کسی بھی ملکی کی ترقی میں ادار ے اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان اداروں کا کردارتب ہی ممکن ہوتا ہے جب ادارے مضبوط اور کرپشن سے پاک ہوں اور میرٹ پر فیصلے کریں۔ جہاں ادارے کمزورہوتے ہیں وہاں شخصیات تو ترقی کرتی ہیں لیکن ملکی ترقی کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔دنیا کے ہر ملک میں اداروں کو مضبوط کرنے پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے ۔ ادارے کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ادارے میں میرٹ پر تقرریاں کی جائیں، میرٹ پر فیصلے ہوں اور اداروں کو کرپشن سے پاک رکھا جائے۔ پاکستان میں اداروں کو کرپشن سے پاک اور میرٹ کے تحت چلانے کے لیے صوبائی اور وفاقی سطح پر ادارے موجود ہیں تاکہ احتساب کاعمل جاری رہے۔ احتساب اور کرپشن کی روک تھام کے لیے صوبائی سطح پر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کاادارہ قیام پاکستان کے وقت سے موجودہے جبکہ اینٹی کرپشن محکمہ کی ساکھ اس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ عام شہری اینٹی کرپشن کو ”آنٹی کرپشن“کہتے ہیں اورٹھیک ہی کہتے ہیں کیونکہ جب کسی بھی محکمہ کے آفیسر پر کرپشن کے کیسز بن جائیں تو وہ اپنا تبادلہ فوری طورپراینٹی کرپشن میں کروا کر اپنے کیس ختم کراتا ہے اور پھر واپس اپنے اصل محکمے میں جاکر اپنا دھندا شروع کردیتا ہے۔ وفاق کی سطح پر احتساب کمیشن کو ختم کرکے احتساب کے لئے جمہوریت کی بساط لپیٹنے والے اور”سب سے پہلے پاکستان“ کانعرہ لگانے والے جرنیل نے نیب کاادارہ تشکیل دیا ۔ احتساب کے لیے یہ ایسا ادارہ ہے جس کے تحت اشرافیہ اربوں کی کرپشن میں سے کروڑوں روپے واپس کرکے آزاد ہوجاتی ہے۔حکومتی پارٹی کے سواکوئی سیاسی جماعت اس اد ارہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں حتی کہ ملک کی اعلی عدلیہ سپریم کورٹ بھی نیب کی کارکردگی سے مکمل طورپر غیرمطمئن ہے ۔ اور اب عدلیہ نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نیب کے چارڈائریکٹرجنرل صاحبان کو عہدوں کے لیے نااہل قرار دے کر فارغ کردیا ہے جبکہ 102افسران کی قابلیت جانچنے کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے ۔ سپریم کورٹ کے حکم پرجو ڈائریکٹر جنرل فارغ کیے گئے ان میں میجرریٹائرڈ برہان علی ،میجرریٹائرڈ طارق محمود، میجرریٹائرڈ شبیر احمد اور عالیہ رشید شامل ہیں۔فاضل عدالت میں سماعت کے دوران کہاگیا کہ نیب کاچہرہ سافٹ رکھنے کے لئے عالیہ رشید کو جنرل پرویزمشرف کے حکم پر تعینات کیاگیا تھا۔ جس پر فاضل جج مسٹرجسٹس قاضی عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ نیب کو سافٹ نہیں سٹیل کے چہروں کی ضرورت ہے۔ اور مزید کہا کہ اگرعالیہ رشید کی تعیناتی اتنی ضروری ہے تو نیب میں کھیلوں کاشعبہ بنا کر عالیہ رشید کو اس کاسربراہ مقرر کردیں۔ ملک میں کرپشن کی روک تھام کے لئے قائم اہم ادارے میں چارڈائریکٹرجنرل نااہل ہوں جبکہ 102افسران کی اہلیت جانچنے کی ضرورت پیش آئی ہو تو ملکی اداروں کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ جہا ں اداروں میں تقرریاں اشرافیہ کے عزیز واقارب میںسے ہوں، میرٹ کی دھجیاں اڑائی جائیں ، کرپشن کی زنجیر روز بروز مضبوط ہورہی ہو، ملکی مشینری میں اشرافیہ کے پرزے فٹ ہوں، عام شہری کی تنخواہ سے اشرافیہ کے پرزوں کی تنخواہ 200سے 300 گنازیادہ ہو، جہاں اشرافیہ کانمائندہ ایک سال گورنر یا صدر بن کر 30،35سال تک سروس کرنے والے کی طرح پنشن اوردیگرمراعات حاصل کرے، جہاں ملک کے تھانوں پر ارکان اسمبلی ،وڈیروں اور رشوت کی حکمرانی ہو اور جہاں پارٹی منشور کوپسند کرنے کی بجائے ”انے واہ“ شخصیات کی حمایت کی جائے، شہریوں کی طرف سے حق مانگنے پر اشرافیہ کو بغاوت کی بو آئے، اورجہاں سوچ بدلنے کی بجائے صرف وردی بدل دی جائے۔ وہاں بس چپ کرجا چپ!
فیس بک کمینٹ