اِن دنوں پھر ایک ہنگام کا سامنا ہے کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ تین سال گزرنے کے باوجود عوامی ملاحظے کے لیے ظاہر کیوں نہیں کی جارہی۔ چند روز پہلے عدالت ِ عالیہ لاہور کے ایک معزز جج نے اِسے ظاہر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ جوڈیشل یعنی عدالتی کمیشن کی کاروائی پر مبنی رپورٹ ہونے کے ناتے عدالتی دستاویز ہے جسے خفیہ نہیں رکھا جاسکتا ۔اِس پر بھی حکومت ِ پنجاب نے نہ جانے کیوں مناسب جانا کہ اِس حکم کے خلاف اپیل کی جائے۔ ظاہر ہے اِس نوعیت کی استدعا مسترد ہونا ہوتی ہے لہذامسترد ہوئی۔مگر اِس وقت تک یہ رپورٹ مکاشفے کے عمل سے گزر نہیں پا رہی۔
وطن عزیز میں کسی بھی بڑے سانحے کے بعد ون مین ٹریبونل(One Man Tribunal) یا عدالتی کمیشن بنائے جانے کی روایت اپنے اپنے زمانے کے مقتدر اصحاب کے لیے ”مٹی پاؤ “ کا بہترین اور تیر بہدف نسخہ رہی ہے۔برانگیختہ جذبات اور امن امان کی صورتحال سے نمٹنے کے نام پر کمیشن کا بنایا جانا اور پھر ضابطے کی طوالت اور عوامی جذبات کے سرد پڑ جانے کے بعد رپورٹس کو سرد خانے میں پھینک دیا جانااب تک کارگر سیاسی وتیرہ چلا آرہا ہے۔اگر سینکڑوں نہیں تو درجنوں ایسی رپورٹیں گزشتہ ستر برسوں میں دیمک کے دہن کی نذر ہو چکی ہیں کہ جن کا عوام تک بروقت پہنچنا ملک کی انتظامی تقدیر بدل سکتا تھا۔ کسی بھی بڑی بد انتظامی یا غفلت کے آئندہ نہ دہرائے جانے کا ایک ہی حل تھا کہ کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں غفلت کی مرتکب مقتدر انتظامیہ کو نشان عبرت بناتے ہوئے کیفر کردار تک پہنچایا جاتا۔مگر منیر نیازی کے شعر کے ضرب المثل مصرعے ”کجھ شہر دے لوک وی ظالم سَن کجھ ساہنوں مرن دا شوق وی سی“ کے مصداق کچھ تو روٹی روزی کے چکر میں پاکستانی عوام اپنے حافظے سے محروم کی جا چکی ہے اور بڑے سے بڑا سانحہ بھلا دینے میں دیر نہیں لگاتی دوسرا یہ کہ اپنے حاکم بھی اتنے ”دریا دل“نہیں کہ اپنی ذاتی درباری بیوروکریسی کو چوک چوراہوں میں لٹکا کر خودگھر کی راہ لیں۔لہذالیاقت علی خان کے قتل سے لے کر سقوط ِ ڈھاکہ اور سقوط ِ ڈھاکہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن تک کمیشن بنتے رہے، کارروائیاں ہوتی رہیں اور انجام کار سینکڑوں صفحوں پر مبنی رپورٹیں رزق ِ خاک ہوتی رہیں۔
اپنے تئیں یہ کمیشن بہت سوچ سمجھ کر بنائے جاتے ہیں۔اس کے سربراہ کا تقرر پوری چھان پھٹک کا متقاضی ہوتا ہے۔وفاداریاں جانچی جاتی ہیں اور ممکنہ رپورٹ کے بارے میں پوری احتیاط کے ساتھ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔مگر اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ سارے اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور مردے کو گاڑے جانے کی بجائے قبر کھود کر سانحے کی باقیات بھی نکال لی جاتی ہیں۔یہ رپورٹیں وہ ہوتی ہیں کہ جنہیں پھر کبھی دھوپ تو کیا روشنی بھی نہیں ”دکھائی“ جاتی کیونکہ اندازے غلط ہو جانے کے سبب کبھی کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ الزام کسی اور کو دینے کی بجائے ”قصور اپنا نکل آتا ہے“۔اِس طور دانستہ بند کر دی گئی گلی کے دوسرے کونے سے مکافات ِ عمل کی ایستادہ ٹکٹکی اُس خوف کو جنم دیتی ہے کہ جس کے سبب کوڑے کی طرح لہراتیں یہ رپورٹیں چھپانی پڑ جاتی ہیں۔سانحہ مشرقی پاکستان کی وجوہات جاننے کے لیے بنائے گئے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ 5 جولائی 1977ءہوجانے کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو کے پلنگ کے نیچے سے ملی اور اُسامہ کی ہلاکت کے بعد بنائے جانے والے جسٹس جاوید اقبال کمیشن کی رپورٹ ابھی تک شائع نہیں ہوئی۔میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر بنائے جانے والے کمیشن نے اگرچہ اسے سازش قرار دیا مگر یہ سازش کس نے کی کچھ پتہ نہ چلا۔
اپنی عدالتی ملازمت کی زندگی میں مجھے دو مرتبہ ”یک شخصی تحقیقاتی ٹریبونل“ کی کاروائی میں شمولیت کا موقعہ ملا۔پہلی بار 1997ءمیں جب شانتی نگر خانیوال میں مسیحی آبادی کے گھر جلائے گئے۔اِس ٹریبونل کے سربراہ اُس وقت کے ضلعی جج مسعود اختر خان تھے اور میں سول جج کی حیثیت میں رجسٹرار مقرر ہوا۔میرے تبادلے کے بعد ٹریبونل کے سربراہ اُس وقت ہائی کورٹ کے جج جسٹس تنویر احمد خان اور رجسٹرار سینئر سول جج رانا ظہورالحق ہوئے۔اِس ٹریبونل کی رپورٹ پر کیا اور کتنا عملدرامد ہوا، کوئی نہیں جانتا۔دوسری بارمجھے جولائی 2012ءمیں ”سانحہ میانوالی“ کی تحقیقات کے لیے ”یک شخصی ٹریبونل“ کا سربراہ مقرر گیا۔اُن دنوں میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے طور پر ضلع بھکر میں تعینات تھا۔ شاید کسی کی یاداشت میں ہو کہ بظاہر لوڈشیڈنگ کے خلاف آٹھ ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے میانوالی شہر میں مقامی سیاسی قیادت کی اشیر باد سے بہت بڑا جلوس نکالا اور پھر مبینہ طور پر طے شدہ معاملات کے تحت اِس کا رخ چشمہ پاور پلانٹ کی ایٹمی تنصیبات کی طرف موڑ دیا گیا کہ مقصود اسے نقصان پہنچانا تھا۔اُس وقت کے ڈی سی او اور ڈی پی او نے جب مشتعل ہجوم کو باز رکھنا چاہا تو انہیں زندہ جلانے کی کوشش کی گئی۔پولیس نے امن امان کی بحالی کے لیے گولی چلائی تو دو لوگوں کی ہلاکت نے مزید اشتعال پھیلا دیا۔
اِس افسوس ناک واقعے کی تحقیقات کے دوران میں نے نہایت عرق ریزی سے اِس کی وجوہات تلاش کیں اور آئندہ کے لیے ضلع میانوالی میں اِس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے تفصیلی تجاویز مرتب کر کے حکومت ِ پنجاب کو ارسال کیں۔مگر آج تک نہ تو اِس سانحے کے کرداروں کو بے نقاب کیا گیا اور نہ سفارشات پر عمل درامد کیا گیا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ اس ذہنی مشقت سے گزرتے ہوئے میرے دل میں پاک فوج کی عظمت اور بھی ثبت ہو کر رہ گئی۔ چشمہ پاور پلانٹ کی حفاظت کے لیے اُٹھائے جانے والے اقدامات سے یہ احساس راسخ ہوا کہ ایک سولین کا عمر بھرکی منصبی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا ایک فوجی کی اُس ایک رات کا بدل بھی نہیں ہو سکتا کہ جو وہ مادر وطن کی حفاظت کے لیے یک وتنہا کسی ان دیکھی گولی کے انتظار میں بلا خوف سرحد وں پر گزارتا ہے۔ شہادتوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جس نے ہر سمت کے دشمن کے ارادوں کو ناکام بنا رکھا ہے۔بائیس برس کے شہید لیفٹیننٹ ارسلان ستی کے والد کی عظمت کو داد دیجئے ،کون اِس شان سے اپنے اکلوتے بیٹے کی شہادت پر فخر کرتا ہوادکھائی دیتا ہے۔
میرے نزدیک اِس قسم کے ٹریبونل محض عدلیہ کے کندھے کو استعمال کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں کیونکہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود عام لوگوں کا ملکی عدلیہ پر اعتمادروز بروز فزوں تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور انتظامیہ نہایت ہوشیاری سے اپنے آپ کو بچا رکھنے کے لیے عدلیہ کو کانٹوں میں گھسیٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔انتخابات ہی کو دیکھ لیجئے۔تمام تر مفادات کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر محض ریٹرننگ افسری جیسی کلرکی کے لیے ضلعی عدلیہ کوہدف تنقید بنانے کے لیے سامنے کر دیا جاتا ہے۔میں نے بطور ریٹرنگ آفیسر چھ الیکشن کرائے اور ہر بار پہلے سے سوا تلخ تجربات ہوئے۔ مگر جب ضلعی عدلیہ کو لوکل باڈیز کی سطح کے انتخابات میں بھی جھونک دیا گیا تو پہلی بار اِس کی توقیر مجروح ہوئی ۔ میرے نزدیک عدلیہ کو انتظامی معاملات میں گھسیٹنا اُس بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہے کہ جس کے تحت 1995ءمیں ضلعی سطح پر عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کیا گیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ اُس وقت کے ایک فاضل جج صاحب نے نہایت دردمندی سے کہا تھا کہ انتظامی مجسٹریسی انتظامیہ اور ضلعی عدلیہ اور عوام اور ضلعی عدلیہ کے مابین بفر زون(Buffer Zone)ہے اور اسی کے دم سے نظام ِ عدل کا بھرم قائم ہے۔جس روز یہ بفر زون ختم ہواتو بہت سے طبقات براہ راست عدلیہ سے متصادم ہو ں گے۔ چونکہ اِس تقسیم کو انتظامیہ نے دل سے قبول نہیں کیاتھا اِس لیے اِس تقسیم میں کیا ہاتھ ہوا ، اُس کی تفصیل میں جانے کی بجائے اتنا سُن لیجئے کہ لاکھوں فوجداری مقدمات مجسٹریٹوں کی عدالتوں سے سول جج صاحبان کی عدالتوں میں ایک اضافی بوجھ کے طور پر منتقل ہوئے مگر نہ تو اضافی عملہ دیا گیا اور نہ ہی وہ سہولیات کہ جو انتظامی مجسٹریٹ صاحبان کو حاصل تھی۔نتیجہ کیا نکلا کہ بائیس برس گزرنے کے باوجود ہماری ضلعی عدلیہ تمام تر کوششوں کے باوجود اُس اضافی بوجھ کے آفٹر شاکس سے باہر نہیں آسکی ۔ ایسے میں حکومتی درخواستوں پر جوڈیشل کمیشن بنا دیے جانے کی روش کانٹوں بھری پگ ڈنڈی پر کانٹوں کے جنگلات اُگا دیے جانے کے مترادف ہے۔میرا دل چاہ رہا ہے کہ شعیب منصور کی فلم ”بول“کے مشہورترین مکالمے کی اس طرح تحریف کروں کہ” جب رپورٹ شائع نہیں کرسکتے تو جوڈیشل کمیشن کیوں بنواتے ہو“۔
فیس بک کمینٹ