• مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • اختصاریئے
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • سیالکوٹ
      • گوجرانوالا
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
Facebook Twitter
جمعہ, ستمبر 29, 2023
  • پالیسی
  • رابطہ
Facebook Twitter YouTube
GirdopeshGirdopesh
تازہ خبریں:
  • رؤف کلاسراکا کالم:بجلی مہنگی کیسے ہوئی؟ … (16)
  • کشور ناہیدکا کالم:رات دن نوٹ گنتی قوم کے ہاتھ خالی
  • سید مجاہد علی کا تجزیہ:کیا فیض آباد دھرنا کیس میں عدالتی حکم فوجی افسروں کے احتساب کا دروازہ کھول سکتا ہے؟
  • عطا ء الحق قاسمی کا کالم:مدینے کی گلیوں میں
  • حیرت کدے میں حیرت ۔۔ایک فکر افروز کتاب کا ظہور : رضا مہدی باقری کا تبصرہ
  • سندھ میں رینجرز اور پولیس کی کارروائی کے دوران تین افراد ہلاک، پانچ زخمی
  • آنکھوں کے جعلی انجیکشن سپلائی کرنے والا عارف والا سےگرفتار : ملتان میں دو مقدمےدرج
  • فیض آباد دھرنا معاہدہ کرنے والوں کےخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائیں : چیف جسٹس فائز عیسیٰ
  • نصرت جاویدکا تجزیہ:ریاست کرے تو کیا کرے؟
  • خالد مسعود خان کا کالم:ادارے ایسے برباد نہیں ہوتے…(5)
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • اختصاریئے
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • سیالکوٹ
      • گوجرانوالا
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
GirdopeshGirdopesh
You are at:Home»لکھاری»حفیظ خان»نصاب کا فتور۔۔سرکشی۔۔حفیظ خان
حفیظ خان

نصاب کا فتور۔۔سرکشی۔۔حفیظ خان

رضی الدین رضیدسمبر 25, 20170 Views
Facebook Twitter WhatsApp Email
hafeez khan
Share
Facebook Twitter WhatsApp Email

تعلیمی اداروں میں تدریسی نصاب اگرچہ یکجہتی کے فروغ کے لیے بنایا جاتا ہے مگر صرف ہمارے ہاں ہی نہیں دنیا کے اکثر ملکوں میں یہ نفاق اور نظریاتی تشدد کا باعث بن چکا ہے۔زمانہ ¿ موجود میں دنیا نصابی ترتیب و تدوین کے اعتبار سے دو حصوں میں منقسم ہو چکی ہے۔پہلے حصے میں وہ سبھی ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں کہ جن کے ہاں احسن اخلاقیات کے علاوہ صرف سائنسی، معاشی اور تجارتی علوم میں مزید تحقیق وجستجو کی راہ دکھائی جاتی ہے۔اِسی نصاب کی بدولت جہاں نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں وہاں آفات و بلیات اور بیماریوں پر قابو پانے کی پیہم کاوشیں جاری ہیں۔گذشتہ ایک صدی میں ہونے والی تمام تر ایجادات ایک طرف اور محض انفیکشن کے خلاف پینسلین اور ملیریا کے خلاف کونین کی دریافت ایک طرف کہ جس نے لاکھوں لوگوں کو بے وقت مرنے سے بچائے رکھا ہوا ہے۔وہ سبھی خواب جو کبھی داستانوں کی زینت ہوا کرتے تھے صرف ایک صدی کی جست میں اس طرح حقیقت بن چکے ہیں کہ حیرت کو بھی حیرت نہیں ہوتی۔
دوسری طرف وہ ممالک ہیں کہ جہاں نصابی کاریگری محض کنفیوژن کو جنم دے رہی ہے اورایسے روبوٹ پیدا کئے جارہی ہے کہ جن میں پیشہ ورانہ مہارت تو ہوگی مگر انسانی اقدار ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔بدقسمتی سے ایسے ممالک میں وطن ِ عزیز پاکستان بھی شامل ہے۔ہمارے ہاںنصابی کتب میں اگرچہ اخلاقیات پرصفحات کے صفحات سیاہ ملیں گے مگر فکری تضادات کے سبب پیدا ہونے والے منافقانہ طرز عمل نے اِن کی اثر انگیزی کوغیر موثرکر رکھا ہے۔ سندھ وادی پر مشتمل ہمارا موجودہ پاکستان اپنی فطری خوشحالی کے سبب ہمیشہ سے حملہ آوری کی زد پر رہا ہے۔یہ حملہ آور چاہے دیبل کے راستے داخل ہوئے ہوں یا خیبر کے راستے، سبھی کے طرز عمل میں ایک عمل یکساں تھا کہ یہاں کے لوگوں سے اُن کا حافظہ، اُن کی یاداشت، اُن کی زبان اور ثقافت کا چھین لیا جانا۔ذرا سوچئے کہ صدیوں کی حملہ آوری نے یہاں کی مقامی آبادی کی شخصی ماہئیت کو کس قسم کے قالب میں ڈھالا ہو گا۔یقینا ایک ایسا گونگا اور برہنہ فردکہ جسے کچھ بھی یاد نہیںکہ اُسے کس نے جنم دیا، کس نے پالا پوسا، وہ کون سی زبان بولتا تھا، کون سے تہوار مناتا تھااور اُس کا رہن سہن کیسا تھا۔کسی نے اُسے فضلو کے نام سے پکارا تو وہ فضلو ہو گیا اورکسی نے گاموں کے نام سے آواز دی تو گاموں بن بیٹھا۔
ہمیں ایک واضح نظریات کی حامل قوم کی بجائے مختلف الجھنوں میں الجھا ہوا فاترالعقل گروہ بنانے میں تاریخی ”نس بندی“ نے ظالمانہ سلوک کیا ہے۔صدیوں پہلے کے حملہ آور بھی یہی کیا کرتے تھے کہ اُن کی آمد سے پہلے کی تاریخ کو بہر صورت مفتوحہ قوم کی یاداشت سے بزور ِ شمشیر کھرچ کر مٹا دیا جائے اور ہمارے آج کے نصاب تراشوں نے بھی اِسی حکمت کی پیروی کو مقدم جانا ہوا ہے کہ یہاں ہزاروں برسوں سے رہنے والے لوگوں کو یہ نہ بتایا جائے کہ اُن کے اجداد کون تھے، کیسے تھے اورکیا کرتے تھے بلکہ انہیں ”ضیاالحقی“ عہد سے قبل پڑھائے جانے والے تاریخ، جغرافیہ اور شہریت کی غیر فطری تدفین کے بعد محض اِس بھونپوکی پکار پر لگا دیاہے کہ آج سے تمہارے لیے فلاں سنہ سے پہلے کی تاریخ کوئی تاریخ ہی نہیں یا تمہیں محض یہ یاد رکھنا چاہئے کہ تم فلاں سنہ سے ہو اور اُس سے پہلے تمہارا نہ توکوئی وجود تھا، نہ ہی تہذیب،شعر و ادب اور ثقافت۔ضیاالحقی عہد میں نصاب بنانے والوں نے نہ جانے کیسے یہ سمجھ لیا کہ تاریخ کو مسخ کرنے کے علاوہ اُس کے مختلف ادوارکو آج کے دور میں بھی پردہ پوشی کے چھو منتر کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے۔ چند لاکھ افراد کے قتلام اور لائبریریاں جلانے کے عمل کے ذریعے اقوام کی اجتماعی یاداشت سے کھلواڑ کا دور گزر چکا کیونکہ آج کا عہد اپنا ”بیک اپ“ساتھ ساتھ مرتب کرتا رہتا ہے۔
یہی سبب ہے کہ ہم آج تک ”قوم“ یا ”قومیت“ کی تعریف میں پھنسے ہوئے ہیں۔ایک طرف اُمہ کے تصور کو قوم سے جوڑتے ہیں تو پچاس اسلامی ملکوں کے درمیان ”ویزے“ کی پابندی ہمارا منہ چڑانے کو آ جاتی ہے۔ہم سے تویورپ کے 26 شینجن (Schengen) ممالک اچھے کہ جنہوں نے علیحدہ جغرافیائی وحدتوں کو بھی اپنی واحد پہچان میں حائل نہیں ہونے دیااور ویزے کی پابندیوں کو عملی طور پر مٹا کر رکھ دیا۔ ابھی ہم قومیت کے مذہبی تشخص سے باہر نہیں آپاتے کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم وہ زندہ اور پائندہ قوم ہیں کہ جس کی پہچان سب سے پہلے پاکستان ہے۔ اِس کے بعد ہمارا نصاب ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری ایک قومی زبان بھی ہے کہ جس کا نام اُردو ہے۔ مگر ہمارا نصاب ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ 1947ءمیں مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں پر مشتمل دو قومی نظریے کی اساس پر بننے والا ملک 1971ءمیں قومیت کی ”لسانی “ تعریف کی بنیاد پر اپنے مشرقی بازو سے کیوں محروم ہو گیاتھا۔اِس وقت ہمارے نصاب نے ہمیں ہماری تاریخ سے محروم کر دینے کے باوجودقومیت کے تشخص کے سلسلے میں ہمیں ایک ایسے اندھیرے چوراہے میں لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں ایک طرف ہمارے مذہبی رہنماو¿ں کی بتائی ہوئی تعریف ہے کہ جس کی جڑت اُمہ کے تصور سے ہے۔ایک جانب ہماری عساکر کی پاکستانیت پر مبنی حب الوطنی ہے تو اُس کے مقابل سیاسی رہنماو¿ں کی پارٹی سیاست کا اساسی زاویہ ¿ نگاہ ہے کہ جس کا مقصد قومی کی بجائے ذاتی مفادات کا تحفظ ہے۔ایسے میں قومیت کی تعریف ایک عام آدمی کے ہاں بھی ہے کہ جس کا پہلا اور آخری منشور صرف ایک وقت کی ہی سہی مگر پیٹ بھر روٹی ہے۔اب ایسے میں ابہام در ابہام اور الجھاو¿ در الجھاو¿ نے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے جس قسم کے گروہ کو جنم دینا تھا وہ اُس پاکستانی ”قوم“ کی صورت دنیا کے سامنے موجود ہے جن کے سبز رنگ کے پاسپورٹ میں محض قومیت کے خانے میں ”پاکستانی “لکھا ہوا ہے۔ ہماری اشرافیہ ”بلیو پاسپورٹ“ اور ”دوہری شہریت“ کے اقامے رکھنے کے سبب اِس قسم کی شناخت سے بھی جان چھڑا چکی ہے۔اگر الیکشن لڑ کر تین چار سال کے لیے وزارتی پروٹوکول کے مزے لوٹنے ہوں تو ”جزوقتی“ پاکستانی بن جانے میں کیا ہرج ہے بصورت دیگر پھر اپنے کسی دیگر مستقل مستقرکا پاسپورٹ یا کم از کم اقامہ تو ہوتا ہی ہے۔
ایک دور تھا کہ جب اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں میں ”غیر نصابی“ سرگرمیوں کے نام پر شخصیت سازی کی جاتی تھی مگر اب اُسے بھی بدل کر ”ہم نصابی“ اس لیے کر دیا گیا کہ آخر ”نصاب“ سے بھاگ کر کوئی جائے گا کہاں۔شخصیت سازی جاتی ہے بھاڑ میں تو جائے، نئی نسل انسانی اقدار و اوصاف سے عاری روبوٹ تو بن جائے۔میں حیران ہوتا ہوں کہ جب ہمارے مختلف قسم کے”پریشر گروپس“ ٹیکسٹ بک بورڈ زکی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کیسے کیسے پریشر استعمال نہیں کرتے اور ہماری سیاسی حکومتیں محض اپنے اچھے ”آج“ کے لیے آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سودا کرنے کے لیے اُن کے ”پریشر“ میں آنے کے لیے ذرا سی دیر بھی نہیں لگاتیں اِس لیے کہ اُن کے اپنے بچے تو ہر قسم کی برین واشنگ اور Robotic treatmentسے محفوظ و مامون ترقی یافتہ ملکوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ کیا کوئی کبھی سوچے گا کہ پکستان کی جغرافیائی وحدت میں رہنے والوں کی اصل شناخت ہے کیایا ہم یونہی کرایے پر دستیاب وہ گروہ ہی رہیں گے کہ جنہیں ایک خاص مقصد کے لیے بنائی گئے نصاب میں ڈھال کر مختلف قسم کے مذہبی، مسلکی اور لسانی تعصبات کے حوالے کر دیا گیا۔

فیس بک کمینٹ

Share. Facebook Twitter WhatsApp Email
Previous Articleگر جناح بانوے برس کے ہوتے۔۔وسعت اللہ خان
Next Article بنگلہ دیش دنیا کا بہترین ملک ۔۔اکانومسٹ کی رپورٹ
رضی الدین رضی
  • Website

Related Posts

رؤف کلاسراکا کالم:بجلی مہنگی کیسے ہوئی؟ … (16)

ستمبر 29, 2023

کشور ناہیدکا کالم:رات دن نوٹ گنتی قوم کے ہاتھ خالی

ستمبر 29, 2023

سید مجاہد علی کا تجزیہ:کیا فیض آباد دھرنا کیس میں عدالتی حکم فوجی افسروں کے احتساب کا دروازہ کھول سکتا ہے؟

ستمبر 29, 2023

Leave A Reply

حالیہ پوسٹس
  • رؤف کلاسراکا کالم:بجلی مہنگی کیسے ہوئی؟ … (16) ستمبر 29, 2023
  • کشور ناہیدکا کالم:رات دن نوٹ گنتی قوم کے ہاتھ خالی ستمبر 29, 2023
  • سید مجاہد علی کا تجزیہ:کیا فیض آباد دھرنا کیس میں عدالتی حکم فوجی افسروں کے احتساب کا دروازہ کھول سکتا ہے؟ ستمبر 29, 2023
  • عطا ء الحق قاسمی کا کالم:مدینے کی گلیوں میں ستمبر 29, 2023
  • حیرت کدے میں حیرت ۔۔ایک فکر افروز کتاب کا ظہور : رضا مہدی باقری کا تبصرہ ستمبر 29, 2023
زمرے
  • جہان نسواں / فنون لطیفہ
  • اختصاریئے
  • ادب
  • کالم
  • کتب نما
  • کھیل
  • علاقائی رنگ
  • اہم خبریں
  • مزاح
  • صنعت / تجارت / زراعت

kutab books english urdu girdopesh.com



kutab books english urdu girdopesh.com
کم قیمت میں انگریزی اور اردو کتب خریدنے کے لیے کلک کریں
Girdopesh
Facebook Twitter YouTube
© 2023 جملہ حقوق بحق گردوپیش محفوظ ہیں

Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.