اگرچہ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کو زندگی بھر یہی گلہ رہا کہ اقبال جیسے تناور شجر کے نام کے زیر سایہ رہنے کے سبب وہ اُس مرتبے سے محروم رہے کہ جو اُن کی دانش اور شخصیت سے لگا کھاتا تھامگر ایک نامور بیٹے کی حیثیت ہوتے ہوئے انہیں اپنے سے زیادہ نامور والد کی سوانح لکھتے ہوئے جن جن مشکل مقامات سے ادب کے تمام تر تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے گزرنا پڑا، وہ انہیں کا منصب تھا۔ وہ ایسی کئی جگہوں سے نہایت سہولت کے ساتھ اِس واسطے بھی گزرے ہیں کہ بقول اُن کے جب ایک عالی مرتبت باپ کی رحلت ہوئی تو اُن کی عمر صرف ساڑھے تیرہ برس تھی اِس لیے اُن کے عہد سے دوری کے سبب انہیں اپنے نقطۂ نگاہ یا اندازِ تحریر کو خارجی رکھنے میں آسانی محسوس ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ علامہ اقبال کی شخصیت اور افکار کو حقیقی معنی میں دیکھنے ، جانچنے اور پرکھنے کے لیے ’’زندہ رُود‘‘ سے بہتر کوئی دستاویز نہیں۔میرے نزدیک ’’اقبال فہمی‘‘ کا برتر تقاضا یہی ہے کہ انہیں ایک دیو مالائی مقام سے ہٹ کر خالصتاًانسانی اور شخصی حوالوں سے پڑھا جائے،اُنہیں اُن کے زمانے کے پس منظر میں سمجھا جائے اور اُن کی شخصیت کا تجزیہ محض مفکرِ پاکستان کی حیثیت سے نہ ہو بلکہ عالم اسلام کے ساتھ اُن کی دردمندی سے سَوا اُن کے آفاقی اوصاف کا تذکرہ بھی ہو۔
اِس حقیقت میں تو کبھی کوئی دوسری رائے نہیں رہی کہ ہم منفی شخصیت پرستی میں پوری دنیا سے ہٹ کر ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔جب کبھی کسی پر مہربان ہوتے ہیں تو اُسے فرشتوں کا ہمسربنا دیتے ہیں اور جب کبھی صورت نامہرباں سی ہو تو اپنے سابقہ ممدوح کا لاشہ ہزیمت اور گمنامی کے پاتال میں پھینکنے کو اُٹھائے پھرتے ہیں۔نصاب کی کتب میں تو ہمیں صرف اُن باتوں کا تذکرہ ملتا ہے کہ جنہیں ہم اپنے سیاسی بیانیے کی ترویج کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ بہ حیثیت ایک قوم ہم ایک کنفیوژن کی حالت میں معلق رہتے ہیں اورجب کبھی ہمیں نصاب سے ہٹ کر مطالعے کا موقع ملتا ہے تواِس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ ہم اُن باتوں پر بھی یقین کر لیں کہ جو کسی بدخواہ کی مہم جوئی کا بیانیہ رہی ہوتی ہیں۔ہم نے اپنی ملکی تاریخ کو اپنی مرضی سے ترتیب دینے کے زمرے میں ہر بار پہلے سے زیادہ مسخ کئے چلے جاتے ہیں۔ کیا کچھ نہیں کیا ہم نے اپنے دو عظیم رہنماؤں محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی شخصی پورٹریٹ میں اپنی مرضی کے رنگ بھرنے کے بے رحمانہ عمل میں۔ہم نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر دور کے مقتدر نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے واسطے من گھڑت اقوال اور پیغامات کو اُن سے منسوب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
غیرمنقسم ہندوستان میں ترک موالات کی تحریک ہندو ذہنیت کا مکاشفہ تھی کہ جس کے بعد میرے نزدیک پاکستان کا بننا کہیں آسمانوں میں طے ہو گیا تھا۔لیکن اِس تحریک کے دوران حضرتِ علامہ کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا اُس کا اندازہ ’’زندہ رُود‘‘ سے لیے گئے اِس اقتباس سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
’’تحریکِ ترکِ موالات سال بھر سے جاری تھی لیکن عوام کے جوش وخروش کے ٹھنڈا پڑنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔اِسی اثناء میں بعض تعاون پسند مسلم قائدین نے سوچا کہ خلافت کانفرنس نے کانگرس سے اتحاد کر کے مسلم لیگ کی اہمیت ختم کر دی ہے لہذا اُسے از سرِ نو زندہ کر کے مسلمانوں کو احتجاجی سیاست سے نکال کر آئینی سیاست کی طرف آنے کی ترغیب دینا چاہئے۔چنانچہ آغا خان ایک طرف تو تحفظِ خلافت کی حمایت میں بیان دینے لگے اور دوسری طرف محمد علی جناح کے ذریعے مسلم لیگ کے احیاء کی کوششیں تیز تر کر دیں۔اقبال نے اِس محکومانہ سیاسی حکمت عملی کو تحسین کی نگاہ سے نہ دیکھا اور ’’صدائے لیگ‘‘ کے عنوان سے چند اشعار میں، جو’’ زمیندار‘‘9نومبر 1921ء میں شائع ہوئے، آغا خان اور محمد علی جناح دونوں کو اپنی طنز کا نشانہ بنایا۔اقبال کے بیشتر سوانح نگار یہی سمجھتے ہیں کہ اقبال نے اِس عہد کی پر شور سیاست کے سبب کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور اس کے ہنگاموں سے الگ تھلگ ’’پیامِ مشرق‘‘کی ترتیب میں مصروف رہے۔لیکن یہ خیال درست معلوم نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے نقطہ ٗ نظر کو نہ تو کوئی سمجھتا تھا اور نہ کوئی قبول کرنے کو تیار تھا۔عدم تعاون کے حامی علماء اور مسلم سیاسی رہنما سب اُن کے خلاف ہو چکے تھے۔اِسی طرح تعاون پسندمسلم قائدین بھی انہیں شبے کی نظر سے دیکھتے تھے۔اقبال کے ساتھ کوئی نہ تھا۔اِسی دور میں اُن کی کردار کشی کی مہم کا آغاز ہوا۔سو اقبال کی لا تعلقی یا خانہ نشینی کا اصل سبب عالمِ تنہائی تھا اور وہ کسی ایسے ہمدم یارفیق کے لیے ترستے تھے جو اُن کا ہم خیال ہو۔اِس تنہائی کا احساس انہیں چند برسوں سے لگاتار ہو رہا تھاجیسا کہ ’’اسرارِ خودی‘‘ کے آخر میں دعائیہ اشعار سے ظاہر ہے‘‘۔
حضرتِ علامہ جیسی نابغۂ روزگار شخصیت بھی اپنے سے ہونے والے ’’سلوک ‘‘ کے سبب فکری شکستگی کا شکار ہو کر کس طرح خوداعتمادی کے بحران سے گزری، اِس کا احوال بھی کسی اور سے نہیں بلکہ ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کی زبانی ’’زندہ رُود‘‘ میں سے سنیے۔
’’نظم ’’خضرِ راہ‘‘ کے متعلق بعض باتیں غور طلب ہیں۔ پہلی یہ کہ جن دنوں اقبال نے یہ نظم لکھنا شروع کی اُن پر نقرس کے مرض کا شدید حملہ ہوا اور انہوں نے کئی راتیں لگاتار بیداری کے عالم میں گزاریں۔وہ انار کلی والے مکان کی بیٹھک سے ملحقہ کمرے میں اُٹھ آتے تھے اور رات کو عموماً علی بخش اُن کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ایک شب درد کی شدت کے سبب اُن پرنیم بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔اس کیفیت میں انہیں محسوس ہوا گویا کوئی مرد بزرگ اُن کے پاس بیٹھا ہے۔اقبال اس مرد بزرگ سے سوال پوچھتے ہیں اور وہ اُن کے ہر سوال کا جواب دیتا جاتا ہے۔کچھ دیر کے بعد وہ مرد بزرگ اُٹھتا ہے اور چل دیتا ہے۔اس کے رخصت ہونے کے فوراً بعد اقبال نے علی بخش کو آواز دے کر بلایا اور اُس مرد بزرگ کے پیچھے دوڑایا تاکہ اُسے واپس لے آئے ۔علی بخش کا بیان ہے کہ وہ بیٹھک کے فرش پر لیٹا اُس وقت جاگ رہا تھااور اقبال کو تنہائی میں کسی سے باتیں کرتا سن رہا تھا۔رات کے تقریباً تین بجے تھے۔علی بخش تعمیل حکم میں پھرتی سے سیڑھیاں اترا لیکن نچلے دروازے کو مقفل پایا۔دروازہ کھول کر باہر نکلا لیکن ہو کا عالم طاری تھا اور بازار کے دونوں طرف دور دور تک اسے کوئی بھی شخص دکھائی نہ دیا۔سو ظاہر ہے کہ نظم تحریر کرتے وقت کسی مرحلے پر اقبال حالتِ سکر سے گزرے، کیونکہ وہ بیمار تھے اور شدت درد کا وہ عالم تھا کہ شعوری طور پر اس پر غالب آنا یا حالتِ صحو برقرار رکھنا غالباً اُن کے لیے ممکن نہ رہا تھا۔اس کے علاوہ شدید تنہائی اور ہر طرف سے مخالفت کے سبب انہیں شاید اپنے آپ پر اعتماد نہ رہا تھااور اُن کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گیا تھاکہ اُن کا موقف غلط ہے یا وہ صحیح راہ سے بھٹک گئے ہیں اور انہیں راستہ دکھانے کے لیے کسی راہبر کی ضرورت ہے‘‘۔
کیا بدقسمتی تھی کہ عالم اسلام کا وہ عظیم راہبر کہ جس نے اپنی فکر کی بالیدگی سے جہانِ نو کی صرف بشارت ہی نہیں دی بلکہ اُس کی بنیاد رکھی، اپنوں کے رویے کا کس قدر شاکی تھا۔ہمیں چاہئے کہ اپنے نصاب کو مرتب کرتے وقت اُس پس منظر کو بھی نمایا ں کر نا چاہئے کہ جس سے گزر کر ہماری ممدوح شخصیات کامرانیوں کے مدارج تک پہنچیں۔اُن مشکلات کا بھی ذکر ہو نا چاہئے کہ جنہوں نے انہیں کندن بنایا۔اُن ہزیمتوں کا بھی چرچا ہو کہ جو بالآخر اُن کی توقیر پر منتج ہوئیں۔کہیں کوئی تذکرہ اُن مخالفتوں کا کہ جن کے نتیجے میں اِک جہان کی محبتیں اُن کی رفیق ہوئیں۔ہم درباری تاریخ نویسی کے ماہر ہیں کہ جو عوامی بیانیے کے لاشے پر استوار ہوتی ہے اور اُسے قبروں میں اتارتے اتارتے خود ہی دفن ہوتی چلی جاتی ہے۔ہمیں زندہ رہنے والی تاریخ چاہئے، جو زندگی کی مانند ہوتی ہے اور زندگی جو صرف خوشیوں سے عبارت نہیں ہوتی اُس میں درد کے پیوند بھی جابجااپنی ایک تابندہ پہچان رکھتے ہیں۔بس ذرا توازن سے کام لیجئے۔ہمیں توازن ہی درکار ہے۔
فیس بک کمینٹ