تعلیمی اداروں میں تدریسی نصاب اگرچہ یکجہتی کے فروغ کے لیے بنایا جاتا ہے مگر صرف ہمارے ہاں ہی نہیں دنیا کے اکثر ملکوں میں یہ نفاق اور نظریاتی تشدد کا باعث بن چکا ہے۔زمانہ ¿ موجود میں دنیا نصابی ترتیب و تدوین کے اعتبار سے دو حصوں میں منقسم ہو چکی ہے۔پہلے حصے میں وہ سبھی ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں کہ جن کے ہاں احسن اخلاقیات کے علاوہ صرف سائنسی، معاشی اور تجارتی علوم میں مزید تحقیق وجستجو کی راہ دکھائی جاتی ہے۔اِسی نصاب کی بدولت جہاں نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں وہاں آفات و بلیات اور بیماریوں پر قابو پانے کی پیہم کاوشیں جاری ہیں۔گذشتہ ایک صدی میں ہونے والی تمام تر ایجادات ایک طرف اور محض انفیکشن کے خلاف پینسلین اور ملیریا کے خلاف کونین کی دریافت ایک طرف کہ جس نے لاکھوں لوگوں کو بے وقت مرنے سے بچائے رکھا ہوا ہے۔وہ سبھی خواب جو کبھی داستانوں کی زینت ہوا کرتے تھے صرف ایک صدی کی جست میں اس طرح حقیقت بن چکے ہیں کہ حیرت کو بھی حیرت نہیں ہوتی۔
دوسری طرف وہ ممالک ہیں کہ جہاں نصابی کاریگری محض کنفیوژن کو جنم دے رہی ہے اورایسے روبوٹ پیدا کئے جارہی ہے کہ جن میں پیشہ ورانہ مہارت تو ہوگی مگر انسانی اقدار ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔بدقسمتی سے ایسے ممالک میں وطن ِ عزیز پاکستان بھی شامل ہے۔ہمارے ہاںنصابی کتب میں اگرچہ اخلاقیات پرصفحات کے صفحات سیاہ ملیں گے مگر فکری تضادات کے سبب پیدا ہونے والے منافقانہ طرز عمل نے اِن کی اثر انگیزی کوغیر موثرکر رکھا ہے۔ سندھ وادی پر مشتمل ہمارا موجودہ پاکستان اپنی فطری خوشحالی کے سبب ہمیشہ سے حملہ آوری کی زد پر رہا ہے۔یہ حملہ آور چاہے دیبل کے راستے داخل ہوئے ہوں یا خیبر کے راستے، سبھی کے طرز عمل میں ایک عمل یکساں تھا کہ یہاں کے لوگوں سے اُن کا حافظہ، اُن کی یاداشت، اُن کی زبان اور ثقافت کا چھین لیا جانا۔ذرا سوچئے کہ صدیوں کی حملہ آوری نے یہاں کی مقامی آبادی کی شخصی ماہئیت کو کس قسم کے قالب میں ڈھالا ہو گا۔یقینا ایک ایسا گونگا اور برہنہ فردکہ جسے کچھ بھی یاد نہیںکہ اُسے کس نے جنم دیا، کس نے پالا پوسا، وہ کون سی زبان بولتا تھا، کون سے تہوار مناتا تھااور اُس کا رہن سہن کیسا تھا۔کسی نے اُسے فضلو کے نام سے پکارا تو وہ فضلو ہو گیا اورکسی نے گاموں کے نام سے آواز دی تو گاموں بن بیٹھا۔
ہمیں ایک واضح نظریات کی حامل قوم کی بجائے مختلف الجھنوں میں الجھا ہوا فاترالعقل گروہ بنانے میں تاریخی ”نس بندی“ نے ظالمانہ سلوک کیا ہے۔صدیوں پہلے کے حملہ آور بھی یہی کیا کرتے تھے کہ اُن کی آمد سے پہلے کی تاریخ کو بہر صورت مفتوحہ قوم کی یاداشت سے بزور ِ شمشیر کھرچ کر مٹا دیا جائے اور ہمارے آج کے نصاب تراشوں نے بھی اِسی حکمت کی پیروی کو مقدم جانا ہوا ہے کہ یہاں ہزاروں برسوں سے رہنے والے لوگوں کو یہ نہ بتایا جائے کہ اُن کے اجداد کون تھے، کیسے تھے اورکیا کرتے تھے بلکہ انہیں ”ضیاالحقی“ عہد سے قبل پڑھائے جانے والے تاریخ، جغرافیہ اور شہریت کی غیر فطری تدفین کے بعد محض اِس بھونپوکی پکار پر لگا دیاہے کہ آج سے تمہارے لیے فلاں سنہ سے پہلے کی تاریخ کوئی تاریخ ہی نہیں یا تمہیں محض یہ یاد رکھنا چاہئے کہ تم فلاں سنہ سے ہو اور اُس سے پہلے تمہارا نہ توکوئی وجود تھا، نہ ہی تہذیب،شعر و ادب اور ثقافت۔ضیاالحقی عہد میں نصاب بنانے والوں نے نہ جانے کیسے یہ سمجھ لیا کہ تاریخ کو مسخ کرنے کے علاوہ اُس کے مختلف ادوارکو آج کے دور میں بھی پردہ پوشی کے چھو منتر کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے۔ چند لاکھ افراد کے قتلام اور لائبریریاں جلانے کے عمل کے ذریعے اقوام کی اجتماعی یاداشت سے کھلواڑ کا دور گزر چکا کیونکہ آج کا عہد اپنا ”بیک اپ“ساتھ ساتھ مرتب کرتا رہتا ہے۔
یہی سبب ہے کہ ہم آج تک ”قوم“ یا ”قومیت“ کی تعریف میں پھنسے ہوئے ہیں۔ایک طرف اُمہ کے تصور کو قوم سے جوڑتے ہیں تو پچاس اسلامی ملکوں کے درمیان ”ویزے“ کی پابندی ہمارا منہ چڑانے کو آ جاتی ہے۔ہم سے تویورپ کے 26 شینجن (Schengen) ممالک اچھے کہ جنہوں نے علیحدہ جغرافیائی وحدتوں کو بھی اپنی واحد پہچان میں حائل نہیں ہونے دیااور ویزے کی پابندیوں کو عملی طور پر مٹا کر رکھ دیا۔ ابھی ہم قومیت کے مذہبی تشخص سے باہر نہیں آپاتے کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم وہ زندہ اور پائندہ قوم ہیں کہ جس کی پہچان سب سے پہلے پاکستان ہے۔ اِس کے بعد ہمارا نصاب ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری ایک قومی زبان بھی ہے کہ جس کا نام اُردو ہے۔ مگر ہمارا نصاب ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ 1947ءمیں مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں پر مشتمل دو قومی نظریے کی اساس پر بننے والا ملک 1971ءمیں قومیت کی ”لسانی “ تعریف کی بنیاد پر اپنے مشرقی بازو سے کیوں محروم ہو گیاتھا۔اِس وقت ہمارے نصاب نے ہمیں ہماری تاریخ سے محروم کر دینے کے باوجودقومیت کے تشخص کے سلسلے میں ہمیں ایک ایسے اندھیرے چوراہے میں لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں ایک طرف ہمارے مذہبی رہنماو¿ں کی بتائی ہوئی تعریف ہے کہ جس کی جڑت اُمہ کے تصور سے ہے۔ایک جانب ہماری عساکر کی پاکستانیت پر مبنی حب الوطنی ہے تو اُس کے مقابل سیاسی رہنماو¿ں کی پارٹی سیاست کا اساسی زاویہ ¿ نگاہ ہے کہ جس کا مقصد قومی کی بجائے ذاتی مفادات کا تحفظ ہے۔ایسے میں قومیت کی تعریف ایک عام آدمی کے ہاں بھی ہے کہ جس کا پہلا اور آخری منشور صرف ایک وقت کی ہی سہی مگر پیٹ بھر روٹی ہے۔اب ایسے میں ابہام در ابہام اور الجھاو¿ در الجھاو¿ نے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے جس قسم کے گروہ کو جنم دینا تھا وہ اُس پاکستانی ”قوم“ کی صورت دنیا کے سامنے موجود ہے جن کے سبز رنگ کے پاسپورٹ میں محض قومیت کے خانے میں ”پاکستانی “لکھا ہوا ہے۔ ہماری اشرافیہ ”بلیو پاسپورٹ“ اور ”دوہری شہریت“ کے اقامے رکھنے کے سبب اِس قسم کی شناخت سے بھی جان چھڑا چکی ہے۔اگر الیکشن لڑ کر تین چار سال کے لیے وزارتی پروٹوکول کے مزے لوٹنے ہوں تو ”جزوقتی“ پاکستانی بن جانے میں کیا ہرج ہے بصورت دیگر پھر اپنے کسی دیگر مستقل مستقرکا پاسپورٹ یا کم از کم اقامہ تو ہوتا ہی ہے۔
ایک دور تھا کہ جب اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں میں ”غیر نصابی“ سرگرمیوں کے نام پر شخصیت سازی کی جاتی تھی مگر اب اُسے بھی بدل کر ”ہم نصابی“ اس لیے کر دیا گیا کہ آخر ”نصاب“ سے بھاگ کر کوئی جائے گا کہاں۔شخصیت سازی جاتی ہے بھاڑ میں تو جائے، نئی نسل انسانی اقدار و اوصاف سے عاری روبوٹ تو بن جائے۔میں حیران ہوتا ہوں کہ جب ہمارے مختلف قسم کے”پریشر گروپس“ ٹیکسٹ بک بورڈ زکی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کیسے کیسے پریشر استعمال نہیں کرتے اور ہماری سیاسی حکومتیں محض اپنے اچھے ”آج“ کے لیے آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سودا کرنے کے لیے اُن کے ”پریشر“ میں آنے کے لیے ذرا سی دیر بھی نہیں لگاتیں اِس لیے کہ اُن کے اپنے بچے تو ہر قسم کی برین واشنگ اور Robotic treatmentسے محفوظ و مامون ترقی یافتہ ملکوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ کیا کوئی کبھی سوچے گا کہ پکستان کی جغرافیائی وحدت میں رہنے والوں کی اصل شناخت ہے کیایا ہم یونہی کرایے پر دستیاب وہ گروہ ہی رہیں گے کہ جنہیں ایک خاص مقصد کے لیے بنائی گئے نصاب میں ڈھال کر مختلف قسم کے مذہبی، مسلکی اور لسانی تعصبات کے حوالے کر دیا گیا۔
فیس بک کمینٹ