وہ افغان حملہ آوروں کا نمائندہ تھا اور لوٹ مارکرکے خراج پہنچاتا تھااس نے مقامی لوگوں کی زرخیز زمینیں افغانستان سے آئے ہوئے باشندوں میں تقسیم کیں ،وہ چور لٹیروں کا نمائندہ تھا ۔ 2جون1818ءکو راجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے اور ان کی فوج کے سالار گنڈا سنگھ نے ملتان پر حملہ کرکے قتل وغارت ،جلاﺅ گھیراﺅ اور شدید جنگ کے بعد ملتان پر قبضہ کرلیا جس کے نتیجہ میں نواب مظفر خان جو افغانستان کے نمائندہ تھے کو اپنی بیٹی ،بیٹے سمیت ہلاک کردیا گیا جنہیں سرائیکی تحریک سے منسلک تمام جدوجہد کرنے والے شہید قرار دیتے ہیں۔صوبہ ملتان اس سے پہلے افغانستان کے زیرتسلط تھا اور نواب مظفر خان باقاعدہ افغانستان کے حکمران کو خراج ادا کرتا تھا اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک بھی صوبہ ملتان کا حصہ تھاجس کو11نومبر1901ءکو انگریز سرکار نے صوبہ ملتان سے الگ کرکے صوبہ سرحدموجودہ خیبر پختونخواہ کے ساتھ شامل کردیا تھا۔ ملتان پانچ ہزار سال سے زیادہ قدیمی شہر ہے اور کبھی خود مختار ریاست اور کبھی صوبائی دارالحکومت رہاہے ۔بعض مورخین کے مطابق یہ علم و فنون کا بھی مرکز رہاہے اور چنگیز خان نے بھی ملتان پر لشکر کشی کے ارادے سے حملہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر ملتان کے حاکم نے ان سے منہ مانگے خراج کے عوض معاملہ طے کیا تھا ۔وہ خونخوار چنگیز خان جس کی بے رحمانہ ،سفاکانہ کارروائیوں کے بارے میں لاتعداد قصے مشہور ہیں ، اس نے علم وفنون کے فروغ کی خاطر ملتان پر حملے کا ارادہ ترک کردیا تھا اور جنگی اخراجات وصول کرکے واپس ہولیا تھا ۔اس بارے میں تفصیلی تحریر پھر پیش کرونگا۔صوبہ ملتان خوشحالی ،زرخیزی اور تجارتی حوالے سے مشہور تھا اس لئے حملہ آوروں کے ”منہ سے رال ٹپکتی “ رہتی تھی۔ نواب مظفر خان بھی انہی حملہ آوروں کی سفاکانہ ،بے رحمانہ،قتل وغارت،گھیراﺅ جلاﺅ،عصمت دری ،لوٹ مار کے نتیجے میں مسلط ہونے والوں کا نمائندہ تھا۔اور ناجائز قبضہ کرنے والوں کا مقررہ گورنر تھا اور یہاں سے لوٹ مار ،ٹیکس کی صورت میں جمع کرکے افغانستان بھجواتا تھا۔جب افغانستان سے حملہ آور آئے ہونگے تو انھوں نے ملتان پر قبضہ کرنے کیلئے کیا کچھ نہ کیا ہوگا۔؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب نواب مظفر خان کے اباﺅاجداد نے ملتان پر حملہ کیا تو عورتوں نے اپنی عصمتیں بچانے کیلئے کنوﺅں میں چھلانگیں لگائیں اور جان دے کر اپنی عزتیں بچائیں ۔ان میں بلاامتیازمسلم وغیر مسلم خواتین شامل تھیں۔یہ تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ کئی کنوئیں عورتوں کی لاشوں سے بھر گئے تھے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ افغانستان سے حملہ آور مسلمان ہوتے تھے۔ نواب مظفر خان سے پہلے گورنر رہنے والوں نے مقامی زمینداروں کی زمینیں جوزرخیز اور آباد تھیں ،چھین کر افغان فوج کے ساتھ آنے والے موچی،نائی،لانگریوں ،دھوبیوں ،گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کوالاٹ کردیں کسی مقامی کسان ،مزدور کو نہ دیں بلکہ ہر قابض سے انجانے خوف کی وجہ سے نفرت ،حقارت جیسا رویہ اپنائے رکھا جو آج بھی شعوری اور لاشعوری طور پر قائم ہے نواب مظفر خان کے دور میں سرائیکی وسیب کے کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں تھی اُس دور میں سرائیکی وسیب پر جو افغانیوں نے مظالم ڈھائے اس کی وجہ سے آج بھی جوتے پالش کرنے والا ہو یا قہوہ ،چائے فروخت کرنے والا، مکئی اورچنے بھوننے والاہو یا دھوبی ،سڑک کنارے بے یارومددگار پشتو بولنے والا،کچی مٹی کی دیواریں بنانے والا کیوں نہ ہو ،اسے سارے لوگ ”خان صاحب “ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔اس لئے محترم ظہور دھریجہ ،محترم عبدالمجید کانجو،محترم خواجہ غلام فرید کوریجہ ،محترم احمد نوازسومرو،محترم رانا فرازنون ،محترم کرنل (ر)عبدالجبار عباسی،محترم ممتائی حسین جائی،محترم اکبر انصاری،محترم ریاض کھوکھر،محترمہ نخبہ تاج لنگاہ ،محترم اللہ نوازوینس ،محترم ایم اے بھٹہ اورمحترم عنایت اللہ مشرقی سے گزارش ہے کہ وہ ڈاکو ﺅں ،لٹیروں اور غاصبوں کو محض پنجابی سے مخالفت میں ہیرو نہ بنائیں کہ آنے والی نسلیں اپنے آباﺅاجدادکے قاتلوں کو ہیرو سمجھ بیٹھیں ۔ میں سوال کرتا ہوں کہ کبھی کسی خاکوانی ،بابر ،سدوزئی،بادوزئی نے سرائیکی تحریک اور سرائیکی اخبارات ،سرائیکی دانشوروں ،سرائیکی شعراءکی حوصلہ افزائی کی ۔؟یا کسی جماعت کا حصہ بنے۔؟ ہاں جب وہ دیکھیں گے کہ یہ تحریک کامیاب ہوگئی ہے پھر اس پر حملہ آور ہونگے۔تھکے ہوئے اپنی ساری زندگی کی جدوجہد سے تحریک کو کامیاب کرنے والی جماعتوں کے کارکنوں کی کامیابی پر یہ دھاک لگائے بیٹھے ڈاکہ ماریں گے اور اس وقت یہی حوالہ دیں گے کہ ہمارے آباﺅاجداد تو آپ کے ہیرو تھے ۔نواب مظفر خان ڈاکو ،غاصب تھا اس کے آباﺅاجداد نے بھی مظالم کئے۔ پھر اس نے مقامی لوگوں کی زمینیں چھین کر غیر سرائیکی لوگوں کو دیں ۔راجہ رنجیت سنگھ نے دس بار حملہ کیا تو مقامی لوگوں کا قتل عام ہوتا رہا ۔لوگ ایک غاصب ،ظالم کی خاطر دوسرے ڈاکو ،ظالم سے لڑتے رہے نواب مظفر خان کیلئے لڑنے والے افغانی نہیں بلکہ مقامی لوگ تھے جو اپنے وسائل محنت مشقت سے اکٹھی کی گئی اجناس ،جانور بطور خراج دیتے تھے۔جب2جون1818ءکو ملتان پر رنجیت سنگھ کے بیٹے اور اس کی فوج کے سپہ سالار گنڈا سنگھ نے حملہ کرکے نواب مظفر خان کو اس کی بیٹی اور بیٹوں سمیت ہلاک کردیا اور ملتان پر قبضہ کرلیا اس دوران بلاامتیاز مذہب مقامی لوگوں پر مظالم ڈھائے گئے ۔لوٹ مار کی حتیٰ کہ اگر کسی گھر کا قیمتی دروازہ نظر آیا تو وہ بھی اکھاڑ لیا گیا۔دیوان سانول مَل کو گورنر ملتان مقرر کیا گیا ۔دیوان سانول مَل کا محل موجودہ ”دیوان دا باغ“والی جگہ پر تھا ۔آج بھی اس کی نشانیاں موجود ہیں ۔برجیوں نے آبادی کی چادر اوڑھ لی ہے ۔دیوان سانوال مَل کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا دیوان مول راج گورنر بنایا گیا جب راجہ رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا کھاڑک سنگھ تخت نشین ہوا جو شراب وشباب کا پاگل پن کی حد تک رسیا تھا ۔ہر وقت عورتوں کے جھرمٹ میں شراب کے نشہ میں دھت رہتا تھا۔اس کا امور سلطنت کی طرف دھیان نہ تھا جس کی وجہ سے دیوان مول راج نے اس سے ناطہ توڑ کر خراج دینا بھی بند کردیا تھا ۔1849ءمیں انگریز نے ملتان پر حملہ کیا تو دیوان مول راج کی دادی نے آخر دم تک جنگ لڑنے کی تاکید کی ۔دیوان مول راج کیونکہ تل وطنی تھا جواں مردی سے مقابلہ کرتا رہا ۔مگر انگریز فوج جدید ہتھیاروں سے لیس تھی اس لئے دیوان مول راج نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا ۔ہتھیار ڈالنے کے لئے قلعہ کہنہ قاسم باغ پر چڑھائی کے دوران دیوان مول راج کا گھوڑا بپھر گیا تو انگریزفوج کے افسروں اور جوانوں نے سمجھا کہ شاید مول راج جنگ بندی نہیں چاہتا اس لئے دوبارہ جنگ شروع ہوئی تو انگریز فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔آخر کار انگریز کی مدد کیلئے یہاں کے مخدوموں ،گدی نشینوں نے بھی شرم ناک کردار ادا کیا ۔اس کے ساتھ ساتھ ریاست بہاولپور سے انگریز کی مدد کیلئے فوجیں آگئیں اور ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی فوجیں آئیں جنھوں نے قتل وغارت کی انتہا کردی ۔اس وقت دیوان مول راج کی دادی نے مشورہ دیا کہ لوگوں کو مرنے سے بچاﺅ اور ہتھیار ڈال دو اس طرح ملتان پرانگریز کا قبضہ ہوا۔دیوان مول راج کی فیملی کو گرفتار کرلیا گیا۔انگریز سرکار نے لاہور قلعہ میں قید کرنے کیلئے لاہور بھجوایا ۔جب دیوان مول راج کی فیملی کو قید کرکے لاہور لے جایا جارہا تھا تو لوگ راستے میں جمع ہوجاتے تو مول راج کی دادی دونوں ہاتھوں سے سینہ کوبی اور بین کرتے ہوئے کہتیں ”اساں قیدی تخت لہور دے ہاں اساں قیدی تخت لہور دے ہاں“ ۔یہی نعرہ آج سرائیکی تحریک کا معروف پر اثر نعرہ ہے۔ملتان کے عوام اور سرائیکیوں کے دکھ درد کو اجاگر کرتا ہے اور سرائیکی نوجوان نسل کو محرومیوں کے ذمہ داروں کا تعاقب کرنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد پر مجبور کرتا ہے۔مگر سرائیکی راہنما نہ جانے کیوں ایک حملہ آور کو ہیرو اور اس پر حملہ کرنے والے کو دشمن سمجھتے ہیں ۔2جون کا دن سقوط ملتان منانے والے دیوان مول راج کی قید کے بعد تخلیق ہونے والے نعرے ” اساں قیدی تخت لہور دے ہاں“ کو یاد رکھیں۔نواب مظفر خان سرائیکیوں کا ہیرو نہیں بلکہ ڈاکو ،غاصبوں کا نمائندہ تھا۔
فیس بک کمینٹ