زندگی ماہ و سال کے گذرنے کا نام ہےزندگی کی کتاب میں خوشیوں خوشبووں اور خوش نصیبیو ں کے ابواب جتنے ز یادہ ہوں کم لگتے ہیں مگر دکھ اور غم کے چند اوارق بھی بہت اندوہ ناک ، ناقابل برداشت اور ناقابل فراموش ۔۔ سال دوہزار بیس پوری دنیا کے لیے نا قابل فراموش سال تھاجو زندگی و موت کی جنگ انسان کی حقیقت کرونا وبا سے لڑتی ہوئی انسانیت۔طاقت ور اقوام عالم کی بے بسی ۔گلوبل ویلج کی کم مائیگی ماحولیاتی صفائی کے عجب قدرتی طریقوں کو آشکار کر گیا۔
یہ سال جو کل سے سالِ گذشتہ کہلائے گا سب کے لیے ایک مشکل ترین سال رہا اور خواتین کے لیے بھی ایک بےحد مشکل سال ۔۔۔جس خوف و ہراس کی صورت کو کورونا وبا نے پوری دنیا میں پھیلاکر سب کے اعصاب شکن کیے ۔اس خوف نے خواتین کو بھی بری طرح متاثر کیا ۔گھروں میں لاک ڈاؤ ن کی اصطلاح پہلی مرتبہ سمجھ میں آئی اور سب کی ذمہ داری ایک خاتون کے سر پر آن پڑی ۔شوہر بچے ساس سسر گھر بار سب کی دیکھ بھال ناز برداری ۔تیماداری ۔۔۔اور اوپر سے کام کاج کے لیے مددگار ملازم طبقے کی چھٹی انتظامی لحاظ سے بے حد مشکلات کھڑی ہوگئیں ۔۔کورونائی سال نے زندگی کے ہر شعبے کو ہلا کر رکھ دیا۔رونق بھرے شہر وں میں کوئی رونق باقی نہ رہی سرد ہوا کی خوف زدہ سسکیوں میں دو ہزاربیس کاسال نئی امیدوں اور تمناوں کے سورج کےساتھ زندگی کے افق پر نمودار ہوا تھا وہ موت مایوسی بے بسی کربناکی کی گہری دھند میں کھوگیا وہ دمکتا جگمگاتا آسماں ۔۔وہ حسین قوس قزح ۔وہ کہکشاں اک داستاں بن کر رہ گئی زندگی کے نغمے الاپتے پرندے خالی درختوں میں سہم کر رہ گئے ۔انسانی زندگی ایک بہت بڑا المیہ نظر آنے لگی ۔بظاہر مضبوط نظر آنے والے انسان سانس کھینچتے ہوئے زندان کے قیدی بن کر زندگی کی بازی ہارنے لگے ۔
مٹی کی طرح ٹوٹ کے بکھرا زمین پر
انسان تو ازل سے بڑا بدنصیب تھا
دنیا ستاروں سے چنا ایک سائبان معلوم ہونے لگی جس میں سب زندگی کی پناہ ڈھونڈ رہے تھےتعلیم کا ایک سال صحت حفاظت کی نذر ہوگیا اور گھر میں خاتون خانہ کی ذمہ داری دوگنی ہوگئی ۔آن لائن کلاسسز تعلیم کا طریقہ عام ہوا ۔اور زندگی چار دیواری میں محدود ہوکر مسائلستان نظر آنے لگی ہمارے ملک میں آٹھ مارچ سے لے کر اگست تک لاک ڈاون۔غیر یقینی کی صورت حال نے اور بڑھتی ہوئی بے روز گاری نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کردئیے اور کرونا کے باعث بڑھتی ہوئی اموات نے زندگی کو ایک انجانے شہر درد میں پہنچا دیاویکسین تاحال نہ آئی ہری بھری شاداب ہنستی بستیاں اجڑنے لگیں اس کرب ناک صورت حال نے ہمیں بدل ڈالا۔۔خواتین نےگھر کے مردوں کی بے روزگاری کا حل ان کے ساتھ مل کر نکالنا شروع کردیا ۔آن لائن تعلیم وتربیت باورچی خانے طبی خدمات سب انٹرنیٹ کی دنیا میں سمٹ آئے ۔برے دنوں کے بعد اچھے دن بھی آتے ہیں مگر یہ برے دن کٹیں گے کیسے یہ بہت مشکل رہا ۔۔وہ زندگی جو حسن محبت تخلیق کی سچائی کے گرد گھوم رہی تھی اور دنیا بہت تیز بھاگ رہی تھی مگر اب ایک سال خاموشی تنہائی اداسی وبا موت قرنطینہ لاک ڈاون ویکسین کے خیالوں سے آشنا ہوئی ۔اس سال کااختتام ان عظیم لوگوں کی خدمات سے لبریز ہے جنھوں نے کرونا سے بچاو کی جنگ میں فرنٹ لائن سپاہی کے فرائض سر انجام دئیے ۔۔اور جان سے گذر گئے ۔
خزاں اور سرد رت کے ملاپ پر زندگی کی رمق جاگ رہی ہے جو ۔خواتین ایس او پیز پر خود بھی عمل پیرا ہیں اور اپنے پیاروں اور دوسروں کو ترغیب دے رہی ہیں ان کے لیے نیا سال نئے حوصلے کامتقاضی ہے ۔شادی بیاہ خوشی غمی میں اپنی ترجیحات مرتب کیجیے ۔خود کو منظم کیجیے تاکہ آپ کا گھر منظم ہو سکے ۔مردوں خاص کر اپنے بیٹوں کا حوصلہ بلند کیجیےان ذہنوں میں آنے والے سال کے خواب روشن ہوں، زندگی اپنی اہمیت جتلا چکی ہے ۔صفائی ستھرائی اپنی ضرورت سے بڑھ کر احساس دلا چکی ہے بیماری کاخوف اس سے بچاو کی جگہ لے چکا ہے۔بے روزگاری کیا ہوتی ہے سب کو احساس ہوچکا ہے ۔باہمی ربط و محبت اور معاشرتی ذمہ داری کیا ہوتی ہے کچھ حد تک مفہوم سمجھ آچکا ہے ۔زندگی درد کے دائرے سے نکل کر سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ایک در بند ہورہا ہے تو سو در کھلنے کی امید ہے ۔سوچ میں بہتری اور زندگی کی اہمیت کا احساس سال گذشتہ میں جس طریقے سے اجاگر ہوا وہ پہلے کسی سال کے اختتام پر نہیں تھا ۔زندگی کو سمجھ کر جینا خواتین کی پہلی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔امید کا دامن بہت وسیع ہے اور اس سے بھی وسیع دعا کا دامن ہے تو آئیے نئے سال میں دعا گو ہوتے ہوئے اپنے غموں کو بھلا کر آس کے دیپ جلاتے ہیں۔جو بچھڑ گئے وہ آسمان کی وسعت میں کھو گئے ۔انہیں تتلیوں اور جگنووں کے دیس جانا تھا ۔اب رات کے صحرا میں بھٹکتی چاندنی آنکھوں کی کرن بن کر ان کو ڈھونڈے گی ۔مگر جو زندہ ہیں ان کے لیے ہمیں ایک صاف ستھرا محبت کا نگر آباد کرنا ۔مجھے یقین ہے کہ دو ہزار بیس کی یادیں اگر اشکبار تھیں تو آنے والے سال کی بہار یں مشک بار ہوگی ۔
ہم نے پلکوں پر سجا رکھے ہیں اشکوں کے چراغ
فیس بک کمینٹ