کہیں کوئی پٹواری تھا۔ ہُن تھا کہ صبح سے شام تک برستا ہی رہتا تھا۔خوشامدیں چاپلوسیاں اُس سے سَوا۔ بڑے بڑے جاگیرداروں کی جانب سے صاحب سلامت کے نذرانے الگ۔تحصیلدار سے کمشنر تک سب کاوہی بھیدی اور سب اُسی کے منگتے۔ دورہ سیکریٹری کا ہو،وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کا رقم تو پٹواری کی جیب سے نکلتی ہے اور پٹواری ساری کی ساری رقم اور دورے کا سبھی خرچہ سود سمیت سائل کی جیب سے نکالتاہے۔یوں”صاحبان ِ جود و سخا“کی کھلی کچہریوں سے لے کر سیلابی دوروں تک جمع پونجی اگر لُٹتی ہے توعام آدمی کی۔ضلعی عمال تک اخراجات کی صرف فرضی رسیدیں ہی جاتی ہیں تاکہ بروقت کیش ہوکر رقم تھرو پراپر چینل ”اوپر“پہنچائی جا سکے۔پٹواری ، پٹوار خانے میں جائے نہ جائے مگر گلشن کا کاروبار تو چلتا ہی رہتا ہے۔پٹواری ہو یا کمائی کی سیٹ پر بیٹھاکوئی بھی چھوٹا اہلکار، یہ سبھی ہمارے انتظامی نظام کی وہ بنیادی اکائیاں ہیں کہ جو کرپٹ نہ بھی ہونا چاہیں تو سسٹم اُنہیں ایماندار نہیں رہنے دیتا ۔ایسے میں اس چھوٹے اہلکار کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ اِس سسٹم کا حصہ بن کر لوٹ مارکا بازار گرم کر لے وگرنہ مزاحمت کی صورت میں یہ سسٹم ہی اُسے نکال باہر پھینکتا ہے۔
میٹر بجلی کا لگنا ہو یا سوئی گیس کا،پٹواری محکمہ مال کا ہویا انہار کا،کلرک ٹیکسیشن کے محکمے کا ہو یا میونسپل کمیٹی کی تہہ بازاری برانچ کا ،محرر تھانے کا ہو یارجسٹری برانچ کا، اِن کی لوٹ کھسوٹ کا نظام اِن کی ہیبت و دہشت کے بل بوتے پر چلتا ہے۔لیکن اپنی تمام تر قہر باری کے باوجودہماری ہئیت ِ حاکمہ کا یہ بنیادی کل پرزہ نہ صرف خود عدم تحفظ کا شکار رہتا ہے بلکہ اِسی عدم تحفظ کو عوام الناس تک توسیع دے کر اپنے لیے ”معاشی اور سماجی تحفظ“ تلاش کرتا رہتا ہے یہ سوچ کر کہ شاید کل ہو یا نہ ہو۔اپنے اپنے محکمے کے بڑے بڑے عزت داروں کی بدعنوانی کا بھرم رکھنے والا یہ نچلا عملہ خود تمام عمر ”بے بھرما“ ہی رہتا ہے۔اپنی اپنی عزت نفس کے طلب گار افسر اپنی خود ساختہ ایمانداری کاپندار اِن چھوٹے اہلکاروں کی برسرعام ذلت ورسوائی پر استوار رکھتے ہیں اور یوں کرپشن کی علامت سمجھ لیے گئے یہ پٹواری اور محرر افسرانِ بالا سے وصول کی گئی تمام تر ذلت سود سمیت اوپر کی بجائے عوام کی طرف منتقل کر دیتے ہیں کہ پانی کی طرح خجالت و ذلالت کا بہاؤ بھی نیچے کی طرف ہوتا ہے۔ یہ امر تو عام مشاہدے میں ہے کہ طبقاتی منافرت بے شک اوپر نیچے کے طبقات ہی میں رہتی ہے لیکن طبقاتی استحصال ہمیشہ ایک ہی طبقے کے لوگ ایک دوسرے سے روا رکھتے ہیں۔پولیس کے کسی گئے گزرے سپاہی کو آپ نے کبھی لینڈ کروزر سوار کو روکتے اور جھڑکتے نہیں دیکھا ہو گا ۔وہ اگر ہاتھ میں پکڑے ڈنڈ ے کی ضرب سے کسی کو روکنے کی سکت رکھتا ہے تو اپنے جیسے کسی میلے کچیلے کپڑوں والے موٹر سائیکل سوار کو کہ جس کی یہ مسکین سواری بھی کرایہ پر لی گئی ہوتی ہے۔
عجیب گورکھ دھندے میں پھنسی ہوئے ہیں اِس قوم کے افراد بھی کہ جنہیں عدم ِتحفظ کے احساس میں کسی اور نے نہیں بلکہ اُن کے اپنے جیسے طبقات اور اپنے جیسے لوگوں نے مبتلا کر رکھا ہے۔بد انتظامی، بے عملی اور غیر ذمہ داری کا عالم تو یہ ہے کہ اگر آپ نے بینک میں اکاؤنٹ بھی کھلوانا ہے تو کسی ایسے بینک کا رخ کریں گے کہ جہاں آپ کی شناسائی ہو کیونکہ اس کے بغیر توآپ کا چیک بھی پاس نہیں ہوتا۔ پہلے سنا کرتے تھے کہ نجی کمرشل ادارے سرکاری اداروں کی نسبت بہترین خدمات مہیا کیا کرتے تھے۔مگر اب تو وہ آپ کے اپنے چیک پر دستخط نہ ملنے جیسے اعتراضات لگا لگا کر مت مار دیتے ہیں۔لیکن اگرسفارش اور شناسائی ہے تو ہر قسم کی بے قاعدگی معاف اور ہرنوعیت کی خطا سے درگزر۔ظلم کے اس نظام نے جمہوریت کے ”مقدس“لحاف میں خود کو اس طرح لپیٹا ہوا ہے کہ اس سے جان چھڑانا ممکن نہیں رہا۔قدم قدم پر سراسیمگی اور ہزیمت نے عوام الناس کی انا اور خودادری کا ستیا ناس کر رکھا ہے۔اب تو تدبیر سے بھی توقیر نہیں ملتی اور یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کل شام جس راستے سے ”باعزت“گزر ہو اتھاوہاں آج کوئی لٹھ بردار اِسی عزت کا فالودہ بنانے نہیں کھڑا ہوگا۔
فیض آباد پر تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکے دھرنے نے حکومتی رِٹ کو بیچ بازار ننگا کر دیا ہے۔اب تک ہر مسئلے میں ”پنگ پانگ“ کھیل کر جان چھڑانے والی حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ الزامات کی کیچڑ میں لتھڑی گیندکو کورٹ سے باہر بیٹھے کس تماشائی کے ہاتھ میں اس طرح تھمائے کہ اصل کھلاڑی بچ نکلیں۔اگر ”ٹائمنگ “ کو معاملہ فہمی کی کسوٹی بنائیں تو صاف لگتا ہے کہ کھیل حکومت نے خود بگاڑا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کی آ بزرویشن بھی بجاہے کہ دارلحکومت کی انتظامیہ جڑواں شہروں کی لاکھوں کی آبادی کے مصائب کاکسی کرکٹ میچ کی طرح مشاہدہ کرتے ہوئے لطف انداز ہو تی رہی ہے۔اور اب جب کہ پانی مقدس مہینے کی آمد کے ساتھ ناک سے اوپر ہو چلا ہے تو خیال آیا ہے کہ دھرنے والوں کو عدالتی فیصلے کا احترام کرنا چاہئے۔اِس سادگی پر تو اب کے ”مرزااسداللہ خان غالب“بھی مرنے کو تیار نہیں کہ جب گذشتہ تین چار مہینوں سے ملک کی سب سے بڑی لیڈرشپ گلی گلی محلے محلے وطن ِ عزیز کی سب سے بڑی عدالت کو نہ صرف بے توقیر کرتی چلی آرہی ہے بلکہ اُس کا فیصلہ ماننے سے بھی انکاری ہے تو کس منہ سے دھرنے والوں کو کہا جا سکتا ہے کہ آپ عدالت ِ عالیہ کا فیصلہ تسلیم کریں۔ انگریزی زبان کا محاورہ ہے کہ اپنے گندے پوتڑے سرعام نہ دھوئے جائیں وگرنہ رہی سہی عزت بھی ملیا میٹ ہو کر رہتی ہے مگر گھڑمَس کے عالم میں جب اپنی اپنی انائیں ہی معتبر ٹھہر چکی ہوں تو کون اِس محاورے میں پوشیدہ دانش کو سمجھتا ہے۔جس گھر میں مائیں اپنے بچوں کے سامنے اپنے شوہر کو ہر وقت بے عزت کرتی رہتی ہیں تواپنی عزت بھی کھو بیٹھتی ہیں اور پھر اولاد سے تقاضا کرنے کے قابل نہیں رہتیں کہ اُن کی بھی تکریم کی جائے۔
کسی بھی ملک میں قومی اداروں کا پنپنا گھڑی دو گھڑی کا کام نہیں ہوتا بلکہ اِس کے پس منظر میں صدیوں کی کاوشیں نہاں ہوتی ہیں۔امریکہ سمیت کسی بھی مستحکم ملک کی بنیادیں اگر اپنی جگہ پر قائم ہیں تو انہی اداروں کی توقیر کے سبب۔جب کہ ہماری تاریخ اِس کے برعکس اداروں کی بربادی سے عبارت رہی ہے کہ جس کے وجہ سے کسی بھی اسلامی ملک میں پالیسیوں کا تسلسل قائم نہیں ہو سکا اور جانشینی کا فیصلہ عمومی طور پر تدبیر کی بجائے تلوار سے ہوتا چلا آیا ہے۔فرض کریں اگر ہم نے ملکی بقا کی قیمت پر بھی جمہوریت جمہوریت کھیلنے کا تہیہ کر رکھا ہے تو اِس کے پاسبان اداروں کا احترام کرنا بھی سیکھ لیا جائے۔مستحکم سماجی ساخت کا تقاضا ہے کہ قومی سطح کے تین شعبوں یعنی عدلیہ، عساکر اور مذاہب سے وابستہ شخصیات کے احترام کو اِس طرح یقینی بنایا جائے کہ اِن کا اندرونی احتسابی عمل ہی اُن کی نیک نامی کی بنیاد رہے نہ کہ اُسے گلی گلی تضحیک کا نشانہ بنا کر ملک دشمن قوتوں کو مضبوط ہونے کا موقع دیا جائے۔ طوائف الملوکی کو ہوا دینا تو نہایت آسان مگر معاشرے کو پھر سے قانون کی حکمرانی میں لانا بہت مشکل ہوتا ہے۔اگر ملکی قیادت کی باگ ہاتھ میں رکھنے والے ہی برسرِ عام اپنی عدلیہ اور عساکر کے خلاف دشنام طرازی کو وطیرہ بنا لیں تو کہاں جائے گا قانون اور کہاں ہوں گے اِس کے نفاذ کے ذمہ دار ادارے۔ پھر یہی کچھ ہو گا کہ چند سو افراد لاکھوں لوگوں کو سارا دن اپنے گھر اور دفاتر کا راستہ ڈھونڈنے کی خواری پر لگا دیں گے۔ مجھے خوف آتا ہے کہ اگر اسلام آباد کی مقبوضہ داخلہ گاہ فیض آباد کی اطراف کی گلیوں میں پاگلوں کی طرح بھٹکنے والے لاکھوں لوگوں پر اِن دنوں واقعی پاگل پن سوار ہوگیا اور انہوں نے اپنی لیڈرشپ کی اتباع میں جگہ جگہ لگائے گئے بیرئیرپر کھڑے سپاہیوں کے نازیبا اور تکلیف دہ احکامات ماننے سے انکار کر دیا تو پھر قانون اور قانون کی حکمرانی کا کیا بنے گا۔ اِس سے پہلے کہ اِس ملک کی درماندہ اکثریت کو معلوم ہو جائے کہ وہ واقعی ”اکثریت“ میں ہیں ، ہمیں اپنے پاسبان اداروں کی تکریم کی طرف لوٹ جانا چاہئے۔
فیس بک کمینٹ