ادب میں خواتین کا کردار بہت اہم ہے ۔جہاں تک پذیرائی کا تعلق ہے تو ہمارے ترقی پذیر نسبتاً کم تعلیم یافتہ پدر سری معاشرے میں بہت زیادہ پذیرائی بھی خواتین قلم کاروںکو ملی ہے۔ چند سہی مگر ادبی خواتین کے نام پر شاہراہیں بھی منسوب کی گئیں ہیں اور یہ بھی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ اکیسویں صدی میں ہمارے کچھ معاشرتی گروہوں ۔۔ دیہات اور پسماندہ علاقوں میں ذات پات کے نظام قبائل جرگہ اور برادری سسٹم کی وجہ سے ایک روایتی تنگ نظری بھی قائم و دائم ہے جن میں خواتین کے کام کو سراہنا اور ان کے نام کو معروف کرنا یا عوامی سطح پر پیش کرناآج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جانب ایک بالکل مختلف صورت حال ہے ۔۔۔۔۔۔بلکہ اب سوشل میڈیا کی مقبولیت کے دور میں فیس بک اور یو ٹیوب اور دیگر چینلز کی موجودگی میں پذیرائی حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا ہے ۔مسئلہ خواتین کی جانب سے اچھا ادب تخلیق کرنا اور اس ادب کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات و تحفظات کا اہتمام کرنا ہے۔۔۔۔۔ ۔
بہت سی ایسی قلم کار ہیں جن کے پاس اپنی کتاب کی اشاعت کے لیے سرمایہ ہے اور نہ ہی پبلشنگ کے لیے مناسب رہنمائی کی سہولت ۔ مرد ہوں یا خواتین ان کے لیے ادب ایک شوق کا درجہ رہا ہے ۔یہ کوئی منافع بخش کاروبار نہیں ہے ۔۔۔۔اور ادب کو کاروبار سمجھنے والے بذات خود ادب کی ترقی میں حائل دیوار کی مانند ہیں ۔۔۔۔۔۔تخلیق کار کا خود اپنے خرچے پر کتابیں شائع کروانا ۔انہیں ادبی اور قدرے باذوق دوستوں میں بانٹنا اور پھر خود اپنے جیب خرچ سے ان کی تقریب رونمائی کروانا وغیرہ وغیرہ یہ مسائل ہمیشہ سے درپیش ہیں ۔۔۔۔قلم کاروں کو جن میں خواتین بھی شامل ہیں کئی مسائل درپیش ہیں معروف ادبی تنظیمیں بھی معاشی مسائل کی وجہ سے ان قلم کاروں کو سامنے نہیں لاسکتیں جن کے پاس بیس تیس افراد کے اکٹھ کے لیے چائے پلانے کے پیسے نہ ہوں ۔۔پھر مہمان چاپلوسی ۔مہمان ۔جاسوسی اور مہمان خصوصی جب تک سیاسی نہ ہوں ادبی تنظمیں بھی بے مزہ رہتی ہیں ۔۔۔
بڑے اداروں میں جو عہدے داران ادبی حوالے سے براجمان ہیں ان میں سے اکثریت کو ناقابل علاج ٹھرک کی بیماری لاحق ۔۔انہیں خواتین کی تحریر پڑھتے ہی پہلے عشق ہوتا ہے اور بعد میں تحریر کا بیڑہ غرق ۔۔اور انتہائی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ جس طرح مرد حضرات میں ادبی سطح پر گروپنگ” گروہ بندی “ہے اسی طرح خواتین میں گروپنگ یا گروہ بندی ہے ۔کچھ رائٹرز اپنے نظریات کے مطابق پذیرائی چاہتی ہیں تو کچھ شاعرات اپنی گروپنگ کی بنیاد پر حقوق کی متلاشی ہیں۔۔۔۔۔۔
بہرحال ہمیں ادب کو سیاست سے پاک کرتے ہوئے غیر ادبی لوگوں سے اس کی ترقی و ترویج کی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔زندگی میں ادب سلیقہ مندی سے رویوں کی بہتری خاص کر سماجی اور روحانی سطح پر سکھاتاہے اور خواتین سے بہتر سلیقہ شعاری کون جان سکتا ہے ۔اس لیے حقوق و فرائض کی بات سے پہلے اچھا ادب تخلیق کر نے پر زور دینا ہوگا ۔شاعری میں فیشن خود پسندی و خود نمائی ڈراموں میں صرف شادی طلاق اور ساس بہو کے جھگڑے نثر نگاری میں الفاظ کے چناو کا فقدان ۔۔بہت کم خواتین اس بات سے واقف ہیں کہ موسیقی و مصوری کی طرح تخلیقی ادب بھی ریاضت کا تقاضہ کرتا ہے ۔فاطمہ ثریا بجیا ۔۔بانو قدسیہ ۔حسینہ معین ۔۔ ۔ادا جعفری ۔۔رابعہ نہاں ۔۔۔شبنم شکیل ۔۔۔پروین شاکر ۔۔۔۔بشری رحمان یہ خواتین پڑھنے والوں کے ادبی اکادمی کا درجہ رکھتی ہیں ۔۔جن خواتین کو پذیرائی مل رہی ہے انہیں خوش ہونا چاہیے کہ انہیں فی زمانہ کئی سو چینلز اور بیسیوں ذرائع ہونے کے باوجود سنا اور پڑھا جارہا ہے ۔رہی ایوارڈز کی بات تو ان کی حیثیت صرف آمریت کے دور محسوس کی جاتی رہی ۔
جمہوری دور میں ایوارڈ بہت حد سیاسی ہوتے ہیں اس لیے ان سب سے ماورا ہو کر اپنا کام کیجیے ۔حق کی بات سے پہلے فرض ادا کیجیے ۔پذیرائی کے حصول سے پہلے پذیرائی کرنا سیکھیے ۔اور نئی نسل کو ادب کی جانب راغب کرنے کے اقدامات کی طرف توجہ کیجیے ۔ آخر میں کیوں نہ لکھو ں کہ ہمارے معاشرے میں اچھے تخلیق کار خواہ مرد ہوں یا خواتین ہر دور میں گنے چنے ہی ہوتے ہیں اس لیے فی زمانہ گنےچنے لوگوں کو بھی اپنا تخلیقی معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی ذات سےنکلیے اور انعام و اکرام کے صلے کی بجائے اچھا معیاری ادب تخلیق کرنے کی جد وجہد جاری رکھیے ۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ