کوئی جائے اور ہمارے محبوب وزیراعظم کی خدمت میں عرض کرے
”حضور! کون کہہ رہا ہے جنگ میں پہل کیجئے۔ بندوق اُٹھائیں اور دھن دھنا دھن“۔
لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں حکومت کو جو اقدامات اُٹھانے چاہئے تھے ان پر توجہ نہیں دی گئی، محض بیان بازی ہورہی ہے۔ اس سے دو تین قدم آگے بڑھیں۔
اقوام عالم کے دروازوں پر دستک دیں، حال دل سنائیں اور بھارت کا چہرہ دکھائیں۔
بس اتنی سی بات ہے ناراضی برہمی یا تاریخ سے عدم شناسائی کے طعنے درست نہیں۔
لاریب جنگ تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں دیتی۔ نسلیں بربادیوں کے عذاب بھگتتی رہتی ہیں؟۔
ویسے ایک مناسب مشورہ ہے وہ یہ کہ وزیراعظم اپنے وزیر ریلوے کو کہیں،
یا شیخ ! اپنی ذمہ داریاں دیکھ۔
ٹرینیں سات سے دس گھنٹے لیٹ ہو رہی ہیں، پچھلے ایک سال کے دوران ریلوے کے مسافروں میں 23فیصد کمی ہوئی ہے، وجہ ٹرینوں کا لیٹ ہونا ہے۔ 30نئی ٹرینیں سیاسی سٹنٹ کے سوا کچھ نہیں۔ کیا نئی مسافر بوگیاں اور انجن موجود تھے، نئی ٹرینیں چلانے کےلئے؟۔
بالکل بھی نہیں۔
پہلے سے مختلف روٹس پر چلنے والی گاڑیوں کی بوگیاں کم کی گئیں، نتیجہ کیا نکلا کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔
مسافر پلیٹ فارموں پر ذلیل وخوار ہوتے رہتے ہیں، وزیر ریلوے اپوزیشن اور مودی کو ٹھنڈی جگتیں مارتا رہتا ہے۔
جناب شیخ کو غالباً وزیردفاع یا وزیرخارجہ ہونا چاہئے تھا۔
جب یہ پہلے وزیر ریلوے ہوا کرتے تھے تو تاریخی خسارہ دےکر رخصت ہوئے تھے۔ اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینے کی بجائے وہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ آدھے اور پاؤ پاؤ بھر کے ایٹم بم موجود ہیں۔
”یا شیخ، تین درجن آدھے پاؤ اور دو درجن پاؤ پاؤ بھر کے ایٹمی بم تو پیک کر دیجئے“۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آخر متعلقہ وزراءاپنی اصل ذمہ داریوں پر توجہ کیوں نہیں دیتے۔
صحافت کے کوچے کے اس طالب علم کو حیرانی ہے۔ شفقت محمود جیسا پڑھا لکھا سابق بیوروکریٹ بھی اخلاقیات پر چاند ماری میں فخر محسوس کرتا ہے۔ تحریک انصاف ان کی چوتھی محبت ہے۔ قبل ازیں وہ پیپلزپارٹی میں رہے، مشرف کے پرجوش ساتھی بنے۔ نون لیگ کی ملازمت کی۔ اب وفاقی وزیر ہیں، اللہ انہیں مزید ترقیاں دے لیکن کم ازکم الفاظ کے چناؤ میں تو احتیاط کریں۔
جناب صدر (صدرمملکت) کے جاری کردہ ایک آرڈیننس کے ذریعے بعض بڑے صنعتکاروں کو 220ارب روپے معاف کر دیئے گئے۔ اس معافی پر اعتراض ہوا تو کوڈے نامی مخلوق اعتراض کرنے والوں کو گالیاں دینے پر اُتر آئی۔ بنیادی سوال یہ تھا کہ جو رقم وصول ہی صارفین سے کی گئی تھی وہ صنعتکاروں کو معاف کیسے کر دی گئی؟
بندہ پرور یہ اضافی ٹیکس نہیں تھے خالص صارفین کی رقم تھی۔
ایک ایسے وقت میں جب ہم پچھلوں کی لوٹ مار، اقرباءپروری اور ڈکیتوں کی کہانیاں سُن سُن کر بے حال ہو چکے ہیں اور خزانہ خالی ہے کی نوید سُن کر مرنے ہی والے ہیں، صارفین سے وصول کی گئی رقم میں سے 220ارب روپے معاف کر دئے گئے۔
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صنعتکار پچھلے الیکشن میں فنانسر تھے؟
کہتے ہیں صنعتکاروں نے ادائیگی کےخلاف رجوع کر رکھا تھا، درست۔
کیا ادائیگی وہ اپنے خالص منافع سے کر رہے تھے؟۔
سادہ سا جواب یہ ہے کہ بعض صنعتکاروں نے کھاد کی فی بوری 400روپے اضافی رقم وصول کی وہ بھی کاشتکاروں سے۔ پھر یہ حکومتی خزانے میں جمع کرانے سے انکاری کیوں ہوئے۔
معاف کیجئے گا معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ 220ارب روپے کی معافی میں سب سے زیادہ جس صنعتی گروپ کو فائدہ پہنچا یہ گروپ دو شناخت اور ایک غیرشناخت تین کمپنیوں پر مشتمل ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بننے والے اس جائنٹ وینچر نے نجکاری میں کھاد فیکٹری خریدی تھی، ہم سے لوگوں نے تب بھی شور مچایا تھا کہ 13ارب سے زیادہ کی کھاد فیکٹری 3ارب میں کیوں فروخت کی جارہی ہے۔
یہ سوال (اس وقت) بھی اسی کالم میں اُٹھایا تھا کہ نجکاری کے عمل میں اس امر کو مدنظر نہیں رکھا گیا کے نجی تحویل میں جانے والی کھاد فیکٹری نے سرکاری تحویل کے دنوں میں اپ گریڈیشن کےلئے بیرون ملک نئی مشینری کی مکمل ادائیگی کر دی ہے۔
اصولی طور پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ فیکٹری نجی تحویل میں جاتی لیکن جو مشینری خریدی گئی تھی وہ حکومت کی ملکیت رہتی مگر جناب جنرل پرویز مشرف کے دباؤ پر نجکاری کمیشن اور وزارت تجارت نے خاموشی سادھ لی۔
انہی دنوں یہ الزام بھی لگا کہ کھاد فیکٹری خریدنے والے مالیاتی گروپ کے تین حصہ داروں میں ایک خاموش حصہ دار جنرل مشرف ہیں۔ انہوں نے اس کی تردید نہ کی، خاموشی نے الزام کی صداقت پر حرف نہ آنے دیا۔
اب جو 220ارب روپے وہ بھی صارفین سے لئے گئے صنعتکاروں کو معاف کر دئے گئے ان میں سب سے زیادہ فائدہ اسی گروپ نے اُٹھایا جس کے حوالے سے یہ بات ہوئی تھی کہ جنرل پرویز مشرف اس کے حصہ دار ہیں۔
دوسرے دو حصہ داروں میں عارف حبیب گروپ اور فیصل مختار شامل ہیں۔
اسی طرح ایک ایسے ٹی وی چینل کا مالیاتی سکینڈل سامنے آیا ہے جو دو ہزار گیارہ سے تحریک انصاف کی حمایت میں پیش پیش ہے۔ تین ارب روپے منافع کمانے والے اس میڈیا ہاؤس پر ایک سال کے عرصہ کا ایک ارب روپے ٹیکس واجب الادا ہے ( کل رقم پانچ ارب اس میڈیا ہاؤ س کے ذمہ ہے ٹیکسوں کی مد میں )۔
صاف سیدھے لفظوں میں یہ کہ تحریک انصاف حکومت اور خود جناب وزیراعظم کی ساکھ متاثر ہوئی اور ہو رہی ہے۔
وزیراعظم کو اس صورتحال کا ذاتی طور پر نوٹس لینا ہوگا۔ انہیں دیکھنا ہوگا کہ وفاقی کابینہ سے 220ارب روپے صنعتکاروں کو معاف کرنے کی منظوری کیوں لی گئی۔
ذاتی زندگی میں پائی پائی کے حساب پر اُلجھنے والے عمران خان نے کیسے 220ارب روپے معاف کرنے کی منظوری دےدی۔
یہی وہ سوال ہے جو عام لوگوں کی زبان پر ہے۔
حرف آخر کے طور پر دو خبریں ہیں، اولاً یہ کہ وزیراعظم نے دو ستمبر کے دورہ لاہور میں پنجاب کابینہ کے سابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان کو دوبارہ صوبائی کابینہ میں شامل کرنے کی منظوری دےدی ہے۔ یہ خبر وزیراعظم اور ان کی جماعت پر مزید سوالات کھڑے کرے گی۔ علیم خان کا کیس ابھی زیرسماعت ہے۔ حکومت جو اصول ان کے حوالے سے پیش کرے گی وہ اصول اپوزیشن کیلئے کیوں نہیں؟
دوسری خبر یہ ہے کہ 23ارب70کروڑ روپے سرمایہ کاروں کو ری فنڈ کرنے کی منظوری دےدی گئی ہے، کیا وزارت خزانہ عوام کو بتانا پسند کرے گی کہ ری فنڈ کی جانے والی رقم وصول کرنے والوں نے کتنا ٹیکس دیا مختلف مدوں میں؟۔
( بشکریہ : روزنامہ مشرق پشاور )