کر جواب خاموشی تھا۔بوجھل قدموں سے چلنے کی کوشش کررہاتھا کہ ایمان فاطمہ نے آواز دی کہ بابا جب کبھی قصور جاؤ تو زینب کی عصمت دری پر غیرت کا مظاہرہ کرنے والے قصور کے شہریوں کو میرا سلام کہنا۔اوراحتجاج کے دوران پولیس کی گولیوں سے شہید ہونے والے دونوں انکلوں کی قبر پرمیری طرف سے سلامی دینا اور یہ کہتے ہوئے ایمان فاطمہ چیخیں مارمارکر رونا شروع ہوگئی۔ایمان فاطمہ کی چیخوں سے میری آنکھ کھل گئی اورپھرنیند نہیں آئی۔اورویسے بھی اس معاشرہ اورنظام میں ”جاگتے “ہی رہنا چاہیے۔
عملی زندگی میں قدم رکھا توخوابوں کی دنیا سے نکل آ ئے۔خواب بہت کم نظرآئے تھے اوراگر کبھی نظر آتے تو جاگنے کے بعدبھول چکے ہوتے ۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ شعبہ صحافت سے وابستہ ہونے کے بعد ڈراؤنے خواب ہی آتے تھے اورانہیں بھول جانے میں ہی بھلائی ہوتی تھی۔لیکن سانحہ قصور کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر زینب سے زیادتی اوراذیت ناک موت کی خبروں نے بے چین کردیا ۔کئی روز سکون کی نیند نہ آئی۔ایک رات نیند آئی ہی تھی تو ایک بھیانک اوردل دہلا دینے والا خواب دیکھا۔جوذہن پر نقش ہوگیا اور بھلانے کے باوجود بھولتا ہی نہیں۔خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک انتہائی خوبصورت باغ ہے جس میں پھلوں کے د رخت اور پھولوں کے پودے ہیں ۔پھول اتنے دلکش رنگوں میں کہ پھولوں کی خوبصورتی کااحاطہ لفظوں میں نہیں کیاجاسکتا۔پھل پھول اور نہروں کی خوبصورتی جنت نظیر تھی ۔میں اس خوبصورتی میں مگن تھا کہ ایک خوبصورت بچی درختوں کی اوٹ سے نمودارہوئی۔میرے قریب پہنچتے ہی مجھے سے مخاطب ہوئی ۔بابا میرا نام ایمان فاطمہ ہے ۔مجھے یہاں رہتے تقریباً ایک سال ہوگیا ہے۔یہاں بسنے والے تمام لوگ بہت اچھے ہیں لیکن میرا سب سے زیادہ خیال انکل مدثر رکھتے ہیں۔صبح اٹھتے ہی میرا منہ ہاتھ دھلواتے ہیں ۔طرح طرح کے پھل اوردودھ سے ناشتہ کرواتے ہیں۔پھرمیں سارا دن جھولنے اچھلنے کودنے میں مصروف رہتی ہوں لیکن انکل مدثر کو میرے تھک جانے کی فکرہوتی ہے۔وہ میرے لیے دوپہر کے کھانے کاانتظام کرتے ہیں۔یہ نئی دنیا میرے لیے اجنبی تھی لیکن چندروزبعد ہی انکل مدثر کے آنے کے بعد اجنبیت ختم ہوگئی۔میں انکل مدثر کی شفقت کے سہارے زندہ ہوں لیکن بابا دکھ یہ ہے کہ مجھ سے بات نہیں کرتے۔ایک سال گزرگیا۔انکل مدثر نے کبھی مجھے ایمان فاطمہ کہہ کرنہیں پکارا۔میں ان سے جتنی باتیں کروں وہ صرف شفقت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہتے ہیں۔لیکن کبھی لب کشائی نہیں کی۔ایمان فاطمہ نے مجھے التجا بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ بابا آپ میری انکل مدثر سے صلح کروادیں۔میں انکل سے معافی مانگنے کو تیارہوں۔میں معصوم ننھی پری کی بات کیسے ٹال سکتاتھا۔فوری حافظ مدثر کی تلاش شروع کی جوچند گز کے فاصلے پر براجمان تھے۔تعارف کے بعد میں نے مدثر سے معصوم پری ایمان فاطمہ سے نہ بولنے کی وجہ پوچھی۔ناراضگی کاسبب دریافت کیا۔تو مدثر خلاؤں میں گھورنے لگے۔دوبارہ مخاطب کرنے پر پھٹ پڑے۔اور کہنے لگے مجھے ناکردہ گناہ میں پولیس نے گرفتارکیا لیکن میری بیٹی ایمان فاطمہ خاموش رہی۔پولیس نے دوروز تک مجھ پر بہیمانہ تشدد کیا۔تشدد کی اس قدرانتہاکی گئی کہ میں اللہ تعالی سے موت مانگتا رہا۔لیکن ایمان فاطمہ نے میری صفائی میں ایک لفظ نہیں کہا۔پھرپولیس نے مجھے دھمکی دی کہ بپھرے عوام کے غیض وغضب کوٹھنڈا کرنے کے لیے جرم کا اقرارکرلو ورنہ تشدد سے تمہاری ہلاکت تمہارا مقدرہوگا۔میرا سارا بدن زخم کی طرح دکھ رہاتھا۔اورپھر پولیس افسران نے وعدہ کیا کہ اقرارکرلو ۔آپ کومقدمہ سے بری کروادیں گے۔بے بس تھا،لاچارتھا،مرتا کیا نہ کرتا۔میں نے اپنے بھائی کے سامنے اقرارکرلیا کہ میں ہی وہ بھیٹریا تھا جس نے فرشتوں جیسی معصوم بیٹی ایمان فاطمہ کی عزت تارتار کی اوراسے موت کے گھاٹ اتارا۔لیکن ایمان فاطمہ کومعلوم تھا کہ میں نہیں تھا۔لیکن ایمان فاطمہ خاموش رہی ۔بعد میں پولیس نے اپنی حراست میں رکھتے ہوئے مجھ پر اورمیرے بھائی پر ڈکیتی کا مقدمہ قائم کیا۔اورمجھے پولیس مقابلے میں ماردیا۔پھربھی ایمان فاطمہ خاموش رہی۔قصور کے لوگوں نے میرے گھروالوں کو دھتکارنا شروع کردیا۔مولوی حضرات میرا جنازہ پڑھانے کو تیارنہیں تھے۔کئی ماہ تک محلہ داروں نے میرے گھروالوں کابائیکاٹ کیا۔ہمارا حقہ پانی بند رکھا، لیکن ایمان فاطمہ نے پھربھی زبان نہیں کھولی۔مجھ پر میرے خاندان پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے لیکن ایمان فاطمہ نہ بولی۔توپھراب میں کیوں بولوں اور میرے پاس اب کہنے کوہے ہی کیا۔حافظ مدثر کی یہ باتیں سن کر جواب خاموشی تھا۔بوجھل قدموں سے چلنے کی کوشش کررہاتھا کہ ایمان فاطمہ نے آواز دی کہ بابا جب کبھی قصور جاؤ تو زینب کی عصمت دری پر غیرت کا مظاہرہ کرنے والے قصور کے شہریوں کو میرا سلام کہنا۔اوراحتجاج کے دوران پولیس کی گولیوں سے شہید ہونے والے دونوں انکلوں کی قبر پرمیری طرف سے سلامی دینا اور یہ کہتے ہوئے ایمان فاطمہ چیخیں مارمارکر رونا شروع ہوگئی۔ایمان فاطمہ کی چیخوں سے میری آنکھ کھل گئی اورپھرنیند نہیں آئی۔اورویسے بھی اس معاشرہ اورنظام میں ”جاگتے “ہی رہنا چاہیے۔
فیس بک کمینٹ