افراتفری کے دور میں ہر انسان خود کو بلاشبہ لیکن بلاوجہ اور ضرورت سے زیادہ مصروف سمجھنے لگا ہے۔ لیکن بالآخر مرنا تو سب نے ہی ہے۔ گزشتہ روز ملتان بلکہ جنوبی پنجاب کی صحافت کا روشن ایک باب اختتام پذ یر ہوا لیکن جاتے جاتے آج کے معاشرتی رویوں کو بھی نے نقاب کرگیا۔۔
غضنفر علی شاہی جو اصولی اور پیشہ ور صحافت کا ایک انسائیکلو پیڈیا تھے ۔ جنہوں نے پانچ بار اسوقت صدر ملتان پریس کلب رہنے کا اعزاز حا صل کیا جب آج کے کئی نامور صحافیوں کو قلم پکڑنا بھی نہ آتا تھا۔ ہمیشہ ڈٹ کر دبنگ انداز سے انہوں نے نہ صرف صحافت کی بلکہ صحافیوں کی فلاح و بہبود اور حقوق کی جنگیں لڑیں۔ اپنی نوکری کی پرواہ کیے بغیر معاشرے کی بہتری اصلاح کے لیے بڑے بڑے سیاستدانوں، بیوروکریٹس کے آگے ڈٹ گئے۔ کئی بے روزگار صحافیوں کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد کی تو کئی صحافیوں کی گھریلو پریشانیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ جیلوں میں جانے والے کئی صحافیوں کے ساتھ ہمیشہ شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ ان کے صحافتی دور میں مخدوم جاوید ہاشمی ہوں، یا مخدوم یوسف رضا گیلانی۔ شاہ محمود قریشی ہوں یا انکے والد، ملک غلام حیدر وائیں ہوں یا آج کے تمام نئے سیاستدان.. سب کو اپنے کالموں ، خبروں، سیاسی ڈائریوں کے ذریعے آج اس مقام تک پہنچانے میں اپنے تئییں صحافتی کردار خوب نبھایا۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی معاشرتی بے حسی کی انتہا تب دیکھنے کو ملی جب وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے تو ان کی نماز جنازہ میں نہ تو کوئی سیاستدان پہنچا نہ ڈپٹی کمشنر ملتان پہنچے اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ کا کوئی فرد پہنچا ۔ یہاں تک کہ تعلقات عامہ جو دن رات میڈیا سے خبریں چلانے کے لیے منت سماجت کرتے رہتے ہیں ان کی جانب سے بھی انفرادی یا اجتماعی سطح پر کوئی نہ پہنچا۔ ہاں لیکن وہ سب لوگ ضرور پہنچے جو آج بھی بے حس نہیں باضمیر ہیں جن میں کئی ایسے افراد بھی تھے جو صرف نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے دوسرے شہروں سے بھی آئے۔
اس ساری صورتحال پر جب میں نے اے پی پی اردو سروس کے انچارج اور غضنفر شاہی کے قریبی ساتھی رضی الدین رضی سے اظہار افسوس کیا تو انہوں نے بھی کمال الفاظ ادا کیے کہ” میاں.. شاہی صاحب کے وارث ہم اور آپ موجود ہیں اچھا ہی ہوا جو یہ کرپٹ اور بے حس طبقہ اس جنازے میں شامل نہیں ہوا، اس طبقے کے نہ آنے سے شاہی صاحب کے جنازے کی شان بڑھی ہےوہ اشرافیہ کے نہیں کارکنوں کے نمائندے تھے اور کارکن یہاں موجود ہیں “۔
بہرحال یہ محض شاہی صاحب کا جنازہ نہیں تھا اس جنازے کے ساتھ معاشرتی رویوں کا بھی جنازہ نظر آیا ہے۔ جس کے لیے ہم سب کو سنجیدہ ہوکر سوچنا ہوگا۔
فیس بک کمینٹ