دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو
صبحِ نور کو
میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ ء دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی رات کو
جہل کی بات کو
میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پر کھلنے لگے ،تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے، تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے، تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو
ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر
کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا
فیس بک کمینٹ